تازہ ترین

اتوار، 2 اگست، 2020

!مگر غیرت کہاں گئی اہل مسلماں کی

ذوالقرنین احمد
 72کوٹی خداؤں کی پوجا کرنے والوں نے مندر کھولنے کیلے گورنر سے ملاقات کرکے 5 اگست سے مندر کھولنے کا مطالبہ کیا ہے اور یہ انتباہ بھی دیا ہے کہ مندر نہیں کھولے گئے تو گھنٹہ ناد کیا جائے گا۔ ۵ اگست کو ہندؤں کیلے تاریخی دن کہا جارہا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ تمام ہندو  ملک بھر میں ہندوں سے اپیل کر رہے ہیں کہ پورا دن مندروں میں گزارے۔ لیکن مسلم تنظیمیں اور قائدین کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔دراصل 5 اگست کے دن کو فرقہ پرست عناصر اس لیے اتنی اہمیت دے رہے ہیں کیونکہ اس دن رام مندر کا بھومی پوجن کیا جانا ہے جو مندر کی تعمیر کے افتتاح کے دن کے طور پر منایا جارہا ہے یہ صرف بابری مسجد کو شہید کر کے غیر منصفانہ فیصلہ کرکے مندر کی تعمیر کرنا نہیں ہے بلکہ ملک میں ہندو راشٹر کی بنیاد رکھنے کے مترادف ہے۔

ان کچے اور جھوٹے عقیدتمندوں کا یہ حال ہے کہ یہ ایسے حالات میں بھی جبکہ بابری مسجد کے فیصلے میں مسلمانوں کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے پھر بھی ڈنکے کے چوٹ پر خوشیا منانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اور منادر کھولنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن ملک کے‌ مسلمان  ملی تنظیمیں مذہبی سیاسی  قائدین خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ جنہیں ذرا بھی خیال نہیں کہ ملک کس طرف جارہا ہے اور مسلمانوں کے خلاف ملک کی زمین کو کس قدر تنگ کرنے کی پوری تیاری ہوچکی ہے۔  لیکن حکومت نے کورونا وائرس کا خوف دکھا کر ایک تیر سے کئی نشان کیے ہے اور وہ تیر اب نشانوں پر لگ رہے ہیں۔ مسلمانوں نے رمضان المبارک میں بھی حکومت کی گائیڈ لائن پر عمل کیا لیکن اب تمام اداروں کو سلسلہ وار گھول دیا گیا ہے حکومت پھر بھی مساجد میں اذان نماز کی اجازت نہیں دے رہی ہے۔ اس پر ملی قیادت کی خاموشی معنی خیز ہے۔ مسلسل چار پانچ ماہ سے جاری لاک ڈاؤن کی وجہ سے مساجد کو عام عوام کیلے کھولنے پر پابندی عائد ہے۔ جس کی وجہ سے مسلمان پوری آزادی کے ساتھ نماز ادا نہیں کر پارہے ہیں 5 افراد کی قید لگائی گئی ہے لاؤڈ سپیکر میں اذان دینے پر پابندی ہے۔ عبادت کرنے میں بھی لوگ خوف و ہراس میں مبتلا ہے۔ اسکے علاوہ بھی کئی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ نوجوان بزرگ ڈپریشن کا شکار ہورہے ہیں۔ کئی افرادکی کورونا اور لاک ڈاؤن کے خوف سے موت ہوگئی ہے۔ 

حکومت مادی ضروریات زندگی کی چیزوں دیگر اداروں کو کھول رہی ہے لیکن عبادتگاہوں کو نہیں کھولا گیا جیسے انسان کو زندہ رہنے کیلے کھانے پینے کی اشیاء کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح قلبی روحانی ذہنی سکون حاصل کرنے کیلے بھی اللہ کی عبادت کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں جنوں کواپنی عبادت کیلے پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کی آگے دنیا کے حکمرانوں کے قانون اور انکے فیصلے کوئی اہمیت نہیں رکھتے ہیں۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ہمیں مجبوراً تسلیم کرنا چاہیے تو یہ بات پر تو عمل کیا جاچکا ہے 4مہینوں سے مسلمانوں نے صبر کیا ہے لیکن ایک بات بھی سمجھنی چاہیے کہ اسلام کامل دین ہے ۔ دنیا کی  حکومت کے قانون اور فیصلوں سے بڑھ کر کائنات بنانے والے اللہ تعالیٰ کا حکم اور قانون ہے۔ جو تمام حالات سے باخبر ہے۔ اس لیے اب  ملی قائدین اور مسلمانوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ یہ فرقہ پرست حکومت اور عناصر کیلے ملک کے قانون اور آئین کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ لاک ڈاؤن اور کورونا وائرس سے متاثر ملک میں ایودھیا میں رام مندر کا بھومی پوجن کھلے عام کرنے کی تیاری ہے۔ اور اب منادر کو نہ کھولنے پر احتجاج کرنے کا اشارہ بھی دیا گیا ہے۔ پھر ملک کا آئین ،قانون جمہوریت کیا صرف مسلمانوں کیلے ہی ہے۔  

مسلمان اور ملی قائدین اب بھی ہوش میں آنے‌کا نام نہیں لے رہے ہیں فرقہ پرست حکومت پر بھروسہ کرکے مسلمانوں کو مزید پستیوں میں دھکیل رہے ہیں۔ ضرورت ہے کہ مسلمان اب حکومت سے مطالبہ کریں جس طرح فرقہ پرست عناصر نے مندر کھولنے کیلے گورنر سے ملاقات کی ہے۔ لیکن ملی سیاسی قیادت بھی کیا خاک قیادت ہے کہ قربانی کے جانوروں کے ٹرک کو بارڈر پر روکا گیا ہے کئی جانوروں کی موت ہوگئی اسی طرح کوئی صاف طریقہ سے عید منانے کیلے کھلی اجازت نہیں دی گئی عید کی نماز ادا کرنے کیلے بھی اجازت نہیں دی گئی۔ مہاراشٹر حکومت نے گائیڈ لائن میں علامتی طور پر قربانی کا ذکر کیا تھا جو شریعت میں مداخلت ہے۔ اللہ تعالیٰ کو قربانی کے ایام میں جانوروں کی قربانی سے زیادہ کوئی اور عمل اتنا عزیز نہیں جانوروں کا اللہ کے نام پر خون بہنا ہے۔ لیکن اس معاملے پر ملی سیاسی قیادت نے جب حکومت سے مطالبہ کیا کہ نئی گائیڈ لائن جاری کی جائے جس پر حکومت نے کان نہیں دھرا میٹنگ کے باوجود حل نہیں نکلا اور ناہی نئی گائیڈ لائن جاری کی گئی۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی ملی تنظیمیں اور قائدین  کی طرف سے کوئی خاص مداخلت نہیں کی گئی۔ جبکہ اس معاملے پر سخت ایکشن لینا چاہیے تھا۔ اگر آج ایسے ہی نظر انداز کرتے رہے تو پھر شریعت میں مداخلت ہوتی رہے گی اور مسلمان صرف شریعت میں مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی کا نعرہ لگاتے رہے گے۔ جس طرح طلاق ثلاثہ کے موقع پر مسلمانوں اور ملی قائدین نے کہا تھا۔ لیکن جس کا کوئی اثر فرقہ پرست حکومت پر نہیں ہوا۔ اور اسی اندھے اعتماد کی وجہ سے شریعت پر عمل کرنے پر حکومت پابندیاں عائد کرتی جارہی ہے۔ اب اور انتظار کیے بغیر مسلمانوں کو مذہبی آزادی پر لگائیں جارہی پابندیوں کے خلاف ایکشن لینا چاہیے۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad