تازہ ترین

جمعرات، 13 اگست، 2020

لہو میں زندگی کی لہر پیدا کرنے والا شاعر راحت اندوری

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی اردو شاعری کے فروغ میں مشاعروں اور شعری نشستوں نے بڑا اہم رول ادا کیا ہے، آج سے ایک دہائی قبل تک

   مشاعروں کے اسٹیج سے اردو شعر وسخن کی بڑی معتبر اور مستند نمائندگی ہوتی رہی ہے،خمار وکیفی سے لیکر ساغر خیامی وساغراعظمی  تک ایک سنہرا سلسلہ تھا جس میں  شاعری پورے حسن وجمال اور  سخنورانہ  بانکپن کے ساتھ نظر آتی تھی ،موجودہ عہد میں  بازاری ‌اور بے مقصد اشعار اور سستی شہرت حاصل کرنے والوں کی تک بندیوں کے باعث اس پلیٹ فارم کے حوالے سے اُردو شاعری پر زوال آیا اور سوقیانہ پن اور مبتذل اشعار کے ذریعے اس کا وقار مجروح ہونا شروع ہوا تو ہوتا ہی چلا گیا۔

     ایسے ماحول میں صرف ایک شاعر تھا جو پوری قوت اور بغیر کسی سمجھوتے کے شعری دنیا کے روشن عہد کی ترجمانی کرتا رہا، اس نے اس راہ میں نہ بے ہنگم داد کے شور کی پروا کی اور نہ ہی مادی سرمایہ سے محرومی کی فکر کی، اس نے کبھی جھوٹی شہرتوں کی طرف دیکھا اور نہ ہی لوگوں کے پست مذاق کی طرف توجہ کی، اس نے ہر محاذ پر،ہر ماحول میں اور ہر محفل میں صرف فن کی طرف دیکھا ،مقاصد کی جانب نگاہ کی ،قوم کی پستی کی طرف دیکھا، اس کے زوال کو دیکھا، ان اوصاف سے قارئین نے اس شہرہ آفاق اور ہر دلعزیز سخنور کا ادراک کرلیا ہوگا  جسے دنیا راحت اندوری کے نام سے جانتی ہے،  بلاشبہ راحت اندروی اس عہد میں قدیم روایات کے ساتھ ساتھ جدید شاعری کے نمائندہ  تھے ان کے دم سے مشاعروں  کے اسٹیج کی آبرو باقی تھی، ان کے فکر انگیز ،انقلاب آفریں اور رومانی  اشعار سے اس گئے گذرے دور میں بھی شاعری زندہ تھی،
      
    11/اگست 2020/کو شعر وسخن کی یہ شمع گل کیا ہوئی کہ ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا، اردو سخن وری کی ایک تاریخ مکمل ہوگئی، ایک دور اپنے اختتام کو پہنچا۔ ان کی رحلت سے ادبی دنیا یقیناً سوگوار ہوئی ہے، سخنوری کی محفل سونی ہوگئی ہے ، ایوان شعر وسخن میں اندھیرا سا پھیل گیا ہے'۔

راحت اندوری  فلک رسا تخیل، پختہ شعورکے حامل قادر الکلام شاعر تھے، انھوں نے  شاعری کے تمام موضوعات مثلأبادہ وساغر، حسن وعشق، اور ہجر و وصال اور حالات کی چیرہ دستیوں وسماج ومعاشرے کی ناہمواریوں پر طبع آزمائی کی ہے۔مگر رومانی شاعری ان کے شعری سفر کا آغازتھا،وقت کے ساتھ ساتھ تجربات ومشاہدات کے نتیجے میں بہت جلد اس میں تبدیلی آتی گئی اور ان کی شاعری رومانیت کے حصار سے نکل کر احتجاجی آواز کی شکل اختیار کرگئی۔
یہی وجہ ہے کہ راحت کی شاعری میں رومانیت بھی ہے'نغمگی بھی، ماحول کی چیرہ دستیوں کا عکس بھی ہے'اور معاشرے کا کرب بھی، سماج کی ناہمواریوں پر گہرا طنز بھی ہے'اور آمریت کے خلاف برملا احتجاج بھی، 

راحت کی شاعری میں استعارات بھی ہیں اور جدید تشبیہات بھی، جنگ آزادی کی راہ میں مسلمانوں کی جو قربانیاں تاریخ کے سینے پر نقش ہیں وہ تعصب کی گرد سے مٹ نہیں سکتی ہیں ‌مگر باوجود اس کے  مخصوص طبقے نے اس کو مٹا نے کی ہر ممکن کوشش کی اور میڈیا کے زور پر خود وہ لوگ جن کا پسینہ بھی اس راہ میں خرچ نہیں ہوا ہے'آج وہ سالار کارواں کی حیثیت سے جانے اور پہچانے گئے،تاریخ کے اس جبر کو کس قدر آسانی سے اس سخنور نے شعری عطا کیا ہے'اس شعر میں دیکھا جاسکتا ہے'۔

ہم پربتوں سے لڑتے رہے اور چند لوگ
گیلی زمین کھود کے فرہاد ہوگئے۔۔۔۔

راحت اندوری کے تجربات نہایت گہرے اور ان کی نظریں
انتہائی وسیع تھی،ملک کے حالات،وقت کے حکمرانوں کی منافقانہ پالیسی،اور جمہوریت کے نام پر حکومتوں کے متعصبانہ کردار کو انھوں نے گہری نظر سے دیکھا اور اس مشاہدات کے نتیجے میں جو احساسات تھے انہیں شعری پیکر عطا کرکے
دوٹوک انداز اور جارحانہ اسلوب میں حکومتوں کے رویوں پر  تنقید کی ہے، تاہم حالات کتنے ہی مخدوش ہوں، ظالمانہ روش کیسی ہی سنگین ہو، تعصبات کی آندھیاں کنتی ہی

ہولناک اور خوفناک ہوں،انھوں نے کسی بھی مرحلے میں ہمتوں اور حوصلوں کا دامن نہیں چھوڑاہے،اور مکمل خود اعتمادی اور پوری توانائی سے ہمت و شجاعت، اور  احساس برتری وخود شناسی کا  پوری قوت سے پیغام دیا ہے'، یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں یاس وامید، یقین واذعان، اور ایمانی قوت وطاقت،
صبر واستقامت کے ضیا بار ستاروں کے ساتھ ساتھ قوم مسلم کی عظمت رفتہ کی شوکت و عظمت کا آفتاب بھی مکمل نصف النہار پر نظر آتا ہے، اس شعر میں مسلمانوں کے عظمت رفتہ کی شاندار تاریخ کی مکمل تصویر دیکھی جاسکتی ہے،
شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم
آندھی سے کوئی کہ دے کہ اوقات میں رہے

ہمارے سر کی پھٹی ٹوپیوں پہ طنز نہ کر
ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں

ملک دشمن اور فرقہ پرست عناصر کی بربریت ،پڑوسی ملکوں میں ہجرتوں کے نعروں اور حکومتی سطح پر مسلمانوں کے ساتھ دہرے روئیے پر ان کا یہ شعر بھی دیکھیں،کس قدر پر اعتماد لہجے میں ان فرقہ پرست عناصر کو اپنی شاعری کے حوالے سے قوم کا یہ فیصلہ سنایا ہے،
اب کہ جو فیصلہ ہوگا وہ یہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پر ہوگا
ہم سے اب دوسری ہجرت نہیں ہونے والی۔

راحت اندوری کے دل میں ہندوستان کی مٹی خون کی طرح دوڑ رہی تھی ہندوستان کی محبت اور اس کی مٹی سے عشق کا شعلہ ہمہ وقت ان کے وجود میں بھڑکتا رہتا تھا، اس محبت کا اظہار بھی اکثر وبیشتر ان کے شعروں میں نظر آتا ہے،مثلا
میں جب مرجاؤں تو میری الگ پہچان لکھ دینا
لہو سے میری پیشانی پہ ہندوستان لکھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دینا

جس طرح راحت اندوری کی شاعری ، تیکھے اسلوب، طنزومزاح کے نشتر، انقلابی لہجے،بلند آہنگ، کے باعث انفرادی شناخت رکھتی ہے'،اسی طرح ان کے پڑھنے کا اندازہ، لہجے میں اتار چڑھاؤ،‌کے ساتھ آواز میں برق کی طرح گھن گرج بھی انہیں تمام قدیم وجدید شعرا میں امتیازی شان عطا کرتی ہے'، زمانہ طالب علمی میں ادب کی دلچسپی ہمیں بھی مشاعروں کی محفل میں لے جاتی،اس وقت اسٹیج مختلف آہنگ کے جید شعرا سے اسٹیج بھرا ہوتا لیکن اس کے باوجود راحت مرحوم کو بالکل آخر میں آواز دی جاتی اور جب وہ کھڑے ہوتے تو پورا مجمع گوش بر آواز ہوجاتا، سحر کے وقت سامعین کی آنکھوں پر چھایا ہوا نیندوں کا خمار لمحوں میں رخصت ہوجاتا، راحت صاحب اپنے شاعرانہ فن کے ساتھ ساتھ مخصوص طرز ادا اور منفرد ایکٹنگ سے پورے مشاعرے کو لوٹ لیا کرتے،ان کے اسی وصف کی وجہ سے بڑی سے بڑی  شعری محفل میں ان کی موجودگی اس مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت ہوتی تھی۔

راحت اندوری ایک عمدہ اور زبردست شاعر کے ساتھ بلند کردار بھی تھے انھوں نے فن سے انصاف کرنے کے لئے اپنی سرکاری ملازمت ترک کردی،اور اپنی پوری صلاحیت قوم کو  ارتقاء آشنا کرنے کے لئے اور ملک میں رواداری کی فضا قائم کرنے کے لئے صرف کردی، مے نوشی کے باوجود ان کے دل میں عشق رسول کی شمع روشن تھی یہی وجہ ہے کہ ان کے شعری سفر میں نعتیہ کلام کے خوبصورت  پھول بھی ملتے ہیں،اور آخر وقت میں انھوں نے اس عمل سے توبہ بھی کرلی تھی ،ان کے بلند کردار اور فخر موجودات سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی محبت کا عکس ان کے دوست محترم سلیم عرف پپو بھائی اعظم گڈھ کے تاثرات میں دیکھا جا سکتا ہے، سلیم صاحب کی اس تحریر کو من وعن ہم نقل کرتے ہیں،،

 ایک واقعہ یاد آ رہا ھے سید صباح الدین صاحب  کا دور تھا زبیر رضوی جو اس وقت غالب یا اردو اکیڈ می سے وابستہ تھے خیراباد کے ایک مشاعرہ میں شرکت  کے لیۓ آۓ اور شبلی منزل میں قیام کیا میں نے اسی کمرہ راحت بھاٸ کو ٹہرا دیا میرے ذمہ ان لوگوں کو شام کو خیراباد لوا کر جانا تھا  سورج غروب ہونے کے بعد زبیر رضوی نے شراب کی فرمایش کردی راحت بگڑ کر کہنے لگے کی آپ کو احساس نہیں کہ آپ کہاں پر ٹہرے ہیں دس قدم پر سیرت النبیﷺ کا خالق سویا ہوا ھے میں نے اس احاطہ میں قدم رکھنے سے قبل اپنے بیگ میں رکھی بوتل پھینک دی اور آپ یہاں سلیم سے شراب مانگ رہے ہیں یہ تو ویسے بھی نہیں لانے کا
زبیر رضوی کی وہ شام خشک گزری موڈ بھی خراب تھا اور مشاعرہ میں عمر قریشی مرحوم سے جھگڑ پڑے وہ ایک الگ واقعہ ھے،،
اس ایک واقعہ سے راحت صاحب کے دل کی روشنی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے، راحت صاحب اب اس دنیا میں نہیں ہیں مگر ان کی شاعری، ان کے سخنورانہ کمالات ان کا لہجہ، اور ان کی شاعرانہ عظمت انہیں صدیوں تک انہیں زندہ رکھے گی۔
بھلا سکے گا نہ مجھ کو زمانہ صدیوں تک
مری وفا کے مرے فکر وفن کے افسانے


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad