تازہ ترین

جمعرات، 9 جولائی، 2020

صالح معاشرہ کی تشکیل کےلیے نکاح ایک امر لابدی ہے!

 ازقلم:انوار الحق قاسمی، نیپالی
 رابطہ نمبر 9779811107682+

  انسانی فطرت، طبعیی تقاضے کےموافق  اور قلبی وذہنی راحت و سکون کی خاطر ،خالق الارض و السماوات نے حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام کے جسد مبارک کی ایک جانب و پہلو  سے خلاف جنس نوع کی  تخلیقی ابتدا حضرت حوا علیہا السلام سے فرمائی،  پھر ان دونوں کے مابین رشتہ زوجیت کو قائم کیا ؛تاکہ نسل انسانی کایہ سلسلہ باقی رہے، جوڑے بنتے رہیں، نسلیں پھیلتی رہیں ،اوررشتہ ازدواج میں  منسلک  کرکے، ان کے درمیان الفت و محبت پیدا کردی ،اور انہیں ایک دوسرے کے سکون کا ذریعہ بنایا، رب العالمین نے اس عظیم رشتہ نکاح کو تمام ولد آدم کے لئے برقرار رکھا ،اور اس رشتے میں منسلک ہونے والے، سنت نبوی کو اپنانے والے قرار پائے، اور اس سے بے جابےاعتنائی و روگردانی  کرنے والے،اسوہ نبی  سے کنارہ کشی اختیار کرنے والے گردانے گئے،  اور من جانب اللہ اس رشتے میں مربوط ہونے والےفقرا  کے لیے وسعت و فراخی اور غناء و مالداری کا وعدہ بھی کیا گیا ہے، اور تاریخ بھی شاہد عدل ہے، کہ بہت سےفقراء حضرات باوجوداپنی تنگ دستی و فقر و فاقہ کے، جب رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے ہیں تو خالق مطلق نے  محض اپنے فضل و کرم سے،انہیں مالدار بنا دیا ہے، اوران سے فقر و فاقہ اور تنگ دستی کو اس طرح  دورکردیے ہیں،  کہ پھروہ دوبارہ کبھی   ان کے پاس  بھٹکی بھی نہیں  ہے-

  سرورکائنات حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کی ترغیب دیتے ہوئے کہا:النكاح من سنتي فمن رغب عن سنتي فليس مني. { نکاح میری سنت ہے، جو میری سنت سے اعراض کرے گا ،وہ میرا نہیں} نکاح ایک مضبوط شرعی معاہدہ ہے ،ایک اجنبی مرد و عورت کا، یہ مضبوط معاہدہ صرف نفسانی خواہشات ہی  کی تکمیل کے لئے نہیں ہے؛ بل کہ اس کا ایک اہم اور عظیم مقصد نسل انسانی کا فروغ، زندگی کا سکون اور دل کی راحت حاصل کرنا ہے، اور دو اجنبی مرد عورت کے مابین الفت و محبت کی فضا ہموار کرنا ہے۔
   
   نکاح  عفت و پاکدامنی کا ذریعہ ہے ،نکاح نگاہوں کے جھکانے اور شرم گاہوں کی حفاظت کا بہترین ذریعہ ہے، نکاح کے ذریعے نصف دین کی تکمیل ہو جاتی ہے، نکاح سے صحیح معاشرہ وجود میں آتا ہے ،نکاح معاشرہ اور سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں کے خاتمے اور سدباب کا ذریعہ ہے، نکاح کے ذریعے انسان کی عظمت و وقار میں اضافہ ہوتا ہے، نکاح ہر طرح کے شکوک و شبہات کے دائرے میں وقوع سے بچاتا ہے ،اس کےبرخلاف نکاح نہ کرنے والاشخص ارشاد  نبوی "فلیس منی " کا مصداق  ہوتا ہے، ان کی نگاہیں  اور شرم گاہیں محفوظ نہیں ہوتی ہیں ، ان کا نصف دین بھی مکمل نہیں ہوتا ہے، ان کی عزت و ناموس بھی  ہمہ وقت اور ہمیشہ خطرے میں رہتی ہے ،لوگ ان سے بدظن رہتے ہیں، شکوک و شبہات کے دائرے میں رہتے ہیں، بے چینی کی زندگی جیتے ہیں، کیا فائدہ ایسی زندگی سے، جس میں کوئی شریک حیات،شریک راز اور شریکِ غم نہ ہو، ان پر مستزاد یہ کہ ہر وقت لوگوں کی ملامتیں بارش کی طرح برستی بھی  ہوں ،تاجدار بطحا سید الکونین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلم نوجوانوں کو  پاکیزگی اور عفت و پاکدامنی کی تعلیم دیتے ہوئے نکاح کرنے اور پاکیزہ زندگی گزارنے کی تلقین کی ارشاد نبوی ہے: من الستطاع الباءۃ فلیتزوج فانه أغض للبصر وأحصن للفرج ومن لم یستطع فعلیه بالصوم فانه له وجاء. (جو شخص استطاعت رکھتا ہو، شادی کرے؛ اس لئے کہ یہ نگاہ کی پاکیزگی اور شرم گاہ کی حفاظت کا ذریعہ ہے ،اور جس شخص کے پاس شادی کرنے کی قدرت و استطاعت نہ ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ روزہ رکھے، کہ یہ اس کی شہوت  کا توڑہوگا)۔

   جب اولاد بلوغیت کی عمر کو پہنچ جائے، اور اولاد جملہ حقوق کی ادائیگی پر قادر بھی ہو، تو والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے ،کہ وہ اپنی اولاد کےلیے  مناسب اور بہتر جوڑے کا انتخاب کرکے،نکاح کرا دے ،لڑکی کا انتخاب اس کے مال و دولت کو دیکھ کر، اس کے بڑے خاندان کو دیکھ کر، اس کی  خوبصورتی اور حسن و جمال کو دیکھ کر ہرگز نہ کیاجاۓ؛ بل کہ  اس کی دینداری و شرافت کو دیکھ کر کیا جائے، اسی میں صد فیصد کامیابی ہے، اور اس کے عکس میں سو فیصد ناکامی ہے؛ کیوں کہ صالح معاشرہ کی بنیاد صالح خاندان ہے،اور صالح خاندان کی بنیاد صالح جوڑا ہے؛ اس لئے شادی کے وقت جوڑے کے انتخاب میں لڑکا اور لڑکی کی  صالحیت اور دینداری کا خیال رکھا جائے، تاکہ صالح معاشرہ کی بنیاد پڑے۔
   لڑکا اور لڑکی کے انتخاب میں صالحیت ودینداری ،اور عمدہ اخلاق صحیح معاشرہ کے لئے ،جس طرح امر ناگزیر ہے، بعینہ  اسی طرح  معاشرے کو بہہ  سے بہتر بنانے کے لئے، دونوں کے مابین مالی کفاءت بھی ضروری ہے، تاکہ میاں بیوی خوش گوار طریقے سے زندگی بسر کر سکیں، اور ان کے مابین آئندہ ان بن نہ ہو سکے، ورنہ غیر کفوء میں شادی کرنے والے میاں بیوی کے درمیان لفظی جنگ و جدل تو ہوتی ہی رہتی ہے، اور بسا اوقات ،تو ہاتھا پائی کی  نوبت تک بھی  آجاتی ہے ، ناکح و منکوحہ  کے مابین دائمی  الفت و محبت برقرار رکھنے کے لیے ،شریعت اسلامیہ میں مسئلہ کفاءت کا اعتبار کیا گیا ہے ،یہی وجہ ہے، کہ اگر لڑکی غیر کفوء میں،بدون اذن ولی  شادی کر لیتی ہے، تو پھر ولی اقرب، مثلا باپ  کو فسخ نکاح کا حق حاصل ہوتا ہے۔

    خواہ  لڑکا ہو یا لڑکی بلوغیت کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی، وہ انسانی فطرت کے مطابق، اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل وراحت  کےلیے، لڑکا لڑکی کی شکل و صورت میں، اور لڑکی لڑکے کی صورت میں اپنا رفیقہ حیات اور رفیق راز  تلاش کرنے میں مصروف ہو جاتا ہے؛ مگر افسوس کے موجودہ دور کے کچھ جدت پسند حضرات، بحیثیت والد ہونے کے، اپنی اولاد کو رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے سے، اس وقت تک روکے رکھتے ہیں، تاآں کہ ان کی اولاد سرکاری یا پرائیویٹ نوکری کے لیے مامور  نہ ہو جاتے ہیں،اورجب  نوکری مل جاتی ہے،تو پھر بڑے ہی  دھوم دھام سے اپنی اولاد کی شادی کرتے ہیں؛ مگر ایک طویل عمر شباب کے ضائع ہونے کی وجہ سے پوری زندگی عمر رفتہ پر کثرت سے روتے ہیں، مگر گیا وقت پھر ہاتھ آتا ہی کب ہے، ان افکار و خیالات اور باطل نظریات کے حامل انسان قولا خود کو رازق  ہونے کا اقرار تو نہیں کرتے ہیں ؛مگر عملارازق ہونے کا ثبوت ضرور دیتے ہیں۔ 
  
  اسی طرح  ایک اور بہت بڑا المیہ ،جو فساد معاشرہ کے لئے مفید و معاون ہے، وہ یہ ہے کہ جب جانبین  سے نکاح کے تئیں بات حتمی اور یقینی ہوجاتی ہے ،تو نکاح کے روز لڑکے  کےوالد، لڑکی والوں کےیہاں کثیر تعداد میں برات لاتے ہیں، اور مہمانوں کے لیے فرمائشی معقول طعام کے انتظام کا  حکم بھی دیتے ہیں ،جس  کی بناء لڑکی کے والد کو کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مگر بدرجہ مجبوری  وہ ساری پریشانیوں کو جھیلتے ہیں، جب کہ سب سے بہتر اور بابرکت نکاح اسے کہا گیا ہے ،جس میں کم سے کم صرفہ ہو"ان أعظم النکاح برکة ایسره مؤنة "۔

   نکاح جیسی عظیم نعمت کے حصول اور سنت نبویہ کو اختیار کرنے کی خوشی میں، لڑکے والوں کو دعوت ولیمہ کرنی چاہیے، جس کا مقصد  نعمت نکاح کے حصول  پر مسرت و شادمانی کا اظہار اور اعزہ و اقارب ،دوست و احباب اور پڑوس میں رہنے والوں کو شریک کرنا ہو، دعوت ولیمہ میں شرفاء واغیاء کے ساتھ ساتھ، فقرا ومساکین کو بھی شریک کریں، تاکہ دعوت ولیمہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ  وسلم " شرالطعام طعام الولیمة یدعي لهاالأغنیاء ویترک الفقراء " کامصداق نہ بن سکے، اس میں بھی فضول خرچیوں سے اجتناب کیا جائے، دعوت ولیمہ کے کھانوں کے انتظام و انصرام میں،  قطعی تکلفات سے کام لینے کی ضرورت نہیں ہے، اگر ممکن ہو، توارشاد نبوی "أولم بشاة"کے مطابق، ایک بکری ہی کے ذریعے دعوت ولیمہ کرلیں۔

    جس مسلمان کے دل و دماغ میں بھی اللہ کے رسول   حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے ادنیٰ محبت ہوگی، بشرطیکہ وہ جملہ حقوق زوجیت کی ادائیگی پر قادر بھی ہو،تو وہ سنت نبوی" النکاح من سنتی " سے قطعی گریز نہیں کرے گا، تخرد و تفرد اور کنارہ کشی کی زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ، اللہ اور اس کےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و بندگی کرنا کمال نہیں ہے؛بل کہ کمال یہ ہے کہ انسان شادی بھی کرے ، اور اپنی اولاد کی پرورش و پرداخت کرنے کےساتھ ساتھ ، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ہرحکم  پر عمل اور ہرہر منہی عنہ  سے اجتناب کرے۔
    خداوند عالم تمام مسلمانوں کو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور اس موقع سے ہونے والے بےجا اخراجات ،اور موجودہ دور کے تمام ہی شرور و فتن  سے حفاظت فرمائے، آمین۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad