تازہ ترین

پیر، 22 جون، 2020

خدا کی شان وہ نادان ہمیں گونگا سمجھتا ہے

تحریر:محمد مجیب احمد فیضی۔سابق استاذ/دارالعلوم اہل سنت فیض الرسول برواں شریف۔رابطہ نمب8115775932 

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ,جب سے دنیا قائم ہوئی ہے,اس روئے زمین پر اچھے برے(یعنی) دونوں طرح کے لوگ پائے گئے۔ جب جب بروں نے حیوانیت کی انتہا اور انسانیت کا ناجائز خون کر نا چاہا ہے تب تب اچھوں نے اپنے تزکئہ قلوب اور پاسدارئ سنت سے انسان بن کر انسانیت کی رکچھا (حفاظت) بھی کیا ہے۔یہ اور بات ہے کہ بروں کے باالمقابل اچھوں کی تعداد ہمیشہ کم ہی رہی۔لیکن یہ بھی مسلم ہے کہ نیکوں کی قلیل جماعت ہمیشہ شریروں پر غالب وبھاری رہی۔کیوں کہ سچائی اور جھوٹھائ کی جنگ میں جیت ہمیشہ حق(سچ) کی ہوئی ہے۔کیوں کہ سچ "سچ "ہے اور "جھوٹ جھوٹ "ہوتا ہے۔ ہزارہا کوششوں کے باوجود بھی دونوں کا اجتماع محال ہے۔دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ جہاں جھوٹ کا وجود ہوگا وہاں سچ کی بو تک نہیں آئے گی,ایسے ہی جہاں سچ کا وجود ہوگا وہاں جھوٹ قریب نہیں آسکتا ہے۔دونوں کے درمیان تباین کی نسبت جو موجودہے۔

بلا تشبیہ وتمثیل ابھی ماضی قریب میں مادر وطن ہندوستان کے نیوز چینل کے ایک غیر مہذب وغیر معیاری صحافی جن کا" نام امیش دیوگن" بتایا جاتا ہے,انہوں نے سلطان الہند سیدنا وسندنا غریب نواز خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃاللہ علیہ جو محب وطن(بھارت)کے کروڑوں انسانوں کے دلوں کی دھڑکن ہیں, ہندوستان پر جن کی(اکھا) حکومت ہے,جو صحیح معنوں میں ہند کے راجا ہیں, جن پر خاص کر ہندوستان کے مسلمان اپنی جانیں قربان کر سکتے ہیں, جن کی شان و عظمت کسی ھندوستانی پر مخفی نہیں, اور شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ ہر پارٹی (سیاسی غیر سیاسی) کے لوگ حاضری دیکر ان کی رفعت وبلندی سرخم تسلیم کرتے ہیں, ان کی شان میں گساخی کرتے ہوئے انہیں" اکرانتا "اور" لٹیرا" بتایا ہے۔ جس کو باالخصوس مسلمانان ہند قطعی برداشت نہیں کریں گے۔انہوں نہ صرف مسلمانوں کے دینی, مذہبی,روحانی, مقتدا کی اہانت کی ہے,بلکہ, ان کے بیشمار متوسلین ومعتقدین اور ان کے چاہنے والوں کے دلی جذبات کا نا جائز خون کرتے ہوئے, اپنی کم علمی ونادانی کا صحیح ثبوت یش کرتے ہوئےہندوستان کی مہذب صحافت کو بھی بدنام کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔
اور شاید ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلا حادثہ ہے,جب کسی صحافی نے اس طرح برے سر عام دینی و روحانی مقتدا کی شان میں گستاخی کی ہے۔

سلطان الہند خواجہ غریب نواز سیدنا و سندنا معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی شان میں اول فول بکنے والے اس صحافی کو شاید معلوم نہیں کہ, عقلاء اور دانشوران وطن کے نزدیک,خواجہ پاک ہند کے گنگا جمنی تہذیب کے سب سے بڑے نمائندے تسلیم کئے جاتے ہیں۔ان کے دربار میں مانگنے والوں کی ایک غیر معمولی قطار اپنی آرزوؤں تمناؤوں کے ساتھ ہمیشہ قیام پزیر رہتی ہے۔جن کے دربار میں باالخصوص قوم مسلم کے علاوہ دوسری قوم کے لوگ(غیر مسلم) کثیر تعداد میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ہندوستان کا میڈیا مسلمانوں کی ایذاء رسانی اور نفرتوں کی بیج ڈالنے میں اس قدر گر جائے گا اس طرف ہم سوچ بھی نہیں سکتے تے۔خاص کر اس نازک سی گھڑی میں جبکہ ملک کرونا وائرس جیسی مہلک وباء سے لڑنے میں مصروف عمل ہونے کے ساتھ ملک کی معیشت واقتصادی حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ملک بیحالی اور بدحالی کا شکار ہے۔دو سو روپیہ یومیہ مزدوری کرکے اپنا اور اپنے اہل وعیال کا پیٹ بھرنے والا

بے بس و لاچار ومجبور غریب مزدور ملک میں لاک کے باعث (covid 9)سے کم اور بھوک مری سے زیادہ حیران وپریشان ہے۔ایسے ماحول میں کچھ موقع پرست اور لالچی میڈیائی افراد دیس کو فرقہ پرستی اور مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کرکے ملک کی امن وشانتی چھین کر دہکتے ہوئے آگ کی شعلوں میں جھونکنے کا کام کر رہے ہیں,جوانتہائی شرمناک ہونے کے ساتھ ہر حال میں قابل مذمت ہے۔  شعر: 
وہ خواجہ جواپنی تربت میں لیٹ کر حکومت ہند کے راجا کرتے ہیں۔
خواجہ معین الدیں کی اپنی عظمت ہی کچھ ایسی ہے۔

ملک کے سیاسی عہدیداران سے ایک اپیل:

میں تو اس لائق نہیں کہ ملک کے ذی شعوروں اور  بڑے بڑے سیاسی عہدیداروں کو مشورہ دوں البتہ ملک کا ایک ناگرک ہونے کے ناطے اپنا بھی کچھ وطنی فریضہ ہے۔اس لئے کہنا پڑ رہا ہے کہ وطن کی امن و شانتی وخیر سگالی برقرار رکھنے کے لئے اس طرح کی حرکتوں اور حرکت کرنے والوں پر سخت پابندی لگا کر غیر جانبدارانہ حکومت کا ثبوت فراہم کرے۔مادر وطن ہندوستان میں نفرتوں کی بیج بونے والوں کی کمی نہیں ہے,کبھی کوئ اذان پر تکلیف کی بات کرتے ہوئے اپنی ٹویٹر ہینڈل سے آپتی جنک بیان ٹویٹ کرتا ہے۔ تو کبھی دھارمک استھلوں پر نشانہ سادہ جاتا ہے۔تو کبھی مساجد ومدارس کو نشانہ بناکر  مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کی بھر پور کوشش کی جاتی ہے۔قدم قدم پر مسلمانوں کی شرعی امر  میں بیجا مداخلت کرنے کی ناپاک کوشش کی جاتی ہے۔یہ سب کیا ہے?کیا مسلمان یہاں کا ناگرک نہیں ہے?یا پہر یہاں کا مسلمان ہندوستانی نہیں?جی!نہیں ہم ناگرک ہونے کے ساتھ ہندوستانی ہیں۔اور یہ ایک جمہوری ملک ہے اگر چہ جمہوریت کا خون کرنے میں کچھ نا خلف سیاست دانوں نے کچھ دریغ بھی نہیں کیاہے۔

راقم الحروف حکومت ہندوستان سے مطالبہ کرتا ہے کہ جس پاک دربار میں آپ سرکاری چادر روانہ کرکے خراج عقیدت  ومحبت ہر سال پیش کرتے ہیں, اس  عظیم ہستی کی شان میں گستاخی کر نے اور انہیں" اکرانتا "اور" لٹیرا" کہنے والے امیش دیوگن نامی صحافی کو جلد از جلد گرفتار کر کے سخت کاروائی کی جائے۔تاکہ مستقبل میں دوسرا کوئی اس طرح کی شرمناک حرکت کرنے کی کوشش نہ کرے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad