تازہ ترین

جمعہ، 3 جولائی، 2020

خواجہ یونس قتل معاملہ:ممبئی پولس کمشنر نے ممبئی ہائیکورٹ میں جواب داخل نہیں کیا، عدالت نے دو ہفتہ کی مہلت دی،مدعی کو جواب کی نقول سماعت سے قبل مہیا کرانے کا حکم

ممبئی(یواین اے نیوز3جولائی2020)خواجہ یونس قتل معاملے میں ملوث چار پولس والوں کو ملازمت پر لینے کے خلاف ممبئی ہائی کورٹ میں داخل توہین عدالت کی پٹیشن پر آج ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس اے اے سید اور جسٹس این آر بورکرکے روبر وسماعت عمل میں آئی جس کے دوران ممبئی پولس کمشنر کی جانب سے جواب داخل نہیں کرنے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں دو ہفتہ کے اندر جواب داخل کرنے کا حکم دیتے ہوئے عرض گذار (خواجہ یونس کی والدہ آسیہ بیگم) کو اگلی سماعت سے قبل جواب کی نقول مہیا کرانے کا حکم دیا۔

ممبئی ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ نے اس معاملے میں جمعیۃ علماء کی جانب سے پیش ہوئے سینئر ایڈوکیٹ مہیر دیسائی کو حکم دیا کہ ممبئی پولس کمشنر کے جواب کی روشنی میں وہ دو ہفتہ کے بعد بحث کریں اور اپنی سماعت ملتوی کردی۔ایڈوکیٹ مہیر دیسائی کی گذارش پر عدالت نے ممبئی پولس کمشنر کو حکم دیا کہ وہ اگلی سماعت سے قبل ہی مدعی  کے وکیل کو جواب(رپلائے) کی نقول فراہم کریں تاکہ وہ بحث کے لیئے تیاری کرسکیں۔

 خواجہ یونس قتل معاملے میں ملوث اسسٹنٹ پولس انسپکٹر سچن وازے، پولس کانسٹبل راجندر تیوار، سنیل دیسائی اور راجا را م نکم کی ملازمت پر دوبارہ بحالی کو چیلنج کیا گیا ہےاس ضمن میں جمعیۃ علماء قانونی امدا د کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے بتایا کہ گذشتہ 23 جون کو جمعیۃ علماء مہاراشٹر(ارشد مدنی) نے خواجہ یونس کی والدہ کی جانب سے خواجہ یونس قتل معاملے میں ملوث چار پولس والوں کو ملازمت پر بحال کرنے کے خلاف ممبئی ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی پٹیشن داخل کی تھی کیونکہ سات دن گذر جانے کے باوجود ممبئی پولس کمشنر نے توہین عدالت کی نوٹس کا جواب نہیں دیا تھا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ توہین عدالت کی پٹیشن میں پولس کمشنر آف ممبئی پرم ویر سنگھ،پرنسپل سیکریٹری ہوم ڈپارٹمنٹ امیتابھ گپتا،اسٹیٹ سی آئی ڈی،روویو کمیٹی اور حکومت مہاراشٹر کو توہین عدالت کا مرتکب بتایا گیا ہے اور ان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ چاروں پولس والوں کو نوکری پربحال کرنے کے لئے خواجہ یونس کی والدہ کو ایک،لاکھ روپئے معاوضہ دیں اور پولس والوں کو فوراً نوکری سے معطل کریں۔

واضح رہے کہ23 دسمبر 2002  کو خواجہ یونس کو 2، دسمبر 2002 کو گھاٹکوپر میں ہونے والے بم دھماکہ کے الزام میں گرفتارکیا تھا جس کے بعد سچن وازے نے دعوی کیا تھا کہ خواجہ یونس پولس تحویل سے اس وقت فرار ہوگیا  جب اسے تفتیش کے لیئے اورنگ آبا دلے جایا جارہا تھا حالانکہ سی آئی ڈٖی نے سچن وازے کے دعوے کی نفی کرتے ہوئے معاملے کی تفتیش کے بعد سچن وازے سمیت دیگر تین پولس والوں کے خلاف خواجہ یونس کو قتل کرنے کا مقدمہ قائم کیا تھا جو فاسٹ ٹریک عدالت میں زیر سماعت ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad