تازہ ترین

منگل، 28 جولائی، 2020

لاک ڈاؤن،عید قرباں اور قائدین کی ذمہ داریاں!

  نعیم الدین فیضی برکاتی،ریسرچ اسکالر اعزازی ایڈیٹر: ہماری آواز،رانی پور مہراج گنج(یوپی)
(جرأتِ اظہار)
کرونا وائرس روز بروز آگ کی طرح پھیلتا جا رہا ہے۔پوری انسانیت اس کی زد میں ہے۔اس مہلک اور لاعلاج بیماری کے آگے ابھی بھی سپر پاور کہے جانے والے ممالک گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہیں۔امریکہ اور ایران وبرطانیہ سے لے کر خلیجی ممالک تک کوبھی شدید جانی ومالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔اب تک پوری دنیا میں ڈھیڑھ کروڑ سے زائد افراد اس بیماری سے سوجھ رہے ہیں اورتقریباساڑھے چھ لاکھ افراد موت کے منہ میں جاچکے ہیں۔بھارت میں بھی اس بیماری نے اپنے پاؤں پسار لیے ہے۔اب تک یہاں چودہ لاکھ سے زائد افراد اس سے متاثر ہیں جب کہ کم و بیش33ہزار موتیں واقع ہوئی ہیں۔بھلے ہی بہت سارے ممالک میں کورونا کی ویکسین بنانے اوراس کے تفتیش و تجربہ پرکام چل رہا ہو مگر ابھی مکمل کامیابی کی خبر کہیں سے بھی سننے میں نہیں آئی ہے۔بھارت میں بھی یہاں کے ہونہار اور قابل افراد کے ذریعہ کرونا کی دوا بنائی جارہی ہے مگر تاہنوز امید کی کوئی کرن نظر نہیں آئی ہے۔ایسے میں احتیاطی تدابیر اور سماجی فاصلہ ہی واحد راستہ بچا ہوا ہے جس کو اپنا کر ہم خود اپنے آپ کو اور اپنے خاندان، قبیلے اور ملک کو اس وبائی مرض سے بچا سکتے ہیں۔ حکومتی سطح سے کورونا کی روک تھام کے لیے جو بھی گائیڈ لائن یعنی رہنما اصول جاری کیے گئے ہیں اس پر بلاتفریق مذہب و ملت ہر کسی نے عمل پیرا ہو کر اپنے قومی اور ملکی محبت کے جذبے کو دکھایا ہے جس میں مسلمانوں نے سب سے زیادہ صبر اور دانش مندی دکھائی ہے۔ اور ہونا بھی چاہیے کہ اسی میں ہماری اور سب کی بھلائی اور کامیابی کا راز مضمر ہے۔

لاک ڈاؤن کی تیسری توسیع کے بعد ملک عزیز بھارت میں بھی انسانی ضرورتوں اور بنیادی سہولیات کو دیکھتے ہوئے دھیرے دھیرے آسانیاں پیدا ہوتی رہیں ہیں۔ ٹرین اور گاڑیوں کو سڑکوں پر دوڑنے کے لیے ہری جھنڈی دکھا دی گئی ہے۔ بازاروں کی رونقیں بحال کرنے کے لیے اور کسانوں کو غلہ کی خرید وفروخت کے لیے منڈی کھولنے کا پرمیشن دے دیا گیا۔ سرمایہ داروں کی سہولت اور آسانی کے لیے دوکان اور کارخانے کھول دیے گئے۔ لوگوں کے آمدورفت کو جائز کر دیا گیا۔ شراب خانوں کی کھولنے پر سب سے پہلے زور دیا گیا۔مالزاورشو روم پر بھیڑ کو روا کر دیا گیا۔ حتی کہ تعلیمی اداروں اور مذہبی مقامات کو چھوڑ کر تقریبا تمام امور میں آسانیاں پیدا ہوگئیں ہیں۔مگر آج تک تعلیمی ادارے اور مذہبی مقامات کے کھولنے پر نہ ہی کسی نے بات کی اور نہ ہی کسی نے ضرورت محسوس کی۔ اب تولوگوں کو ایسا لگنے لگا ہے جیسے کورونا کے نشر واشاعت کے یہی سب سے بڑے اڈے ہوں کہ اگر یہ کھول دیے جائیں اور ان میں تعلیم وتربیت کا کام ہونے لگے اور عبادت و ریاضت کا کام انجام پانے لگے تو کرونا پر قابو پانا مشکل ہی نہیں،ناممکن ہو جائے گا۔

یکم اگست کو عید قرباں ہے جومسلسل تین دن تک رہتا ہے۔یہ مسلمانوں کا بڑا تہوار ہے جو سال میں ایک مرتبہ منایا جاتا ہے۔جس میں وہ لوگ عید گاہ جا کر دوگانہ نماز ادا کرتے ہیں اور گھر پر آکر مخصوص جانوروں کی قربانی پیش کرکے اپنی بندگی کا حق ادا کرتے ہیں۔مگر بدقسمتی سے ایک اگست کا دن یوپی حکومت کے نئے حالیہ فرمان کے مطابق لاک ڈاؤن کی چپیٹ میں ہے۔جس سے رمضان المبارک اور عید الفطر کی طرح عید گاہ میں اجتماعی نماز ادا کرنے سے روک ہے۔اس بات کو لے کر مسلمانوں میں ایک عجیب قسم کی بے چینی محسوس کی جا رہی ہے۔جس کا ازالہ حکومت وقت کی اولین اور ترجیحی ذمہ داریوں میں داخل ہے۔جس کا احساس ارباب اقتدار کو کرنا بے حد ضروری ہے۔

دوسری طرف ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی سنگ بنیاد کا کام زوروں پر ہے۔پورے ملک سے رام مندر آندولن سے تعلق رکھنے والے افراد،سادھؤں اور سنتوں کو مدعو کیا جارہا ہے۔خود حکمراں پارٹی کے قدآور لیڈران سمیت کئی صوبوں کے وزیراعلی بھی تشریف لا رہے ہیں۔جس میں ہمارے وزیراعظم نریندرمودی مہمان خصوصی ہیں۔اور انہیں کے مبارک ہاتھوں سے 40 کلو سونا اس کی سنگ بنیاد میں لگا کر اس کی تعمیر کا کام شروع کیا جائے گا۔ظاہر سی بات ہے جب لوگ مختلف صوبوں سے آئیں گے،وزراء کی آمد ہوگی اور وزیر اعظم اپنے لاء ولشکر کے ساتھ اتریں گے تو بھیڑ کا ہونا لازمی ہے۔اور دوسری طرف حکومتی گائڈ لائن کے مطابق ابھی مذہبی مقامات میں اجتماعی نقل وحرکت اور رسومات کی ادائیگی پر روک ہے۔جس کی پابندی ملک کے ہر باشندہ کو کرنا ضروری ہے وہ چاہے کوئی بھی ہو۔مگر یہی ہمارے بھارت کی خوبصورتی ہے کہ مسلمان اگر اپنی عید گاہ میں اجتماعی نماز پڑھ لیں تو لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی ہوگی اور یہ لوگ رام مندر کے نام پر بھیڑ ا کٹھی کریں تو قانون کی بالادستی۔مسلمان اگر قربانی کریں تو کرونا پھیلنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے اور یہ لوگ اگر جمہوریت و انسانیت کی قربانی کریں تو درست اور دیش بھکتی شمار کی جاتی ہے۔ ہمارا اور ہر انصاف پسند شہری کا حکومت سے یہی سوال ہے کہ کرونا نے تو ہر رنگ ونسل اور مذہب وقوم سے وابستہ افراد کے ساتھ بغیر کسی بھید بھاؤ کے یکساں سلوک کیا ہے اور سب کو متاثر اور ہراساں کیاہے مگر اس بحرانی حالت میں حکومت وانتظامیہ کا دوہرا اور جانب دارانہ معیار کیوں؟

  عزیزوں!ہوش کے ناخن لیں! کہاوت بہت مشہور ہے کہ ''جب تک بچہ نہیں روتا ہے تب تک اس کی اپنی ماں اس کو دودھ نہیں پلاتی ہے''۔حق مانگنے سے ملتا ہے۔اپنے اپنے گھروں میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے اور حالات پر ماتم کرنے سے نہیں۔حکمت عملی اور دور اندیشی اچھی چیز ہے مگر خاموشی اور اپنی ذمہ داری سے بے اعتنائی بہر حال مضر اور مستقبل کے لیے مزید راہ ہموار کرنا ہے۔ہماری بزدلی اور بے مائیگی نے بھی ہمارا بیڑا غیروں سے زیادہ غرق کیا ہے۔رمضان المبارک اور عید الفطر کے موقعوں پر مسلمانوں نے صبر وتحمل کا جو مظاہرہ کیا ہے وہ جگ ظاہر ہے۔سب نے ان کی تعریف کی ہے۔مگر اب جب کہ بہت سارے معاملوں میں حکومت کی طرف سے چھوٹ دی جارہی ہے۔مثلاعید الفطر کے بعد ہی سادھؤں اور سنتوں کے دباؤ بنانے پر سپریم کورٹ نے اڑیسہ کے جگناتھ یاترا کو منظوری دے دی۔حالاں کہ یہ بہت بھیڑ بھاڑ والی جگہ ہے۔مگر ان کو اجازت مل گئی۔ شادی کے موقع پر پچاس لوگوں کی اجازت۔مرنے کے بعد آخری رسومات میں بیس افراد تک کی شمولیت وغیرہ وغیرہ۔توکیا وجہ ہے کہ حکومت مسلمانوں کے مذہبی معاملوں میں کوئی واضح اور صاف حکم نامہ جاری کرنے سے ہچکچا رہی ہے؟ایسے وقت میں ہمارے ملی وقومی قائدین کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ جب سارے لوگوں کو مشروط ومحدود ہی سہی ضرورت کے وقت وسعت مل رہی ہے تو آپ لوگوں کو بھی اس سلسلے میں عملی اقدامات کرنے چاہیے ورنہ تو کرونا کے بہانے ایمان وعقیدے کی کمزوری ہمارا مقدر بن جائے گی،جس سے نکلنا اس مادی دور میں بہت مشکل امر بن جائے گا۔

واضح رہے! میں احتیاطی تدابیر اور سماجی فاصلہ کا مخالف نہیں ہوں بلکہ اس کرونا کال میں حکومت کی جانب داری اور دورخی فرمان کا مخالف ہوں۔جب ہندوستان میں کرونا کے پاؤں رکھنے کا ابتدائی زمانہ تھا اور مریض دو تین ہزار ہی تھے،اس وقت راقم الحروف احتیاطی تدابیر اور سماجی فاصلہ پر خود عمل کرتا تھا اور لوگوں سے تحریر وتقریر کے توسط سے عمل پیرا ہونے کی اپیل بھی کرتا تھا مگرموجودہ حکومت کے دور اقتدار اور بالخصوص اس بحرانی حالت میں سرکار کی پالیسیوں اور فرامین کا جائزہ لینے پر یہ بات ہر کس وناکس سمجھنے اور جاننے لگا ہے کہ موجودہ حکومت کا ہر فیصلہ ایک خاص جماعت کو پریشان اور ہراساں کرنے کے لیے ہی ہوتا ہے۔ورنہ مدھیہ پردیش میں عین بقرہ عید کے وقت لاک ڈاؤن لگانے اور رام مندر کے سنگ بنیاد کا کام اس مہاماری کے دور میں کرنے کی کیا ضرورت تھی۔اس کا مطلب تو یہی ہوتا ہے ناکہ صرف مسلمانوں کے مذہبی تہواروں اور رسومات کی ادائیگی میں کرونا ہے ہندوؤں کے نہیں۔اس لیے اب وقت شایدحکمت پسندی کا نہیں رہ گیا۔ابہمیں بھی اپنے طاقت و قوت کو پہچان کر حکومت و انتظامیہ سے اس سلسلے میں گفت و شنید کرنا چاہیے کہ جب دو دن کو چھوڑ کر باقی ایام میں سب معاملات حسب سابق ہو رہے ہیں اور لاک ڈاون کے باوجود بہت سارے سماجی اور مذہبی معاملات میں ضرورت کے مطابق ڈھیل دینے کا کام ہورہاہے تو ہم مسلمانوں کو بھی اپنے سالانہ مذہبی تیوہار عید قرباں کے موقع پر ایک الگ سے سرکلر جاری کراس کی ادائیگی کے لیے پر امن طریقے سے ضرور کوشش کرنی چاہیے اور اپنے جذبات واحساس سے حکومت کوروشناس کرانا چاہیے۔تاکہ حکومت کوبھی ہمارے وجود وحرکت کا احساس ہو۔شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad