تازہ ترین

بدھ، 5 اگست، 2020

ایودھیا میں دعوتی سنٹر قائم کرکے ملک کی فضا کو بدلنے کی کوشش کی جائے:مولانا انیس الرحمن قاسمی

پھلواری شریف(یواین اے نیوز 5اگست2020)آل انڈیا ملی کونسل کے قومی نائب صدر مولانا انیس الرحمن قاسمی چیرمین ابوالکلام ریسرچ فاؤنڈیشن نے کہاہے کہ عبادت گاہوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:”اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ دفع نہ کرتا رہے تو صوامع  اورگرجا گھر اورمعبداورمسجد جن میں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے،سب مسمار کرڈالی جائیں۔اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا، جو اس کی مدد کریں گے،(یقینا)اللہ بڑا طاقتور اورزبردست ہے“۔(سورہ حج:۰۴)عبادت گاہوں کی حفاظت اوردین حق کو قائم کرنا اورحق بات کو کہنا اورظلم کا مقابلہ کرنا اللہ کی مدد ہے؛کیوں کہ یہ اللہ کا کام ہے اورجو اس کام کو کرتا ہے،اللہ اس کی مدد کرتا ہے،یہی قانون الٰہی”بابری مسجد“کی حفاظت کے بارے میں بھی ہے۔موجودہ حالات میں ایودھیا کی بابری مسجد کو دیکھیں تو6دسمبر1992ء کو فرقہ پرست دہشت گردوں نے اسے شہید کردیا تھا؛مگر وہ جگہ تا قیامت مسجد کی رہے گی،بابری مسجد کسی عبادت گاہ، یا مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی،یہ وہ حقیقت ہے جسے طویل عرصہ کے بعد سپریم کورٹ نے اپنے8نومبر2019کے فیصلہ میں تسلیم کیا ہے،سپریم کورٹ نے یہ بھی کہاکہ بابری مسجد کی کھدائی میں جو آثار ملے،وہ بارہویں صدی عیسوی کی عمارت کے ہیں۔بابری مسجد کی تعمیر سولہویں صدی عیسوی میں یعنی اس کے چارسو سال بعد ہوئی ہے

جس سے واضح ہوا ہے کہ کسی مندر کو توڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی ہے؛اسی لیے سپریم کورٹ نے اپنے اس فیصلہ میں یہ تسلیم کیا ہے کہ22دسمبر1949میں مسجد میں مورتیوں کو رکھا جانا ایک غیر قانونی اورغیر دستوری عمل تھا۔مولانا قاسمی نے کہاکہ سپریم کورٹ نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ6دسمبر1992کی بابری مسجد کی شہادت غیر قانونی اورمجرمانہ فعل تھا۔مسجد کو شہید کرنے کا مقدمہ زیر سماعت ہے اورگواہیاں وبیانات ہورہے ہیں؛لیکن ان ساری تفصیلات اوراعترافات کے باوجود سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی زمین کو مندر کے لیے آستھا اوردباؤ کی بنیاد پر دے دیا ہے،جو غلط ہے اورجس کی وجہ سے یقینی طور پر نہ صرف ملک میں؛ بلکہ ساری دنیا میں سپریم کورٹ کے وقار کو دھجکا لگا ہے،یہ وقت ہندومذہب کے لیے انتہائی نازک ہے،اس طرح اس مذہب کے ماننے والوں کے بارے میں ظلم وجبر اورناانصافی کا پیغام گیا ہے،اس لیے ان کو چاہیے کہ اس پر غور کریں اورزمین کے اس حصہ کو چھوڑ کر اپنا کام کریں،اس سے ہندومسلم اتحاد،انصاف اوربچی رواداری کا پیغام جائے گا؛لیکن وہ ایسا نہیں کریں گے؛اس لیے کہ ہندومذہبی لوگوں پر ہندتوا کے فاشسٹ عناصر اورفاشزم کے علمبردار سیاسی لوگوں کا غلبہ ہے

جو انہیں حق کے راستہ پر چلنے نہیں دیں گے؛لیکن پھر بھی سوال ہے کہ کیا ہندو اپنے اوپر سے اس داغ کو مٹانے کی کوشش کریں گے؟جہاں تک مسلمانوں کی بات ہے تو ان کو اللہ پر یقین ہے،دنیا میں بادشاہوں،حکمرانوں اوران کے زیر اثرعدالتوں سے ظلم وجبر کے فیصلے ہوتے رہے ہیں؛لیکن اصل فیصلہ احکم الحاکمین کا ہوتا ہے،اسی سے رجوع کرنا ہے اورحق کے لیے اپنی کوشش جاری رکھنی ہے،ہمارے لیے ایودھیا میں آج بھی مسجدوں کی کمی نہیں ہے،مسلمانوں کو چاہیے کہ ان مسجدوں کو اپنی عبادت وتلاوت سے آبادکریں،ان کی ظاہری حالت کو بہتر سے بہتر بنائیں اورایک ایسا دعوتی سنٹر قائم کریں،جہاں سے پورے ملک میں ایمان کی دعوت دی جائے۔برادران وطن کی غلط فہمیوں کو دور کیا جائے اورپورے ملک میں نفرت کے بجائے محبت کی فضا پیدا کی جائے،اگر ملک کو بدلنے کی کوشش کی جائے گی تو یقینا اللہ کی مدد آئے گی۔إن شائالله

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad