تازہ ترین

منگل، 30 جون، 2020

والدین کی آغوش سے اساتذہ کی درسگاہ تک

تحریر:جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یوپی بنکر یونین
یوں تو استاد استاد ہی ہوتا ہے چاہے وہ کسی بھی شعبے کا استاد ہو اور ایک شاگرد کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے استاد کا احترام کرے جب کئی استاد ایک جگہ ہوتے ہیں تو انہیں اساتذۂ کہا جاتا ہے لیکن ایسا اتفاق مدارس اور درسگاہوں میں ہی دیکھنے کو ملتا ہے یقیناً جہاں اساتذۂ کرام قابل احترام ہوتے ہیں وہیں مدارس اسلامیہ کے اساتذہ سب سے زیادہ قابل احترام ہوتے ہیں اور ہر حال میں انکا احترام ضروری ہے بلکہ والدین کے بعد اساتذہ کرام کا ہی درجہ بلند ہے اور ایک انسان کی زندگی میں والدین اور اساتذۂ کرام کا انتہائی اہم کردار ہوتا ہے والدین بچہ پیدا کرتے ہیں تو اساتذۂ کرام والدین کا مقام و مرتبہ بتاتے ہیں، والدین بچوں کی انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتے ہیں تو اساتذہ راہ حق پر چلنے کا طریقہ بتاتے ہیں، والدین بچوں کی پرورش کرتے ہیں تو اساتذہ بچوں کو والدین کا احترام سکھاتے ہیں، 

والدین بچوں کو راہ چلتے گرنے سے بچاتے ہیں تو اساتذہ راہ صداقت میں ثابت قدم رہنے کا سلیقہ سکھاتے ہیں اس لئے ایک انسان کی زندگی میں والدین اور اساتذہ دونوں کا رہنمائی کے میدان میں بڑا اہم کردار ہوتا ہے اور جس انسان و مسلمان نے اپنے والدین اور اپنے اساتذہ کرام کا احترام کیا وہ کامیاب رہا اور ایک انسان و بالخصوص مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب رہے والدین،، پڑوسیوں سے بچے کی پہچان کراتے ہیں تو اساتذہ بچوں کو پڑوسیوں کے حقوق بتلاتے ہیں،

 والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ میرا لڑکا ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو تو اساتذہ کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ میرا شاگرد جس شعبے میں قدم رکھے تو کامیابیاں بڑھ بڑھ کر اس کا استقبال کریں اور ایک ہوشمند لڑکا والدین کی بھی نافرمانی نہیں کرسکتا اور اساتذہ کرام کی بھی نافرمانی نہیں کرسکتا اور دونوں کا احترام لازم ہے آئیے قارئین کرام ذرا والدین کی آغوش سے لیکر اساتذہ کرام کی درسگاہ تک کا نقشہ کھینچا جائے ایک گھر میں بچہ پیدا ہوتا ہے خوشیوں کا ازدہام ہوتا ہے ساتویں دن عقیقہ ہوتا ہے اب بچہ آہستہ آہستہ بڑا ہونے لگا اور ہر باپ کا کچھ ارمان ہوتا ہے، کچھ خواب ہوتا ہے جسے وہ پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے اب بچہ بڑا ہوگیا اب بچے کو تعلیم اور تربیت دونوں کی ضرورت ہے ایک دن باپ اپنے بیٹے کو لیکر اسلامی مدرسے میں پہنچتا ہے، اپنا تعارف کراتا ہے اور بچے کا بھی تعارف کراتا ہے باپ اپنے بیٹے کو درس دینے کی سفارش کرتا ہے اساتذہ کرام باپ کی سفارش کو منظور کرتے ہیں اساتذہ کرام اب لڑکے کو پڑھانا شروع کرتے ہیں سب سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھاتے ہیں (اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے) اس کے بعد(الف) پڑھا کر اساتذہ کرام بتلاتے ہیں کہ اللہ ایک ہے،

 اس کا کوئی شریک نہیں، ساتھ ہی ساتھ،، اطیعواللہ و اطیعوالرسول کی بھی تعلیم دیتے ہیں (ب) پڑھا کر اسی اللہ کی بڑائی بیان کرنے کا درس دیتے ہیں، بزرگانِ دین کی تعظیم کا درس دیتے ہیں،، (ت) پڑھا کر اسی اللہ َکی بارگاہ میں توبہ،، کرتے رہنے کا درس دیتے ہیں، (ث) پڑھا کر اسی اللہ کی ثناء،، و حمد بیان کرنے کا درس دیتے ہیں، (ج) پڑھا کر جنت میں جانے والے اعمال کرتے رہنے کا درس دیتے ہیں،(ح) اور(خ) پڑھا کر حق بولنا، حج بیت اللہ کی خواہش رکھنا اور خدا پر مکمل بھروسہ رکھنا اور خاتمہ بالخیر کی دعا کرنا سکھاتے ہیں، (د) اور(ذ) پڑھا کردرود پاک کی کثرت کرنے اور دنیا داری سے و  ذلت آمیز کاموں سے دور رہنے کا مشورہ دیتے ہیں، (ر)، (ز)، (س)،(ش) پڑھا کر رب کی اطاعت کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے اور زمین پر فساد برپا نہ کرنے اور سلامتی کی دعا کرنے اور شکر گزار بندہ بننے کا سبق پڑھاتے ہیں،، اساتذۂ کرام آگے مزید بتاتے ہیں کہ(ص) سے صرف اللہ کی عبادت کرنا، صلہ رحمی سے کام لینا اور صبر کا دامن ہاتھ سے تھامے رہنا، (ض) سے ضابطہ اسلام پر عمل کرنا، (ط) یعنی طاقت پر گھمنڈ نہ کرنا، ظ یعنی ظاہری طور پر دیکھانیوالی عبادت نہ کرنا(ع) اور(غ) یعنی علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے، علم سرمایہ ہے اور علم دین عظیم سرمایہ ہے،علم شعور ہے، علم نور ہے، اجالا ہے، روشنی ہے،

 اور علم کی روشنی میں منزل دیکھائی دیتی ہے اور علم کے ذریعے عقائد درست رکھتے ہوئے منزل مقصود تک پہنچنے میں آسانی ہوتی ہے یعنی فاقہ بھی کرنا پڑے تو کرنا لیکن علم ضرور حاصل کرنا اور عبادت سے غافل نہ ہونا اور کبھی بھی غفلت میں نہ رہنا،، غیبت کبھی بھی کسی کی نہ کرنا، غرور کسی بھی بات کا کسی بھی چیز کا حتیٰ کہ علم اور اور عبادت پر بھی غرور ہرگز نہ کرنا،، (ف)،(ق) اور (ک) یعنی فاقہ کشی کے عالم میں بھی،، کبھی ناشکری نہ کرنا،، بلکہ قرب،، الٰہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا، کفریہ باتیں، کفریہ کام کبھی نہ کرنا،، (ل /م) یعنی لاالہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کا ورد کرتے رہنا،، (ن) یعنی، نماز کی پابندی کرنا(و) یعنی یہ سارے کام وضو،، بناکر کرنا،، (ہ) یعنی ہمدردی کا اظہار سب کے ساتھ کرنا،،(ی) یعنی یا اللہ یا اللہ کرتے رہنا،، اتنا سکھایا اساتذۂ کرام نے اور اتنا سکھانے کے بعد انشائاللہ زندگی میں انقلاب تو آنا ہی آنا ہے لیکن اب یہیں سے پھر امتحان شروع ہوتا ہے کہ تم اپنے اساتذہ کرام کا کتنا احترام کرتے ہو اور کتنی عزت کرتے ہو آج تو دیکھا جارہا ہے کہ اساتذۂ کرام نے طالب علمی کے زمانے میں رہنمائی کی ذہنی کیفیت کو روشن کیا اور تم بعد میں جاکر کسی پیر سے مرید ہوگئے تو پیر کا احترام کرتے ہو اساتذہ کا نہیں، ہر مہینے پیر کی خدمت میں حاضری دیتے ہو لیکن اساتذہ کی خدمت میں نہیں یاد رکھو صحیح پیر کی پہچان کا طریقہ بھی اساتذۂ کرام کی بارگاہ سے ہی ملیگا کہیں اور سے نہیں،،

 اور پیر کے احترام کا طریقہ بھی اساتذہ سے ہی ملیگا کہیں اور سے نہیں،، آپ چاہے فراغت کے بعد کتنی ہی شہرت حاصل کیوں نہ کرلیں لیکن جس طرح بیٹا باپ سے بلند نہیں ہوسکتا اسی طرح شاگرد بھی استاد سے بلند نہیں ہوسکتا آج اس بات کی بیحد خوشی ہے کہ کچھ باشعور اور با صلاحیت افراد جو زمانہ طالب علمی سے گذر کر فراغت حاصل کرنے بعد جہاں درس و تدریس کی دنیا میں قدم رکھ کر دین کی ترویج و اشاعت کر رہے ہیں وہیں انکے سینوں میں والدین اور اساتذہ کا درد اٹھا اور ان لوگوں نے محسوس کیا کہ کچھ پل اساتذہ کرام،، کے نام بھی ہونا چاہیے دنیا کو بتانا چاہیئے کہ والدین کا مقام کیا ہے اور اساتذۂ کرام کا مقام کیا ہے،

، اور یہی ان کے لیے سچا خراج عقیدت بھی ہوگا تاکہ ان کے مشن کو آگے بڑھانے میں ہماری راہیں آسان ہوسکیں اور ہمارے دلوں میں اساتذۂ کرام کی محبت برقرار رہے اور محبت کی یہ دلیل بتائی گئی ہے کہ جس کو جس سے محبت ہوتی ہے وہ اس کا ذکر خوب کرتا ہے،، اور آج ہم جو کچھ بھی ہیں اس میں سب سے اہم کردار اساتذۂ کرام کا ہی ہے ہم دعا گو ہیں کہ وہ اساتذہ کرام جن کی روحیں قفس عنصری سے پرواز کرچکی ہیں رب تبارک و تعالیٰ انکی قبروں پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے اور وہ اساتذۂ کرام جو باحیات ہیں اللہ رب العالمین انکی عمروں میں برکتیں عطا فرمائے ہمارے سروں پر تادیر ان کا سایہ قائم رکھے آمین یارب العالمین -

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad