تازہ ترین

اتوار، 21 جون، 2020

چین گھر میں آگیا اور ہم

محمد اویس سنبھلی ہندوستان کو ایک بار پھر اپنے سب سے بڑے اور طاقت ور پڑوسی ملک چین کے توسیعی مقاصد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دونوں ممالک کی سرحد پر بہت تناؤ ہے۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی چین کے ارادوں اور حرکتوں کو لے کر متعدد بار سرحد پر تناؤ کے حالات بنتے رہے ہیں، لیکن اس بار صورتحال سنگین ہے۔  پچھلے 45 برسوں میں یہ پہلا موقع ہے جب دونوں ممالک کے مابین خونی تصادم ہوا ہے۔افسوس! اس خونی تصادم میں ہمارے 20/جوان شہید ہوگئے۔
ہندوستان چین تناؤ کی بات ہو اور 1962کا ذکر نہ آئے، ایسا ہوہی نہیں سکتا اور ذکر ہونا بھی چاہئے کیونکہ ہندوستان اور چین کے مابین جنگ، آزاد ہندوستان کی تاریخ کا ایک انتہائی افسوسناک باب ہے۔


اس جنگ میں ہندوستان کی شکست ہوئی تھی اور اس کے ڈیڑھ سال بعد 1964میں اس وقت کے وزیر اعظم جواہرلال نہرو چین سے ملے دھوکے اور جنگ میں ملی ہار کا صدمہ لیے اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔چین سے جنگ اور نہرو کی موت، دونوں کو 55/سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن اس جنگ میں ملی ہار کے لیے ملک کے پہلے وزیر اعظم نہرو سے توموجودہ وزیر اعظم نریندر مودی ابھی بھی سوال کرتے رہتے ہیں اور سخت زبان میں ان پر کڑی تنقید کرتے ہیں اور یہاں تک کہ ایسا کرتے وقت وہ اپنے عہدے کے وقار اور شائستگی کو بھی بھُول جاتے ہیں۔

فی الحال چینی فوج نے ہندوستانی سرحد میں گھس کر تقریباً60 /مربع کلومیٹرزمین پر قبضہ کرلیا ہے اور اس کی فوج کے ساتھ ہوئی جھڑپ میں 20/ہندوستانی فوجی شہید ہوگئے ہیں۔ اس بارے میں پوچھے جارہے سوالات پر وزیر اعظم کی پارٹی اور ان کی سرکار کے دیگر رہنما اور وزراء، سوال پوچھنے والوں کو سیاست کرنے سے باز آنے کی نصیحت دے رہے ہیں اورانھیں غدار ملک تک قرار دیا جارہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ جمہوری طور پر منتخب حکومت سے کسی مسئلہ پر سوال پوچھنا کیا جرم ہے؟ 1962میں چینی حملے کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم نہرو کو بھی حزب اختلاف کے چبھتے ہوئے سوالوں کا سامنا کرنا پڑا تھا اور جواب میں اپنی کمزوری اور غلطی کا اعتراف بھی۔ اس وقت نہرو سے سوال پوچھنے والوں میں موجودہ وزیر اعظم کی پارٹی کے سب سے بڑے لیڈر اٹل بہاری واجپئی بھی شامل تھے۔ نہ صرف اٹل جی  ے سوالات پوچھے تھے بلکہ جب چین سے جنگ اپنے عروج پر تھی تب اپنی پارٹی جن سنگھ کے ایک وفد کی قیادت کرتے ہوئے پنڈت نہرو سے ملاقات کر پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلانے کی مانگ بھی کی تھی اور نہرو نے بنا کسی جھجھک کے اٹل جی کے مطالبہ سے اتفاق کیاتھا۔

 واجپئی اس وقت راجیہ سبھا کے رکن تھے۔ 9 /نومبر 1962 کو بلائے گئے پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں راجیہ سبھا میں اپنی لمبی تقریر کے دوران اٹل جی نے حکومت کی خارجہ اور دفاعی پالیسی کے حوالے سے اس وقت کے وزیر اعظم نہرو پر تیکھے جملے کسے تھے۔کانگریس کے پاس اس وقت دونوں ایوانوں میں بھاری اکثریت تھی لیکن بنا کسی روک ٹوک کے واجپئی اور دیگر اپوزیشن رہنماؤں کو سنا گیا۔کسی نے بھی انھیں غدارِ ملک نہیں کہا۔اسی کو تو جمہوریت کہتے ہیں۔
 اس بحث کا جواب دیتے ہوئے نہرو نے کئی معاملات میں اپنی حکومت کی غلطیوں اور کمزوریوں کا اعتراف کیا۔یہ الگ بات ہے کہ 1999 میں بھارت اور پاکستان کے مابین وادیِ کرغیل تنازعہ کے دوران جب کانگریس سمیت حزب اختلاف کی جماعتوں نے پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا تو واجپئی جی نے بطور وزیر اعظم اسے مسترد کردیا۔ 1962 میں، جنگ کے دوران اور جنگ کے بعد نہرو سے سوالات پوچھے گئے۔

 پارلیمنٹ میں حزب اختلاف جماعتوں نے ان کی خوب مذمت کی۔ چین نے ہندوستان پر حملہ کیا اور ’نیفا‘ (موجودہ اروناچل پردیش)کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کرلیا۔ جنگ کے بعد پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں ’چین سے جنگ‘ پر ایک بار پھر بحث ہوئی۔چین نے ہندوستان کے جس علاقے پر قبضہ کیا تھا، اس کے بارے میں بولتے ہوئے نہرو نے یہ کہہ دیا کہ یہ ایک بنجر علاقہ ہے، وہاں گھاس کا ایک تنکا تک نہیں اگتا ہے۔اس کے چلے جانے سے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ اس پر کانگریس کے ہی تجربہ کار رکن پارلیمنٹ مہاویر تیاگی نے نہروکو زبردست تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ، 'پنڈت جی، یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں، اس کا مطلب تو یہ ہے کہ اگر میرے سر پر بال نہیں بڑھتے ہیں تو،

 کیا میں اسے کٹوا دوں یا کسی کواور کو دے دوں؟' یہ مہاویر تیاگی کا زبردست تنز تھا۔ نہرو کو بھی فوراً ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ انہوں نے ایک کمزور اور غلط دلیل پیش کی ہے، لہٰذا نہرو نے اس پر کوئی کمینٹ کیے بغیر اپنی تقریر مکمل کی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ نہرو کے بیان اور مہاویر تیاگی کے جوابی بیان پر ایوان میں کوئی ہنگامہ آرائی اور نعرہ بازی نہیں ہوئی۔
 کیا ہم اپنے موجودہ وزیر اعظم سے اسی سیاسی وقار یا پارلیمانی شائستگی کی توقع کرسکتے ہیں جیسا کہ نہرو نے کیا تھا؟ صرف نہرو ہی کیوں، ان کے بعد لال بہادر شاستری سے لے کر اٹل بہاری واجپائی تک

کسی وزیر اعظم کے کام کا ریکارڈ جیسا بھی رہا ہو، لیکن پارلیمنٹ میں کسی نے بھی اپنے مخالفین کے خلاف کوئی طنز نہیں کیا ہے۔لیکن پچھلے چھ سالوں کے دوران جب قومی سلامتی سے متعلق کوئی سوال پوچھا گیا تو، وزیر اعظم مودی اور ان کی پارٹی نے اس کا منطقی جواب دینے کی بجائے اپنی کمزوری کو چھپانے کے لئے 1962 کی جنگ کی شکست کا حوالہ دیا ہے۔ 

یہ سچ ہے کہ 1962 کی جنگ میں چین کی شکست کینسر کی طرح ہے، جو آج بھی ہر ہندوستانی کو تکلیف پہنچاتاہے۔ لیکن کسی کو یہ فراموش نہیں کرنا چاہئے 1962 کی جنگ کے بعد جب بھی چین نے بھارت کے ساتھ کسی بھی طرح کی چھیڑ چھاڑ کی ہے، بھارت نے اس کا جواب دیا ہے۔ اسی سلسلے میں، 1967 کے ستمبر میں ناتھو لا اور اکتوبر میں چاؤ لو کی جدوجہد کو یاد کیا جاسکتا ہے۔ ستمبر 1967 میں، چین نے، 1962 کی طرح، سکم کے ناتھو لا علاقے میں اچانک دھوکہ دہی سے حملہ کیاتھا۔ لیکن چینی فوج، ہندوستانی فوج کی جوابی کارروائی پر دنگ رہ گئی تھی اور تیسرے دن اس نے جنگ بندی کی پیش کش کردی تھی۔ چینی اعدادوشمار کے مطابق اس تنازعہ میں 400 کے قریب فوجی مارے گئے۔ 1/ اکتوبر 1967 کو ایک بار پھر چین نے حملہ کیا۔

 اس بار اس نے چاو ئلو کو نشانہ بنایا۔اس میں بھی چینی فوج کو بھاری نقصان ہوا اور وہ اپنی سرحد پر واپس آگیا۔اس تصادم میں بھی چین کے تقریبا 350 فوجی مارے گئے۔ چین کے ساتھ ان دونوں جھڑپوں کی کامیابی نے سکم کے ہندوستان میں انضمام کی بنیاد رکھی اور 1971 میں پاکستان کی تقسیم کے بعد اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے سکم کو ہندوستان میں شامل کرلیا اور 1975 میں اسے مکمل ہندوستانی ریاست کا درجہ دے دیا گیا۔ تاہم، چین کے ساتھ ان دو جھڑپوں میں، ہندوستانی فوج کے تقریباً 80 فوجی بھی شہید ہوئے۔ اس کے بعد 1975 میں چار ہندوستانی فوجی اروناچل پردیش میں شہید ہوئے جب چینی فوجیوں نے گھات لگا کر حملہ کیا۔ لیکن1975 سے 15 جون 2020 تک ساڑھے چار دہائیوں کے دوران دونوں ممالک کے مابین کوئی فائرنگ نہیں ہوئی۔  

 وزیر اعظم مودی اور ان کی پارٹی صرف چین یا قومی سلامتی سے متعلق دیگر مسائل کے لیے ہی نہیں بلکہ دوسرے کئی مسائل کے لیے بھی نہرو کو اور ان کے بعد وزیر اعظم رہے خاص کر اندرا گاندھی اور راجیوگاندھی کو ذمہ دار ٹھہراتے رہے ہیں۔ لیکن ایسا کرتے وقت وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وزیر اعظم کی حیثیت سے نریندر مودی کو جو کچھ وراثت میں ملاہے، وہ نہرو کو نہیں ملا تھا۔ نہرو کے زمانے میں ہندوستان کے پاس آج کی طرح مسلح افواج، نیم فوجی دستے اور جدید آلات سے لیس بحریہ اور ایرفورس نہیں تھی۔ اس 

وقت ہندوستان کے پاس ایٹمی بم اور میزائل بھی نہیں تھے۔ اس سب کے باوجود اس نے حیدرآباد، جوناگڑھ، جموں و کشمیر، گوا، سکم، سیاچن اور سر کریک کو اس وقت دستیاب وسائل اور اپنی پختہ عزائم کے سبب ہندوستان کی سرزمین کا لازمی حصہ بنا دیا۔ نہرو کو مضبوط اور خوشحال معیشت کی وارث نہیں ملی تھی جیسے کہ مودی کو ملی اور جسے وہ اپنے الٹے سیدھے فیصلوں کی وجہ سے تباہ کررہے ہیں۔ ہندوستان کے ماتھے پر کسی تاج میں لگے ہیروں کی طرح چمکنے والی تمام کمپنیوں کو مودی حکومت ایک ایک کرکے نجی ہاتھوں میں بیچ رہی ہے، اس کی بنیاد نہرو نے رکھی تھی اور اس عمارت کو تعمیر کرنے میں نہرو کے بعد کے وزرائے اعظم نے اپنی اپنی خدمات دیں تھیں۔ اعلیٰ تعلیم کے جن اداروں کی آج ملک اور ملک سے باہر بھی ساکھ بنی ہوئی ہے، وہ مودی سرکار کی کاوشوں کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ یہ سب کچھ انھیں وراثت میں ملا ہے۔

 یہ معلوم کرنے کے لئے کہ نہرو اور اس کے بعد کے وزرائے اعظم نے ملک کو کیا دیا اور کیا نہیں، وزیر اعظم مودی اور ان کے سپہ سالاروں کو اپنے آنجہانی رہنما اٹل بہاری واجپئی اور ایل کے اڈوانی کی پارلیمانی تقریریں سننی چاہئیں اور ان پر غور کرنا چاہئے۔ بشرطیکہ اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت کے ذریعے وہ اپوزیشن جماعتوں کی ریاستی حکومتوں کو گرانے کے کام سے تھوڑی فرصت نکال سکیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad