تازہ ترین

پیر، 8 جون، 2020

ترک دنیا و مذمت مال و دولت

از : عبداللہ ندوی 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قادر مطلق نے اس دار فانی کو وجود بخشا اس میں انسان کو بسایا، اور ان کو راہ راست پر لانے کے لیے نبیوں اور رسولوں کا سلسلہ جاری و ساری فرمایا تاکہ انسان صراط مستقیم اور جادۂ حق  پر گامزن رہے، لیکن انسان اپنی خواہشات نفسانی اور اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے میں ہمہ تن مصروف ہو گیا ، رب چاہی زندگی کے بجائے من چاہی زندگی گزارنے لگا، مگر وہ بھول بیٹھاَل کہ یہ دنیا دار الامتحان ہے، جہاں اللہ پاک نے ایک طرف رشدو ہدایت کے اسباب مہیا فرمائے ہیں تو دوسری طرف ابتلاء و آزمائش کے لیے ضلالت و  گمراہی کے اسباب بھی پیدا کر دیئے ہیں، لہٰذا جب تک انسان اپنے خالق حقیقی اور پروردگار کو یاد رکھتا ہے اس کے مقام، اس کی صفات، اور اس کے اختیارات کے بارے میں سوچتا ہے تو  ایمان تازہ  رکھتا ہے وہ اللہ سبحانہ تعالٰی سے ڈرتا اور گناہوں سے بچتا رہتا ہے، لیکن جب اس کا ایمان کمزور اور کھوکھلا ہو جاتا ہے تو وہ بے دھڑک دھڑلے سے گناہ کر بیٹھتا ہے، بہرحال انسان کمزوریوں، کوتاہیوں، اور لغزشوں کا مجموعہ ہے، اس حقیقت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح بیان فرمایا ہے ( ونسي أدم فأكل من الشجرة فنسیت ذريته و خطئ  فخطئت ذريته ) ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام بھول گئے، اور " ممنوعہ " درخت سے کھا بیٹھے تو ان کی اولاد بھی بھول گئی، جناب آدم علیہ السلام سے خطا ہوئی تو ان کی اولاد نے بھی خطا کی، مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ انسان جان بوجھ کر غلطی کرے اور غلطی پر غلطی کرتا چلا جائے، بلکہ جس کو اپنی آخرت عزیز اور پیاری ہو اور وہ حصول جنت کا خواہاں ہو اسے چاہئے کہ اپنی استطاعت اور چھمتا بھر برائیوں، منکرات، فحش بکواس، لغویات، اور لایعنی باتوں سے بچتا رہے، اور ساتھ ہی ساتھ فرائض، واجبات، وظائف و اوراد، اور دیگر احکامات خداوندی کا اہتمام اور اس کی پابندی کرے، لیکن آج دنیا کی رعنائی ، جذابیت، دلفریبی، دلکشی، اس  کا حسن و جمال نے ہمارے دلوں سے حلال و حرام، جائز و ناجائز،  عدل و انصاف، اخوت و مساوات کی تمیز کو یکسر ختم کر دیا ہے، اور ہم دولت و ثروت، جاہ و جلال، منصب ورفعت ، جھوٹی شان و شوکت، عظمت وسربلندی و سرفرازی حاصل کرنے کے لئے اکثر و بیشتر خدائے وحدہ لاشریک کو فراموش کر جاتے ہیں، ہمیں یہ فکر ہمیشہ دامنگیر رہتی ہے کہ دنیا کی دولت کس طرح حاصل کی جائے، حالانکہ اللہ تعالٰی کے نزدیک دنیا کی حیثیت مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہے

  محترم قارئین کرام!  قرآن و احادیث کی روشنی میں دنیا و مافیہا اور مال و منال کی کوئی حیثیت و وقعت نہیں ہے جیسا کہ باری تعالٰی کا ارشاد ہے ( ولا يغرنكم الحياة الدنيا ولا يغرنكم بالله الغرور ) تمہیں دنیا کی زندگی فریب اور دھوکہ نہ دے اور نہ کوئی فریب دینے والا تمہیں اللہ سے فریب دے، دوسری جگہ فرمایا ( إنما أموالكم و أولادكم فتنة ) تمہاری اولاد اور تمہارا مال فتنہ ہے، دنیا کے فریب سے بچانے کیلئے یہ آیات زیرک اور عقلمند انسان کو بہت کچھ سکھاتی ہیں، اللہ کے رسول جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ( كن في الدنيا كأنك غريب أو عابر سبيل ) دنیا میں ایسے رہو جس طرح مسافر اور پردیسی رہتا ہے، جس کا اسکا  کوئی دائمی ملجا و ماوی اور مستقر نہیں ہوتا ہے، دوسری جگہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے ( الدنيا سجن المؤمن و جنة الكافر ) دنیا مومن کیلئے قید خانہ اور کافر کیلئے جنت ہے، ایک اور حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد  نقل کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، تمہیں مال کی کثرت نے مشغول کر رکھا ہے انسان کہتا ہے میرا مال میرا مال، مگر اپنے مال میں جو تو نے کھایا وہ ختم ہو گیا، جو پہنا وہ پرانا ہو گیا، اور جو راہ خدا میں خرچ کیا وہی باقی رہے گا، چنانچہ باری تعالٰی نے اپنی بابرکت اور مقدس کتاب قرآن مجید میں فرمایا ہے ( المال والبنون زينة الحياة الدنيا والباقيات الصالحات ) مال و اولاد دنیاوی زینت ہیں اور نیک اعمال باقی رہنے والا ہے، ان تمام ہی آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ سے یہ بات صاف اور واضح ہو جاتی ہے کہ انسان دنیا کی دل فریبی اور مال و منال کی بےجا محبت اور لالچ میں پڑ کر اپنی عاقبت کو خراب نہ کرے، دولت و ثروت اسی صورت میں قابل رشک اور لائق ستائش ہو سکتی ہے جبکہ اس سے خدا طلبی اور دنیا بیزاری مقصود و مطلوب ہو، اور راہ خدا میں حتی الوسع بے دریغ خرچ کیا جائے، اور اس کے ذریعے یتیموں، بیکسوں، اور محتاجوں کی حاجات و ضروریات کا بھرپور خیال رکھا جائے، ورنہ سب بےسود، معزز قارئین!  ابھی ابھی ہمارے درمیان سے رمضان المبارک کا بابرکت اور مقدس مہینہ رخصت ہوا ہے، جس طرح ہم نے پوری دلچسپی و دلجمعی کے ساتھ اس مقدس ماہ میں نماز، روزہ، ذکر و اذکار، دعاء و مناجات، فرائض، واجبات، سنن و نوافل، اور دیگر تمام فرامین خداوندی کا اہتمام کیا، اور باضابطہ اس پر عمل پیرا رہے، اسی طرح آئندہ عام دنوں میں  بھی اس پر مکمل عمل پیرا ہوکر آخرت کو سنوارنے کی فکر اور جدوجہد کرتے رہیں، اور اگر اللہ سبحانہ و تعالٰی نے مال و دولت سے نوازا ہے تو اس پر اللہ تعالی کا بیحد شکر گزار رہتے ہوئے غرباء، مساکین، اور فقراء کو گاہے بگاہے اپنی مدد اور اپنا تعاون پیش کر تے رہیں، تاکہ اللہ تعالٰی قلبی سکون و اطمینان نصیب فرمائے، دعاء گو ہوں کہ اللہ رب العزت مال و دولت اور دنیا کی بےجا الفت و محبت سے دور رکھے، انفاق فی سبیل اللہ کی توفیق عطا فرمائے، اشاعت اسلام اور اعلاء كلمة الله کے لئے ہم سب کو قبول فرمائے، آمین یا رب العالمین، إنه ولي التوفيق

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad