تازہ ترین

جمعہ، 14 اگست، 2020

جنگ آزادى اور ضلع اعظم گڑھ :

عبید اللہ شمیم قاسمی 
   اٹھارہویں صدی کے وسط میں سلطنت مغلیہ کا آفتاب مائل بہ غروب تھا اور انگریزی اقتدار کی گھٹائیں دن بدن گاڑھی ہورہی تھیں ، انگریز جب ہندوستان پہنچے تھے تو تاجروں کی حیثیت سے پہنچے تھے اور عام لوگوں نے انهیں ایک معمولی تاجر کے سوا اور کچھ نہیں سمجھا؛ لیکن ان کی نیت صاف نہیں تھی، انھوں نے اپنوں کی کمزوری اور آپسی نااتفاقی سے فائدہ اٹھا کر اپنی شاطرانہ اور عیارانہ چالوں کے ذریعہ یہاں کے سیاہ وسفید کے مالک ہوگئے اور ہندوستانی قوم کو غلامی کی غیر مرئی زنجیروں میں قید کرنے میں کامیاب ہوگئے، یہاں کی دولت و ثروت کوبے دریغ لوٹنے لگے، یہاں کے باشندوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے لگے اور یہاں کی تہذیب سے کھلواڑ کرنے لگے اور اس کا سلسلہ مزید بڑھتا ہی گیا، پانی جب سر سے اوپر ہوگیا، تو ہندوستانیوں کے دلوں میں آزادیٴ وطن کا جذبہ پیدا ہوا اور سب سے پہلے مسلمانوں نے اس خطرے کی سنگینی کو محسوس کیا، سراج الدولہ اور سلطان ٹیپو شہید اور دیگر مسلم فرماں روا اپنی تمام تر قوتوں کے ساتھ جان ہتھیلی پر رکھ کر میدانِ جنگ میں کود پڑے اور یوں تحریک آزادی کی ابتداء ہوئی، جان و مال کی قربانیاں دیں،تحریکیں چلائیں تختہٴ دار پرچڑھے، پھانسی کے پھندے کو جرات وحوصلہ اور کمال بہادری کے ساتھ بخوشی گلے لگایا، قیدو بندکی صعوبتیں جھلیں اور حصولِ آزادی کی خاطرمیدا ن جنگ میں نکل پڑے، آخر غیرملکی (انگریز) ملک سے نکل جانے پر مجبور ہوئے،ہندوستان کی تحریک آزادی میں مسلمانوں کاحصہ قدرتی طور پر بہت ممتاز ونمایاں رہا ہے، انھوں نے جنگ آزادی میں قائد اور رہنما کا کردار ادا کیا،اس کی وجہ یہ تھی کہ انگریزوں نے اقتدار مسلم حکمرانوں سے چھینا تھا، اقتدارسے محرومی کادکھ اوردردمسلمانوں کو ہوا، انھیں حاکم سے محکوم بننا پڑا، اس کی تکلیف اوردکھ انھیں جھیلناپڑا، اسی لیے محکومیت وغلامی سے آزادی کی اصل لڑائی بھی انھیں کو لڑنی پڑی۔

      انگریزوں سے باقاعدہ منظم جنگ نواب سراج الدولہ کے نانا علی وردی خان نے 1754ء میں کی اوران کوشکست دی،کلکتہ کا ڈائمنڈ ہاربر اور فورٹ ولیم انگریزوں کامرکزتھا،علی وردی خان نے فورٹ ولیم پرحملہ کرکے انگریزوں کو بھگایا، انگریزڈائمنڈ ہاربرمیں پناہ لینے پرمجبورہوئے۔اسے پہلی منظم اورمسلح جنگ آزادی قرار دیا جاسکتاہے۔ علی وردی خان کے بعدان کے نواسہ نواب سراج الدولہ حاکم ہوئے اور اس خطرہ کو محسوس کیا کہ انگریز ان کے ملک پرآہستہ آہستہ حاوی ہورہے ہیں اوران کو ملک سے نکالناضروری ہے۔اس نے حوصلہ اور ہمت سے انگریزوں کوشکست دیناچاہا؛ مگر انکا دربار سازشوں کا اڈہ بن گیاتھا؛ اس لیے انہیں شکست ہوئی اور1757ء میں برٹش فوج نے ان کے دارالسلطنت مرشدآبادمیں انھیں شہیدکردیا۔تاریخ کے صفحات میں پلاسی کی جنگ 1757ء اوربکسرکی جنگ1764ءکی تفصیل موجود ہے،یہ جنگ بھی ہندوستانیوں کی شکست پرختم ہوئی،اس کے بعدانگریزبنگال، بہار اور اوڑیسہ پرپوری طرح حاوی ہوگئے۔

 کمپنی کا رخ دہلی کی طرف :
سارے ہندوستان کو بالواسطہ یا یا بلا واسطہ زیر نگیں کرنے کے بعد اب انگریز کا نشانہ دہلی کا پایہ تخت تھا، جہاں مغلیہ حکومت کا چراغ ٹمٹما رہا تھا۔ 1803ء میں دہلی پر قبضہ کیا، اور یہاں بھی سوچی سمجھی اور طے شدہ پالیسی سے کام لیا گیا، یعنی بادشاہ ( شاہ عالم)کو تاج وتخت کے ساتھ باقی رکھتے ہوئے صرف اختیارات ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلیم کرالئے گئے اور اس کی تعبیر یہ کی گئی کہ’’ خلق خدا کی، ملک بادشاہ سلامت کا اور حکم کمپنی بہادر کا‘‘۔ ( علمائے ہند کا شاندار ماضی:2/435 ) شاہ عبد العزیز ؒ کا فتوی : جب ہر طرح کا اختیار انگریزوں کا شروع ہوچکا اور اسلامی تشخص کو مٹانے کی کوشش زوروں پر آگئی۔ ان حالات میں حضرت شاہ ولی اللہ محد ث دہلوی ؒ کے فرزند و جانشین حضرت شاہ عبد العزیز ؒ نے 1803ء ميں ایک فتویٰ صادر کرکے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا اعلان کیا۔ یہی فتوی ہندوستان کی جدوجہد آزادی کا نقطہ آغاز ہے۔

 اعظم گڑھ كا محل وقوع: 
عہد تیموریہ میں بسنے والا یہ وہ شہر ہے جس کے چھوٹے چھوٹے قصبات نے ایسے ایسے آفتاب و مہتاب کوجنم دیا ہے جنکی ضوفشانی پوری علمی کائنات میں ہے۔ مبدا فیاض کے الطاف و عنایات کی مظہر یہ وہ سر زمین ہے جس کی عظمتوں کے نقوش پوری علمی کائنات میں مر تسم ہیں ۔ حیرت ہوتی ہے کہ یہاں کے چھوٹے چھوٹے قصبا ت سے آفاقی اور عالمگیر شہرت کی حامل شخصیتوں نے جنم لیا اور نظام افکار و اقدار پر اپنے گہرے اثرات مرتب کئے۔ يه ضلع اترپردیش کے مشرقی حصے میں واقع ہے جو گنگا اور گھاگھرا کے وسط میں بسا ہوا ہے۔ زمانہ قدیم میں اس جگہ کا کوئی نام نہی تھا۔ جنگل ہی جنگل تھا۔ آبادی بہت کم اور فاصلے پر تھی اس سرزمین کا تعلق دو ریاستوں کے زیر اثر تھا مغرب میں کوشلیا راج اجودھیا سے اور مشرق میں کاشی راج بنارس سے تھا۔ درمیان میں ٹونس ندی سرحد تھی، یہاں راجا ہربنس سنگھ کی چھاؤنی تھی۔ شہراعظم گڑھ سے متصل بجانب مشرق ان کے نام سے ایک موضع ہربنس پور آباد ہے، ہربنس پور اب بھی موجود ہے۔ان کے لڑکے راجا بکرماجیت سنگھ نے اپنا قلعہ لب ساحل دریا ٹونس بنوایا تھا اورانہوں نے اپنے حقیقی بھائی رودرسنگھ کوقتل کر دیا تھا جس کی پاداش میں مغل شاہی فوج نے راجا بکرماجیت سنگھ کو گرفتار کرکے دارالسطنت دہلی لے گئی وہاں جاکر انھوں نے اسلام قبول کر لیا، دہلی سے بعد رہائی اعظم گڑھ واپس ہوئے

 اورانھوں نے ایک مسلم خاتون سے شادی کرلی۔ ان کے بطن سے دو لڑکے پیدا ہوئے ۔ بڑے لڑکے کانام اعظم خان اورچھوٹےلڑکے کا نام عظمت خان رکھا۔ چونکہ اس ضلع کو شہنشاہ اورنگ زیب علیہ الرحمة کے وقت میں راجا اعظم خان جوبعد میں اعظم شاہ کے نام سے مشہور ہوا،انہوں نے بسایا تھا، اسی وجہ سے اس کا نام اعظم گڑھ رکھاگیا،(گڑھ کے معنی قلعہ کے ہوتے ہیں)کہاجاتاہے کہ 1665ءمیں اعظم شاہ نے ٹونس ندی کے کنارے ایک قلعہ بنایا اور اس کےچاروں طرف 7/8میل کے مربع میں چہاردیواری بنوائی تھی،رفتہ رفتہ اس کے آس پاس آبادی بڑھتی گئی اور اعظم شاہ کے نام پر اس کا نام اعظم گڑھ پڑ گیا، ٹونس ندی کے کنارے پر واقع یہ ضلع اعظم گڑھ ان گنت خصوصیات کا حامل رہا ہے، اس ضلع میں زمانۂ قدیم سے صوفی سنتوں اور علماء کرام اور آزادی وطن کے متوالوں کی جائے پیدائش رہی ہے۔  تمام تفصيلات حاجی شاہ افضال اللہ قادری نے اپنی کتاب’ تاریخ اعظم گڑھ‘ میں لکھی ہے: (ديكھيےتاریخ اعظم گڑھ ص 35)اور تذكره علماء اعظم گڑھ، (ص: 26 تا 40) مصنف حضرت مولانا حبيب الرحمن اعظمی قاسمی۔

   اس سے پہلے ہندوستان میں انگریزوں کی آمد اور جنگ آزادی  کی مختصر تاریخ، نیز اعظم گڑھ ضلع کا محل وقوع بیان کیا تھا، اب اگے اعظم گڑھ کے علماء کی عملی طور پر جنگ آزادی میں شرکت اور ان قربانیوں کا مختصرا تذکرہ ہے۔اعظم گڑھ كا علاقہ سیاسی حیثیت سے ہمیشہ متحرک اور فعال رہا ہے۔ تاریخ کے ہر موڑ پر یہاں کے باشندوں نے بیدار مغزی، سیاسی بصیرت اور جرآت و بہادری کی تاریخ رقم کی ہے۔ یہ سرزمین ہر عہد میں ظلم و ناانصافی کے خلاف آہنی دیوار کا کام کرتی رہی ہے۔

1857ءمیں برطانوی سامراج کے خلاف جب پورے ملک میں علم بغاوت بلند کیا جاچکا تھا تو اسی سرزمین کے ایک سپوت مولانا پیر علی نے پٹنہ میں برطانوی حکومت کی چولیں ہلادیں اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کے جرم میں انھیں ان کے پیروکاروں کے ساتھ گنگا ندی کے کنارے پھانسی دے دی گئی۔ بابو کنور سنگھ نے افغان پناہ گزینوں اور راجپوتوں کے ساتھ مل کر 1857ء میں برطانوی حکومت کو مختلف جگہوں پر شکست دی جس میں محمد پور(اعظم گڑھ)کا علاقہ بھی شامل تھا۔ 1857 ء کے تقریباً ڈھائی سال بعد تک اعظم گڑھ سے غازی پور تک کا علاقہ برطانوی تسلط سے آزاد رہا۔ اپنی سرزمین اور وطن سے غیر معمولی محبت اور قربانی کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہوسکتی ہے۔ جرات و بہادری اور جواں مردی کا یہی خون تھا جس نے آزاد ہندستان میں برگیڈیر عثمان اور حولدار عبدالحمید کی شکل میں اپنے تازہ اور گرم لہو سے شجاعت و جواں مردی کی تاریخ  رقم کی۔ ایک محدود اندازے کے مطابق آزاد ہند فوج کے سپاہيوں میں تیس سے چالیس فیصد جوان اعظم گڑھ سے تعلق رکھتے تھے۔ اگرچہ آج ان کا کوئی نام لیوا نہیں، تاریخ میں ان کا نشان بھی نہیں ملتا؛ لیکن ان نوجوانوں کے ذہنوں میں قربانی اور سرفروشی کا جو جذبہ تھا تاریخ کے صفحات بھلے ہی گواہی نہ پیش کر سکیں لیکن وہ معاشرہ جس سے ان کا تعلق تھا وہاں آج بھی سینہ بہ سینہ ان کی قربانیاں یاد کی جاتی ہیں۔ اور ان کے بے مثال جذبے کو سلام کیا جاتا ہے۔

اسی اعظم گڑھ كی سرزمين  كے بہت سے افراد حضرت سيد احمد شهيد رحمة الله عليہ  كی جماعت مجاهدين  كے ساتھ بالا كوٹ كے جهاد ميں شريک تھے، ضلع  كے مشهور قصبہ مبارک پور سے متصل موضع املو  مجاهدين بالا كوٹ كا مركز تھا،شيخ محمد اكبر غازی املو كے رهنے والے تھے ، حضرت سيد احمد شهيد كی تحريک جهاد كے سرگرم ركن غازيوں اور مجاهدوں ميں سے تھے، سيد صاحب كی امارت وامامت ميں حدود افغانستان ميں پانچ چھ سال تک حصہ ليا، يہاں تک کہ  جب 24/ ذيقعده 1246ھ کو بالا كوٹ ميں حضرت سيد احمد اور حضرت شاه اسماعيل رحمہما اللہ كی شهادت ہوگئی تو مجاہدين كی جماعت متفرق ہوگئی، اور شيخ محمد اكبر اپنے وطن واپس آگئے، غازی محمد اكبر دو مرتبہ محاذ جنگ پر گئے اور واپس آگئے، تيسری مرتبہ جاتے هوئے پٹنہ ميں گرفتار هوئے اور ان كی گواهی كے ليے ان كے ہم وطن تين افراد وہاں گئے تب غازی صاحب كو قيد فرنگ سے رهائی ملی۔

اسی سر زمين سے شيخ الہی بخش اور شيخ جهانگير املوی كا بھی تعلق تھا جو حضرت سيد احمد شهيد كے كارواں ميں شامل تھے، حضرت مولانا ابو محمد عبد الحق املوی غازی  جنهوں نے علامہ ابن الجوزی كی مشهور كتاب " تلبيس ابليس " كا ترجمہ كيا هے جو علامہ ابو محمد عبد الحق اعظم گڑھی كے نام ونسبت سے مشهور ہيں، ان كے والد  شيخ جهانگير املوی اور يہ بھی اسی تحريک كے سرگرم ركن تھے، يہ سيد مياں نذير حسين دهلوی كے شاگردوں ميں  سے تھے، فتاوی نذيريہ ميں ان كے قلم سے لكھے هوئے بہت سے فتاوی موجود ہيں اور ان پر ابو محمد عبد الحق عفی عنہ لکھا ہوا ہے، مورخ اسلام قاضی اطہر صاحب مبارک پوری رحمہ اللہ نے تذکرہ علمائے مبارک پور میں ان فتاوی کی نشاندہی کی ہے۔

  
 شيخ محمد رجب كی شجاعت وبہادری كو كون بھلا سكتا هے جو بمہور مبارک پور سے متصل جانب مغرب  كے رهنے والے تھے انهوں نے اپنے ساتھيوں كے ساتھ مل كر 1857ء كی جنگ آزادی ميں ضلع سے انگريزی حكومت كا خاتمہ كرديا جس كی وجہ سے حكومت نے اهل بمہور كو باغی قرار دے كر ان كو لوٹا اور آگ لگائی۔اسی اعظم گڑھ میں 1857ء کے بطن سے وہ شخصیت بھی پیدا ہوئی جس کی دانش وری اور بصیرت کا اعتراف بین الاقوامی سطح پر کیا گیا۔ یہ شخصیت علامہ شبلی نعمانی کی تھی۔ علامہ نے افکار و نظریات کی سطح پر ہر طرح کے ظلم، استحصال اور ناانصافی کا مقابلہ کیا، انھوں نے پورے ملک میں تعلیمی بیداری کی روح پھونکی، سیاسی بصیرت کو عام کیا اور برطانوی استعمار کی چیرہ دستیوں، اس کے فریب اور ظلم کو دلائل و براہین سے بے وقعت ثابت کردیا۔ یہ شبلی کی سیاسی بصیرت ہی تھی کہ انھوں نے ملک کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر ظلم  و استحصال اور ناانصافی کو نہ صرف اجاگر کیا بلکہ اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اس کے خلاف نظمیں لکھیں، بیانات دیے اور بوقت ضرورت عملی اقدام بھی کیا۔ 

 اسی سرزمين سے مولانا عبد الحق اعظم گڑھی بھی تھے، جن كی پيدائش اعظم گڑھ شهر ميں هوئی، ابتدائی تعلیم مقامی طور پر حاصل کرنے کے بعد مدرسہ امینیہ دہلی گئے، حضرت مفتی كفايت الله صاحب دهلوی اور دوسرے اساتذہ سے پڑھ کر فراغت حاصل کی، تحریک آزادی میں بڑی جرات وبیباکی سے حصہ لیا، جب 1338ھ ميں ترک موالات كا فتوی شائع هوا جس پر 500/ علماء كے دستخط تھے اس پر آپ كی بھی دستخط تھی ، اس جرم ميں انهيں 6/ ماه كی سزا هوئی اور فيض آباد جيل ميں ركھا گيا ، جيل ہی ميں بيمار پڑے اور رهائی كے بعد  انتقال فرما گئے۔

 حضرت مولانا محمد عثمان خان فتح پوری جن کی ولادت 1880ء میں ہوئی، حضرت شیخ الہند کی تحریک ریشمی رومال کے بہت اہم رکن تھے۔حضرت مولانا شکر اللہ صاحب مبارک پوری سابق ناظم مدرسہ احیاء العلوم جب 1918ء میں دیوبند سے فارغ ہوکر آئے تو جنگ آزادی کی تمام تحریکوں میں سرگرم رہے اور بھر پور حصہ لیا جس کی وجہ سے قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔مولانا رشید احمد کوئریا پاری اور مولانا عبد الروف کوپاگنجی یہ بھی جنگ آزادی کے سرگرم رکن تھے۔ 1942ء ميں جب "انگريز هندوستان چھوڑو" تحريک چلی تو اعظم  گڑھ  بھی پيش پيش تھا۔ اسی طرح هندوستان كے بڑے دانشوران اكثر اعظم  گڑھ   شبلی منزل جمع هو تے اور آئنده كے ليے لائحہ عمل تيار كيا جاتا۔جس طرح ملک کے دوسرے حصوں کے مسلمان اور علماء جنگ آزادی میں شریک رہے اسی طرح اعظم گڑھ کے علماء اور مسلمان ہر طرح سے شریک رہے۔
    
    مسلمان اور علماء آزادی وطن کی لڑائی میں دوسروں کے ساتھ برابر کے شریک رہے ہیں اس کا انکار ناممکن ہے، مولانا سيد محمد میاں صاحب کی زبانی سنیے لکھتے ہیں: “البتہ اسی اغراض پرستی اور طوائف الملوکی کے دور میں تحقیق و تفتیش کی ندرت آفرینی اور تلاش و جستجو کی عجائب نوازی، ہمیں ایک جماعت سے روشناس کراتی ہے ، جس کے جذبات مقدس ، مقاصد بلند اور جس کی جدوجہد ہر قسم کے شبہ سے پاک ہے، بادشاہوں ، شاہزادوں ، نوابوں اور راجاوٴں کے متعلق بجا طور پر جاگیر شاہی کی زریں تمناوٴں کا شبہ کیا جاسکتا ہے؛ لیکن اس جماعت کا دامن ایسے تمام داغوں سے پاک ہے یہ جماعت نہ اقتدار کی، نہ حکومت و سلطنت کی آروز مند، نہ اعزاز واکرام اور اعلی خطابات کی ہوس اس کے دامنوں سے الجھی ہوئی، اس کے سامنے صرف وطن ہے، باشندگان وطن ہیں، وطن عزیز کی حفاظت، اہل وطن کی ہمدردی اور اپنے ملک کی تعمیر و ترقی ہے یہی ان کا نصب العین ہے ، اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے اس دین ومذہب کی حفاظت بھی ضروری سمجھتے ہیں، جس سے ان کے پاک نفوس میں یہ پاکیزہ جذبات پیدا کیے “ یہ علماء ہند کی جماعت ہے”وہ جماعت کہ اگر اس کے فکر سلیم اور جذبہ صادق کا اعتراف نہ کیا جائے، اور اگر تاریخی واقعات کی ترتیب اور ان کے سلسلہ میں سے اس جماعت کی سنہری زنجیر کو نکال دیا جائے تو نہ صرف یہ کہ با اخلاص اور ایثار شیوہ جماعت کے حق میں ، ناانصافی ہوگی؛ بلکہ حق یہ ہے کہ وطن عزیز کے حق میں خیانت اور ایثار و قربانی کو پوری تاریخ پر ایک بہت بڑا ظلم ہوگا، اس جماعت نے اٹھارہویں صدی کے وسط سے رفتار زمانہ کو بھانپ کر جو نظریہ مرتب کیا

 وطن عزیز کی ترقی اورکامیابی کے لیے جو تدبیریں سوچیں اور جس طرح ان پرعمل کیا وہ ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے” (علماء ہند کا شاندار ماضی :۵۷)۔پھر یہ تحریک رکی نہیں بلکہ اس نے زور پکڑنا شروع کیا اور اب علماء ہند کفن باندھ کر انگریزوں کو للکار نے لگے اور یہ ایسی جماعت تھی جس کی جفا کشی عزائم و ہمم ، صبر آزمائی ، دور اندیشی اور ایثار و قربانی نے اس دور کی تاریخ کو انقلاب آفریں بنادیا ، انھیں علماء کرام کی جلائی ہوئی مشعل کی روشنی میں ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں لڑی گئی جس میں ہندوستان کے ہر فرقے کے لوگ شامل تھے؛ لیکن یہ جنگ ناکام ہوئی اور ناکامی کی قیمت سب سے زیادہ مسلمانوں کو چکانی پڑی، تقریبا دولاکھ مسلمان شہید ہوگئے جن میں تقریبا باون ہزارعلماء تھے ان کی جائدادیں لوٹ لی گئیں،اس قدر جانی و مالی نقصان کے باوجود تحریک آزادی کا سلسلہ مختلف شکلوں میں جاری رہا اور بالآخر ہمارا ملک تمام فرقوں، بالخصوص مسلمانوں اور خاص طور سے علماء کی جہد مسلسل اور پیہم کو شش اور جانی ومالی قربانی کے بعد ۱۵/اگست ١٩٤٧ء کو آزاد ہوگیا، اور ٢٦/جنوری ١٩٥٠ء سے جمہوری ملک قرار دیا گیا اور دستور کو سیکولر دستورکا نام دیا گیا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad