تازہ ترین

پیر، 29 جون، 2020

سفرنامہ گورکھپور تا خاک دربھنگہ

⁩ قسیم اظھرسفر ایک مشکل ترین گھاٹی ہے،  ایک ایسی گھاٹی، جہاں مسافر کانٹوں بھری وادی کو طے کرتا، خار دار جھاڑیوں سے اپنے دامن سمیٹے خود کو صحیح سالم گزارنے کا خواہاں ہوتاہے،  ایک ایسا راستہ، جہاں اپنوں کے ساتھ بیتے لمحات کی یادیں دل پر زور آور حملہ کر رہی ہوتی ہیں،   ایک ایسی راہ، جہاں مصائب و آلام کے پرندے سر پر منڈلا رہے ہوتےہیں،  ایک ایسی جہان، جہاں یادوں کے بادل جذبات کی بارش کر رہے ہوتے ہیں، ایک ایسی منزل، جہاں کبھی شاہراہ ہوتے ہیں تو کبھی اونچے اونچے، بلند وبالا،پہاڑ،ایک ایسا بے آب و گیاہ جزیرہ، جہاں کبھی خونخوار جانوروں کی بھیانک آواز ہو تی ہے، تو کبھی غیر آباد ویران علاقے کی وحشت،ایک ایسی دنیا، جہاں کبھی آنکھیں، تاریخی عمارت، آثار قدیمہ اور پرانی یادوں کو مشاہدات کے ترازو میں تولی جاتی ہیں۔

گورکھپور
یہ شہر ہندوستانی ایجادات واکتشافات کی دلفریبیوں کامرکز اور "اردو ادب" کا گہوارہ رہا ہے، علمی و ادبی اعتبار سے اس علاقے کی مٹی بڑی زرخیز ہے، اسی لئے تو یہ شہر، مہدی افادی، مجنوں گورکھپوری، فراق گورکھپوری، ریاض خیرآبادی،ساقی فاروقی ، گورکھپرشادعبرت ،پریم چند، فطرت واسطی،اصغر گونڈوی، احمدگورکھپوری، عمر قریشی اور شبنم گورکھپوری کےنام سے پہچاناجاتا ہے۔

شہر گورکھپور کی رنگینیوں اور رعنائیوں سے دور گھنےجنگلات میں ایک دینی ادارے کا قیام، جو امت مسلمہ کے مرض کہن کی چارہ سازی،اور رہنمائی میں "اصحاب صفہ"کے اوصاف کی نقش پردازی کرتا، اپنی ترقی کے عروج کو چھو رہا ہے______میں بھی اپنی زندگی سے نبرد آزما ہونے اور زندگانی کو حقیقی معرفت عطا کرنے کے لیے اس نسخۂ کیمیا کا متلاشی وسرگرداں تھاجس کی بشارت چودہ سو سال قبل ہی اصحاب محمد کے سینے میں پیوست ہو گئے تھے۔

 ٢٠/ مئی ٢٠٢٠ء
صبح کا وقت سہانا، نسیم سحر  کی دھیرے دھیرے ، سائیں سائیں، کی سرسراہٹ بے جان پتوں میں روح پھونک رہی تھی__    قدرتی روشن چراغ کی کرنیں، پوری کائنات کو منور کر رہی تھی__درختوں کے پتوں کی زردی پر شبنم کے قطروں کی خوبصورتی ، منظر کو نکھار رہی تھی__ ضلع مہراجگنج سے نظر آنے والی ہمالیہ کی چوٹی ، قدرت کے نظاروں کو مزید دلکش بنا رہی تھی۔

ہمالیہ

 یاد رہے کہ "ہمالے" سنسکرتی لفظ ہے جس کے معنی "برف کا گھر " کے آتے ہیں۔

ہمالیہ اپنے ذیلی سلسلوں کے ساتھ دنیا کا سب سے اونچا پہاڑی سلسہ ہے جس میں دنیا کی بلند ترین چوٹیاں بشمول ماؤنٹ ایورسٹ اور کے ٹو موجود ہیں۔ 8,0000 میٹر  سے بلند دنیا کی تمام چوٹیاں اسی پہاڑی سلسلے میں واقع ہیں۔ اس سلسلے کی بلندی کو سمجھنے کے لیے یہ جان لینا کافی ہے کہ اس میں 7,200 میٹر سے بلند 100 سے زیادہ چوٹیاں ہیں جبکہ اس سے باہر دنیا کی بلد ترین چوٹی کوہ اینڈیز میں واقع اکونکاگوا ہے جس کی بلندی صرف  6,962 میٹر ہے۔

"دنیا کے بہت سے بڑے دریا جیسے سندھ، گنگا، برہم پتر، یانگزی، میکانگ، جیحوں، سیر دریا اور دریائے زرد ہمالیہ  کی برف بوش بلندیوں سے نکلتے ہیں۔ ان دریاؤں کی وادیوں میں واقع ممالک افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، بھارت، پاکستان، چین، نیپال، برما، کمبوڈیا، تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان، قازقستان، کرغیزستان، تھائی لینڈ، لاؤس، ویتنام اور ملائیشیا میں دنیا کی تقریباً آدھی آبادی، یعنی 3 ارب لوگ، بستے ہیں۔"

"ہمالیہ کا جنوبی ایشیا کی تہذیب پر بھی گہرا اثر ہے؛ اس کی اکثر چوٹیاں ہندو مت، بدھ مت اور سکھ مت میں  مقدس مانی جاتی ہیں۔ ہمالیہ کا بنیادی پہاڑی سلسلہ مغرب میں دریائے سندھ کی وادی سے لیکر مشرق میں دریائے برہمپترا کی وادی تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ برصغیر کے شمال میں 2,400 کلومیٹر لمبی ایک مہراب یا کمان کی سی شکل بناتا ہے جو مغربی کشمیر کے حصے میں  400 کلومیٹر اور مشرقی اروناچل پردیش کے خطے میں  150  کلومیٹر چوڑی ہے۔ یہ سلسلہ تہ در تہ پہاڑوں پر مشتمل ہے جن کی اونچائی جنوب سے شمال کی طرف بڑھتی جاتی ہے۔ تبت سے قریب واقع انتہائی شمالی سلسلے کو، جس کی اونچائی سب سے زیادہ ہے، عظیم ہمالیہ یا اندرونی ہمالیہ کہا جاتا ہے.

ہر ایک مسکراتا، ہنستا، خوشی سے اچھلتا، کودتانظر آرہا تھا؛ اور کیوں نہیں؟
 ہمیں تو صرف اور صرف اپنے وطن پہنچنا مقصود تھا،گھر کی روانگی ہمارے زخموں سے بھرے سینے کی مرہم پٹی کررہی تھی__ ملک کےناگفتہ بہ حالات، مزدوروں کی بے بسی_ 
ملک بھر میں مسلمانوں کی رسوائی___
لوگوں کی ہلاکت میں روز بروز اضافہ اور انسانیت کی خونریزی__
ان سب چیزوں سے ہمارا دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا، آخر نوجوان تھے؟
اور چچا غالب کی تائید کا سرٹیفکیٹ بھی حاصل تھا۔

رنج سےخوگر ہوانساں، تو مٹ جاتا ہے غم
مشکلیں مجھ پہ پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں

آخرکار! 
ہم بس پہ سوار ہو گئے، بس کے تمام پہیے تیزی سے گھوم رہے تھے __  اس کے سیٹی کی آواز خاموش فضاؤں ، نظر آرہی سنسان سڑکوں ، بند دکانوں ، سناٹے میں خاموش اور گم سم کھڑی  فلک بوس عمارتوں کو اپنی موجودگی کا احساس دلارہی تھی۔

قبل اسکے کہ بس کشی نگر پہنچ پاتی سورج کو بادلوں نے اپنےدامن میں چھپا لیا تھا__ آسمان اپنے تقاطر امطار سے زمین کو سیراب کر رہاتھا_ ہوائیں  درختوں کی ڈالیوں کو جھو منے پر مجبور کر رہی تھیں_  سڑکیں دور دور تک سنسان پڑی تھیں_ گویا کہ ہم ایسے جزیرے میں آگئے ہوں جہاں نہ کوئی بندہ تھا نہ بندہ نواز ، کہ یکایک  ایک بائیک پر بیٹھا شخص، چہرہ روشن اور نور سے منور، ٹوپی گول جسکے ارد گردنیچے سے پھولوں کے نقش ونگار، پیشانی پر سجدے کا نشان__ دیکھتے ہی دل انگڑائیاں لینے لگی، آنکھیں پرنم اور اشکبار ہو گئی، حضرت استاذ___کی یادیں ستانے لگی، کبھی ہائیوے پر لگے اشتہارات کو دیکھتا تو کبھی اپنے شیخ سے ملتی جلتی شکل کو جو میری طرف ٹکٹکی باندھے دیکھے جارہاتھا اور مسکرائے جارہاتھا۔

پھر کیا ہوا؟  
وہ انکے ساتھ بیتےسارے لمحے_ ان کا مجھ حقیر پر طنز کرنا_میری کامیابی کے لئے ان کا ہمیشہ کوشاں رہنا__ میری مسکراہٹ پر مسکرانا_شرارت پر ڈانٹ ڈپٹ کے نشتر چبھوتے کف افسوس ملنا_اشکالات واعتراضات کا کھل کر جواب دینا_انزلوا الناس علی منازلھم کے مطابق ہرایک سے گفتگو کرنا__اور انکا پند و نصائح سے ہر ایک کو فیضیاب کرنے نے اپنے دربار کا قیدی بنا لیا تھا ۔

دل کی نگاہ اس بائیک سوار شخص پر بارہا پڑتی ،جزبات کی آرزوئیں مچلنے لگتی__کیوں جدا ہو نے سے پہلے گلے نہیں لگا؟ 

ان کے پیر کیوں نہیں پڑا ؟
ان سے بچے کی طرح رو رو کر معافی کیوں نہیں مانگا؟  
پھر عقل نے دل کو سنبھالتےکہا۔

"پیارے! 
یہ دنیا جزبات اور آرزوؤں کے سہارے نہیں چلتی__ اچھا کیا تو نے پیارے_  ورنہ لوگوں کی تضحیک کی آماجگاہ بن گئے ہوتے___

کسی سے جدا ہونا اگر اتنا آسان ہوتا فراز
تو جسم سے روح کو لینے فرشتے نہیں آتے



دربھنگہ

 یہ وہی شہر ہے جہاں حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ کے خلیفہ حضرت مولانا شاہ منور علی دربھنگویؒ نے اپنے پیر و مرشد کے ایما پر مدرسہ امدادیہ دربھنگہ قائم کیا، جو بعد میں بہار کا دارالعلوم ثابت ہواتھا، 
اس ادارے نے بہار کو اس وقت  دینی تعلیم اور احیائے اسلام کا گہوارہ بنا دیاتھا۔
 اس ادارے میں مناظرِ اسلام مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری اور حضرت علامہ ابراہیم بلیاویؒ سابق محدث دارالعلوم دیوبند بھی تدریس کے فرائض انجام دے چکے ہیں، اس مدرسے کے فیض یافتگان میں علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا مناظر احسن گیلانی، قاضی مجاہدالاسلام قاسمی رحمہم اللہ سمیت لاتعداد اربابِ علم و فن ہیں۔

٢٢/مئی/٢٠٢٠ء
رات تاریک تھی اور آسماں میں سیاہ بادلوں کے مرغولے اب بھی چکرارہے تھے،  گاڑی اندھیرے کو چیرتی ہوئی چکنی سڑک پر پھسلتی ٤/ بجے صبح "دربھنگہ" پہنچ چکی تھی،  نیند کی خمار میں ڈوبی آنکھیں، ویرانیوں کا معائنہ کر رہی تھی؛ قفل بندی کے آثار چہار سو پھیلی ہوئی تھیں، بڑی تگ ودو کے بعد ایک رکشہ ملا، مخصوص کرایے سے چار گنا زیادہ نقد دینے کی شرط پروہ راضی ہوگیا، میں نے اسے  قدرت کی رحم دلی، لطف خاص اور موقعے کو غنیمت جانا، اور اپنے منزل مقصود سے جاملا۔

اس سفر میں مجھے کافی جدوجہد اور آبلہ پائی کا سامنا کرناپڑا، مگر بقول شیخ سعدی "وہ خوشیوں کے بہاریں اچھی ہوتی ہیں جن کا موسم غم کے بعد آتاہے"مجھے بھی یہ جملہ، میری تکلیف، میری تھکن، میری مصیبت اور میری دل آزاری کے رفو چکر کرنے کے لئے ناکافی نہیں تھا۔

آج بھی وہ گھڑیاں یادآتی ہیں تو دل سے بے اختیار دعائیں نکلتی ہیں کہ اللہ دوبارہ مجھے ایسے حادثے کاشکار نہ بنائے۔
اللہم اذھب عنی الھم والحزن

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad