تازہ ترین

جمعہ، 31 جولائی، 2020

امامت یا مسلمانوں کے ظلم کو برداشت کرتی مظلومیت

از:۔ فیاض احمدبرکاتی مصباحی جنرل سکریٹری ٹیچرس ایسوسی ایشن مدارس عربیہ بلرامپور(یوپی)
‎ تین سال یا اس سے کچھ زائد عرصے ہورہے ہیں میں مہاراشٹرا کے کسی ریلوے اسٹیشن پر ٹرین سے اتر کر باہر نکلنے کی تیاری کررہا تھاکہ اچانک مجھے  ایک دبلے ، پتلے ، لمبے قدکاٹھی کے جوان العمر مولانا صاحب دکھائی دئیے ، چہرے سے ہی مظلومیت مترشح تھی ، ایک بڑا سا بورا ، ایک بڑا بیگ جو یقینا ان کے وزن سے زیادہ رہاہوگا اٹھاکر ہلکے قدموں سے چہل قدمی کے انداز میں راستہ طے کرنے کی کوشش کررہے تھے ، دل کا غم ان کے چہرے سے عیاں تھا ، ساتھ میں ایک نقاب پوش خاتون اور خاتون کے ساتھ دوننھے معصوم بچے ۔جن کی معصومیت اپنی  تقدیر سے شاید یہ سوال پوچھ رہی تھی کہ میں تو کچھ بھی نہیں جانتا پھر کیوں مجھے دربدر پھرایا جارہاہے ؟ ۔ چہرے پر آنسوؤں کی لکیروں کے نشان صاف محسوس کئے جاسکتے تھے ۔بورے میں بھرے ہوئے سامان ،بچوں ، خاتون اور خود مولانا صاحب کی رفتار سے میں نے اندازہ کرلیا کہ " یہ مولانا صاحب بھی مسلمانوں کے ظلم کا شکار ہوئے ہیں " ۔ سلام کیا اور خبر خیریت پوچھنے لگا تو بڑی بے دلی سے جواب دیتے ہوئے روہانسے ہوگئے ۔ ان کو تمام سامان اور بچوں کے ساتھ دوسرے نمبر پلیٹ فارم پر  جانا تھا جس پر ان کی ٹرین آنے والی تھی ۔میں ان کے ساتھ مدد کے بہانے  ان کا سامان  اٹھائے چل پڑا ۔ میں اکثر سفر میں ایک چھوٹا سا بیگ ساتھ رکھتاہوں جو میری پیٹھ پر پڑا رہتا ہے ۔

ایسے مواقع پر ہلکی پھلکی مدد کرنے میں مجھے کوئی پریشانی نہیں آتی ۔ مولانا صاحب کا سامان اٹھاتے ہی میں نے پوچھا کہ " کہا جارہے ہیں ؟ یہاں کیا کرتے ہیں ؟" مولانا صاحب نے مجھے ایک اچٹتی  نظر  سے دیکھا اور بولے ۔ " گھر جارہاہوں ، یہاں ایک مسجد میں امامت کرتاتھا ، مسجد کے ممبران کی آج صبح نماز فجر کے بعد مسجد کے کسی معاملے کو لے کر لڑائی ہوئی اور دس بجے تک مجھے یہ حکم آیا کہ آپ ظہر سے پہلے یہاں سے چلے جائیں " ۔ میں نے پوچھا " کیا آپ نے کسی کا سپورٹ کیا تھا ؟" مولانا صاحب بولے ۔ نہیں بھائی ! یہ اس مسجد کی کمیٹی کی خاصیت ہے کہ آپس میں لڑتے ہیں ، اس کے بعد امام یا مؤذن یا خادم کو نکال کر اپنا غصہ ٹھنڈا کرتے ہیں ۔ مولانا بولتے رہے ۔" مسلمان بہت ظالم ہیں  ، مسجد اور مدرسے کا ایک محفوظ حصہ ان کے ہاتھ میں ہے ، مسلمانوں کو چاہیے تھا  کہ اللہ کی زمین کے اس مختصر حصے پر اللہ کا دین نافذ کردیں لیکن یہ قوم سارا ظلم مسجد اور مدرسے میں روا رکھتی ہے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر اللہ اس قوم کو ابھی زمین کی حکم رانی دے دے تو یہ ظلم کے سارے ریکارڈ توڑ دے گی "  مولانا صاحب کی باتیں درد سے لبریز تھی ، اگر میں ان کے زخم کریدتاتو شاید وہ خود پھوٹ پھوٹ کر رو پڑتے ۔ انہوں نے اپنے پھول سے معصوم بچوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا " ان ظالموں کو ان معصوموں پر بھی ترس نہیں آیا " میں نے پوچھا " کیا وہاں کی عوام نے اس فیصلے کی مخالفت نہیں کی ؟" انہوں نے جواب دیا بھائی ! ہم لوگ پردیسی ہیں پردیس میں کوئی اپنا نہیں ہوتا ۔" وہ ٹرین پر بیٹھ چکے تھے اور ٹرین اپنی منزل کی طرف چل پڑی تھی لیکن میں اسی پلیٹ فارم پر کھڑے ہوکر ٹرین کو آہستگی سے سرکتے دیکھ رہاتھا لیکن میرا ذہن کہیں بہت دور اسی  آہستگی کی رفتار سے مسلمانوں کی حکمت وتدبیر ، سیاست و قیادت کی ٹرین کو دنیاوی پٹری پر انسانیت کے  پلیٹ فارم سے دور جاتے ہوئے دیکھ رہاتھا ۔  

‎لاک ڈاؤن میں مہاراشٹرمیں ایک حافظ صاحب کو ان کی کمیٹی نے تنخواہ نہیں دی تو بے چارے اپنی بوڑھی ماں ، جوان بیوی اور معصوم بچے کی پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر مزدوری کرنے چلے گئے ۔ مزدوری کا پہلا دن تھا رزق حلال کی تلاش میں جان جاں افریں کے سپرد کرآئے ۔ حیدرآباد کے ایک معروف قرآن سینٹر نے اپنے قدیم اور جان نثار استاذ کو بے عزت کیا ، دھمکی دی اور علاقہ تک چھوڑنے کے لیے کہہ دیا ۔ کچھ ہی دنوں پہلے بہار کے ضلع مظفر پور میں ایک " جاہل بے وقوف  نے کمرہ صاف نہ رہنے کا بہانہ کرکے امام صاحب کی چھٹی کردی اور یہ کہتے ہوئے کہ " ہم آپ کو بلاوجہ نکال رہے ہیں "  بنگلور کی ایک مسجد ہے جس کے ذمہ داران میں کچھ لوگ خود کو  سید بھی کہلاتے ہیں ۔  اس مسجد میں امام صاحب اور مؤذن صاحب کا کمرہ مسجد سے ملاہوا پچھم طرف تھا ، مسجد کے سیکریٹری نے امام صاحب اور موذن صاحب کا پانی بند کردیا اور کہاکہ " بہار میں لوگ چاپانل سے پانی لاکر استعمال کرتے ہیں اس لیے امام صاحب اور موذن صاحب ضرورت کا سارا پانی نیچے سے لاکر اسٹاک کرلیا کریں ۔ مؤذن نے اس بارے میں بار بار سیکریٹری سے  شکایت کی تو موذن کی بلاتنخوہ چھٹی ہوگئ ۔ میرے ایک فاضل دوست جو خیر سے بڑے اچھے قلم کار اور بین الاقوامی سیاست کے ماہر ، مذاہب عالم پر گہری نظر رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے مضامیں ہندوستان کے درجنوں اخبارات کی زینت بناکرتے تھے موصوف کرناٹک میں ہاویری ضلع کے رانی بنور قصبہ کی درگاہ مسجد کے امام تھے ، کمیٹی نے ان کو فیملی لانے کے لیے کہا اور وہ این آر سی کے ہنگامی زمانے میں گھر چلے گئے ، جس دن واپس اپنے بچوں کے ساتھ پہونچے اسی دن شام کو کمیٹی کے کچھ افراد نے بیٹھ کر ان سے واپس جانے کے لیے کہہ دیا ۔ 

خود سوچئے کہ ڈھائی ہزار کلو میٹر کا سفر بیوی بچوں نے طے کیا ہوگا پھر  واپسی کی خبر سن کر اس  وقت ان کے دل پر کیا گزری ہوگی ؟ وجہ یہ بتائی کہ آپ اخبارات میں لکھتے ہیں اس لیے چلے جائیں حالانکہ اصل وجہ یہ تھی کہ ہمارے شمالی ہندوستان کے کچھ خاندانی اوباش پیروں کو ان سے پریشانی ہوگئی تھی جن کے اشارے پر ان کے مریدوں نے شرارت کی تھی ۔ لیکن اس بندے نے بھی کمال کی ہمت دکھائ اور کمیٹی کے ساتھ ان شریر پیروں کا ناطقہ بند کردیا ۔   یہ صرف مساجد کا معاملہ نہیں ہے بلکہ مدارس کے اہل جبہ اور دینیات کے سب بڑے  بڑے سوداگر بھی اپنے ماتحت پر اسی طرح ظلم کرتے ہیں جس طرح تیمور یا تانا شاہ کرتاتھا ۔کس کس کے گریبان پر ہاتھ صاف کروں اور کس کس کے دھوتی والے پاجامہ کے کپڑے کی کہا نی بتاؤں ؟  

‎                     "اس ظلم کی اصل وجہ کیا ہے "
‎ اس انسانیت سوز ظلم کی کئی وجہ ہے ۔ نمبر ایک تو یہی کہ ان بے قصور اماموں کی نہ کوئی کونسل ہے اور نہ ہی کوئی کمیٹی جو ان کے لیے آواز اٹھائے ۔نمبر دو مدارس کا نظام ۔ ہر مدرسہ اپنا  چندہ بڑھانے کے لیے ہر علاقے میں اپنا امام بھیجنا چاہتا ہے ۔ کوئی بھی مدرسہ اس بات کی تصدیق نہیں کرتاکہ سابق امام نے کس وجہ سے مسجد چھوڑی ہے اس کی تصدیق کی جائے اگر واقعی امام کی ضرورت ہے اور پہلے والے امام وہاں آنے کے روادار نہیں ہیں تب اپنا مام بھیجیں ۔ کمیٹی سے سخت باز پرس کریں ۔نہیں دماغ میں یہ بات رہتی ہے کہ اپنا امام جائے گا تو علاقے میں اپنا چندہ بڑھ جائے گا ۔خاص وجہ یہ ہے کہ " یہ سیدھے سادے علماء اکثر  دین کی خدمت کے تصور کے ساتھ جاتے ہیں  ، جب کہ مسجد اور مدرسے کی انتظامیہ ان کو نوکر تصور کرتی ہے ۔ اگر ان اماموں کو بھی پتہ ہوکہ وہ نوکری کرتے ہیں اور نوکری کرنے کے لیے کچھ ملکی اور بین الاقوامی  قانون ہیں تو ان فرعونوں اور برہمنی مسلمانوں کی من مانی سے معاشرہ پاک ہوجائے گا ۔ مساجد اور مدارس کی کمیٹی کے سپورٹ میں کچھ موٹے تگڑے جبہ والے کھڑے ہوجاتے ہیں اور ان مظلوم اماموں  کی آواز ہمیشہ کے لیے چالبازی کے خونی پنجے کے نیچے دب کر رہ جاتی ہے ۔سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ اکثر ائمہ دعوت وتبلیغ کی الہی ذمہ داری ادا نہیں کرتے ۔ مسلکی اور مشربی تشدد کے پردے میں اسلامی تعلیم اور اسلامی اخوت کی مغلوبیت بھی اہم وجہ ہے ۔ کم علمی اور سہل پسندانہ طبیعت کی وجہ سے علاقائی عصبیت کا عفریت بھی اس ظلم کی آگ میں  پٹرول ڈالنے کا کام کرتاہے ۔علماء کا صرف امامت کو ذریعہ معاش بنانا اور اس کے لیے جاہلوں کی جی حضوری کرنا بھی ایک وجہ ہے  ۔ مدارس اسلامیہ کا غیر معیاری علما تیار کرنا اور نوخیز لڑکوں کو امامت کی  ذمہ داری دے کر بھیج دینا ۔ اسلامی فکرونظر سے کماحقہ عدم واقفیت ، اوباشوں اور عیاشوں کا پیر بن کر  ولایت کے خول میں چھپ کر جاہلوں کے سامنے خود کو  ولی ظاہر کرنا اور ان کی ہاں میں ہاں ملانا ۔ 

‎       "ائمہ پرہونے والے مظالم  کے سد باب کے طریقے "
‎علماء اور ائمہ کو اپنی اہمیت سمجھنی ہونگی ، دین کے تئیں ان کو مخلص ہونا ہوگا ۔خدا کے رزاق ہونے کا عملی ثبوت پیش کرنا ہوگا ۔اس کے بعد اگر ہوسکے تو آل انڈیا ائمہ کونسل کی تشکیل کریں ، جب بھی کوئی امامت میں جائے اپنی شرائط کے ساتھ امامت قبول کرے ۔مساجد کی کمیٹی ایک کمپنی کے طور پر معاہدہ کرتی ہے اس لیے ائمہ خود کو ایک امپلائ کے طور پر ان کے سامنے پیش کریں ، معاہدے میں یہ بات طے کرالیں کہ اگر میعاد سے پہلے آپ مجھے نکالیں گے تو تین ماہ کی پیش گی تنخواہ دینی ہونگی ، فیملی کے ساتھ ہیں تو گھر تک کا ٹکٹ کراکر دینا ہوگا ۔ اگر بچے وہیں تعلیم حاصل کرتے ہیں تو بچوں کی تعلیم کا سال مکمل ہونے تک ان کی فیس بھی مکمل کمیٹی کو ادا کرنی پڑیں گی ۔ اگر کوئ الزام لگارہے ہیں تو کورٹ میں اسی الزام کو ثابت کرنا ہوگا ۔ آل انڈیا  ائمہ کونسل پہلے تشکیل دی جائے جو  امام کی پریشانیوں کو حل کرانے کے لیے قانونی چارہ جوئی کا سہارا لے ۔ مذہب اور دینی جگہوں کے نام پر اجارہ داری کا سلسلہ بند ہونا چاہیے ۔ جس امام کے ساتھ زیادتی ہو وہ اپنی شکایت ائمہ کونسل سے  کریں ۔ یا جس ادارے نے وہاں بھیجا ہے

 ان کو دیں ادارے کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اگر امام واقعی بے قصور ہو تو اس کی مدد کرے ۔ دین پر سے احمقوں اور جاہلوں کی اجارہ داری ختم کرانے کی کوشش کی جائے ۔ میرے ایک دوست نے بتایا کہ"  بہار کے ضلع مظفر پور کے ایک گاءوں میں ایک آدمی تھا جو ائمہ کو مسجد میں بے عزت کرتاتھا اور اپنے غیر مسلم دوستوں میں اس کو چٹخارے لے کر بیان کرتاتھا "  کہیں ایسا تو نہیں کہ سارے جاہل ذمہ داران کسی سازش کا شکار ہورہے ہیں یا پھر سبھوں نے اپنی ذہنیت ہی ایسی بنالی ہے ۔ ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ہندوستان کے تمام چھوٹے مدارس نے کثرت سے صرف ایسے افراد تیار کئے جو مذہب کی جزوی تعلیم کے ساتھ امامت کا یہ اہم فریضہ انجام دیتے ہیں جس کی وجہ سے باصلاحیت افراد کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتاہے اور قوم دین کی اصل تعلیم سے بھی دور ہورہی ہے دوسری طرف کچھ اصلاحی تنظیموں نے بھی ناکارہ افراد کو تیار کرکے اس میدان میں اتارنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے جن کی مکاری کی وجہ سے  ہر روز نت نئے فتنے اسلامی معاشرے میں جنم لے رہے ہیں ۔ ان تنظیموں اور تحریکوں کے ذمہ داران سے بھی گزارش ہے کہ " خدارا آپ اپنے افراد کو کنٹرول میں رکھیں " ۔آل انڈیا ائمہ کونسل کے لیے تمام ائمہ مل کر کوشش کریں اور اس کام کو اول فرصت میں انجام دیں ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad