تازہ ترین

جمعہ، 19 جون، 2020

طلباء و نوجوان: نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

تحریر صدیقی محمد اویس، میراروڈ، ممبئی۔
ہم تمام لوگ۔۔۔ چندر شیکھر آزاد، بھگت سنگھ، اشفاق اللہ خان، رام پرساد بسمل وغیرہ ناموں سے بخوبی واقف ہیں۔ کیونکہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ہندوستان کی آزادی کے لئے دن رات ایک کئے اور آزادی کی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور آخر تک بے خوف ڈٹے رہے، لیکن ان میں ایک خاص بات یہ تھی کہ انہوں نے  اپنی نوجوانی کے دور میں یہ کارنامے انجام دیے۔ اصل میں یہاں یہ بات بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ طلباء و نوجوان اپنے آپ کو سماج سے معاشرے سے الگ تھلگ نہ سمجھیں، بلکہ سماج میں رہ کر گھل مل کر، سماج کے مسائل کو زیر بحث لایئں اور انکا حل تلاش کرنے کے لئے کوشاں رہیں۔ جیسا کہ مندرجہ بالا حضرات نے کیا، ان تمام حضرات نے اپنے نوجوانی کے دور میں تعلیم کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی آزادی کی تحریکات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جو کہ اس وقت کے ہندوستانی معاشرے کے لئے ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا تھا۔

نوجوان کسی بھی سماج کا سب سے اہم حصہ ہوتے ہیں،  نوجوان ملک و ملت کے لئے خام مال ہوتے ہیں، معاشرے میں کوئی بھی انقلاب آتا ہے تو اسکے پیچھے سب سے بڑا ہاتھ نوجوانوں کا ہی ہوتا ہے، بعض اوقات یہ کہا جاتا ہے کہ نوجوان یا طلباء ہمارے ملک کا مستقبل ہیں۔ نوجوانی اور طالب علمی کے  دور میں ہی انسان کی تمام صلاحیتیں عروج پر ہوتیں ہیں، اسی دور میں انسان کسی بھی مسئلے پر کھلے ذہن سے غور و فکر کرسکتا ہے اور مسئلے کا بہتر حل نکال سکتا ہے۔ طلباء و نوجوانوں سے ہر کسی کو بہت سی امیدیں و توقعات ہوتیں ہیں۔ اور تاریخ بھی گواہ ہے کہ حالات کو بدلنے میں طلباء و نوجوانوں کا کلیدی کردار رہا ہے   اور تو اور  سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ بات ہمیں معلوم ہوتی ہے کہ اسلام کی دعوت کو عام کرنے میں بھی معاذ بن جبل، حزیفہ بن یمان جیسے کئ نوجوان صحابہ اکرام کا غیر معمولی کردار رہا ہے۔

اب ہم اگر ملک کے موجودہ پس منظر کا جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ لاک ڈاؤن سے قبل ملک میں شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف احتجاجی مظاہرے سر چڑھ کر بول رہے تھے جو کہ ایک تحریک کی شکل اختیار کئے ہوئے تھے۔ 

آپ دیکھئے یہ تحریک کی ابتداء کہاں سے ہوئی؟ 
یہ تحریک جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور کئ چھوٹے بڑے کالجوں کے طلباء و طالبات نے برپا کی جسکے نتیجے میں پورے ملک میں مظاہرے امٹ پڑے اور پورا ملک انقلاب کے نعروں سے گونج پڑا۔ یہاں بھی غور کرنے کی بات ہے کہ اگر طلباء و نوجوان چاہیں تو معاشرے میں انقلاب لا سکتے ہیں۔لیکن کچھ نوجوان ایسے بھی ہیں جو منفی حالات کے چلتے مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں ایسے نوجوانوں کے لئے شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ۔۔۔

نہ ہو ماحول سے مایوس دنیا خود بنا اپنی 
جگر میں حوصلے اور حوصلوں میں جان پیدا کر

بے شک۔۔۔ ہمیں کبھی بھی منفی حالات کے چلتے مایوس و غمزدہ نہیں ہونا ہے بلکہ ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے اور حالات سے ہمیشہ کچھ نہ کچھ سیکھتے رہنا ہے کیونکہ حالات پریشانیوں کے ساتھ ساتھ مواقع بھی فراہم کرتے ہیں۔ جدید دور کے طلباء و نوجوانوں کو اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ وہ سماج تئیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور سماج کی تشکیل بہتر انداز میں ہو اسکے لئے کوشاں رہیں۔ 

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے نوجوانوں میں 
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad