تازہ ترین

جمعہ، 7 اگست، 2020

مسلم پرسنل لا بورڈ نے بابری پر اپنا ٹوئیٹ ڈیلیٹ کیا

سمیع اللہ خان
 بابری مسجد کے حوالے سے افسوسناک خبر یہ ہیکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے مسجد کی جگہ پر غاصبانہ رام مندر کے بھومی پوجن کی مناسبت سے جو ٹوئیٹ کیا تھا انگریزی میں وہ بورڈ کے آفیشل ٹوئیٹر ہینڈل سے ڈیلیٹ کردیاگیاہے، اس کے کچھ دیر بعد وہ ٹوئیٹ صرف اردو میں واپس کیاگیاہے اردو میں جنرل سیکریٹری آف بورڈ کا موقف باقی ہے البتہ دباوٴ میں آکر انگریزی والا ٹوئیٹ ڈیلیٹ کیاگیاہے بورڈ کا یہ موقف جنرل سیکریٹری مولانا ولی رحمانی صاحب کی طرف سے جاری ہوا تھا، موقف بڑا بے لاگ اور ایمانی جراتمندی کا ترجمان تھا جس میں مسجد کی واپسی کا عہد اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر سخت تنقید تھی اور بیباک تھی، مجھ سمیت کئی لوگوں نے جو بعض معاملات میں اختلاف بھی کرتیہیں ہم سب نے بورڈ کے اس موقف کا استقبال کیا، اس کی اشاعت بھی کی اور لیڈرشپ کے اس انداز کو باعزت انداز کو ہم سب نے تسلیم کیا،بورڈ کے اس موقف پر پہلی مرتبہ بڑے  برے انداز میں ہم نے سَنگھیوں اور بھاجپائی ٹولے کو بلبلاتے دیکھا، کیا نیتا کیا منتری کیا ایم ایل اے کیا آر ایس ایس ورکر سب کو اس جرات نے زبردست کچوکے لگائے سب مچل مچل کر اس پر ہنگامہ کررہی تھے لیکن آج ایک دن بعد ہی یہ موقف ٹوئیٹر آفیشل سے ڈیلیٹ کردیاگیا ہے، جیسے ہم نے پہلے اس موقف کا کھلے دل سے استقبال کیا تھا ویسے ہی یہ موقف ہٹا لینے کے بعد یہ عرض کرتیہیں کہ بورڈ نے ٹوئیٹر آفیشل سے اسے ڈیلیٹ کرکے ایک طرف یہ واضح کردیاہے کہ موجودہ ہندوستانی ظالموں ہندوتوا آر ایس ایس، اور بھاجپا کے اسلام دشمنوں سے ٹکر کی لڑائی لڑنے کے لیے مستحکم نہیں ہیں۔

 وہیں یہ ٹوئیٹ ڈیلیٹ کرنا واضح طورپر سنگھیوں کے لیے چراغاں کرنے کا سبب ہیکہ جب ہم مسلمانوں کے سب سے بڑے پلیٹ فارم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا بابری مسجد کی حمایت میں آفیشل موقف ڈیلیٹ کروا سکتے ہیں تو ایسی کمزور ترین لیڈرشپ والی قوم کا ہمارے سامنے مقابلہ ہی کیا ہے؟ آپ نے جو ٹوئیٹ دوبارہ اردو میں کیا ہے وہ اب صرف اہلِ اردو کو تھپکی دینے کے لیے ہے، انگریزی کا مرکزی ٹوئیٹ ڈیلیٹ کرکے آپ موقف کی  سابقہ حیثیت کو کھو چکے ہیں اردو میں آپ کن لوگوں کو سنا رہے رام مندر بنانے والے اردو پڑھتے ہیں؟اور انگریزی میں ڈیلیٹ کردینے کا سبب؟ انگریزی میں ڈیلیٹ اور اردو میں کرنا مطلب عام مسلمانوں کو بیوقوف بنانا!قارئین کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ بزدلی کے اس اعلی ترین مظاہرے کے پیچھے بورڈ کے سَنگھ نواز ممبر ظفریاب جیلانی کا ہاتھ ہے۔ وہ پورے دن ٹی وی پر بیٹھ کر یہ کہتے رہے کہ ٹویٹ غلط ہے اور اس کو ڈیلیٹ کردیا گیا ہوگا۔ اس کے بعد ٹائمز آف انڈیا نے بھی جیلانی کے حوالے سے خبر لگائی ہیکہ جیلانی کہتیہیں کہ بابری مسجد کے متعلق بورڈ کا دیاگیا اسٹیٹمنٹ غیرذمہ دارانہ ہے ہم اس کو واپس لے رہیہیں، جبکہ اسٹیٹمنٹ بابری پر ہر مسلمان کا یہی ہے، اگر ظفریاب جیلانی کو بورڈ کے موقف سے اتفاق نہیں تو وہ بورڈ میں کیوں ہیں؟ ظفریاب جیلانی وہ شخص ہے جس نے بابری مسجد کے کیس کو اپنی نااہلی اور سنگھ پرستی کی وجہ سے کمزور کرنے کی پوری کوشش کی۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ بورڈ کے حیدرآباد اجلاس میں ایڈووکیٹ محمود پراچہ نے جب بھرے مجمع میں ظفریاب جیلانی کی کمزوریوں کو گنانا شروع کیا۔

 تو جیلانی صاحب غصے سے بھی بپھر گئے اور مولوی عمرین محفوظ رحمانی کے ذریعہ محمود پراچہ کو خاموش کرایا گیا۔ کویتی وکیل مجبل الشریکہ کو ظفریاب جیلانی کی طرف سے جو شرمناک جواب دیا گیا اس کے پیچھے بھی یہی منطق کارفرما ہے کہ اگر عالمی سطح کے وکیل کیس سے باخبر ہوگئے تو تو جیلانی صاحب کا بھانڈا بیچ سڑک پھوٹے گا۔ لہذا جیلانی صاحب نے اپنے کرتوتوں کو چھپانے کے لئے باقی مسجد کے قضیہ کو کمزور کرنا مناسب سمجھا۔ بورڈ کی طرف سے کی جانے والی جرأت مندانہ ٹویٹ کو اس لیے ڈیلیٹ کیا گیا تاکہ جیلانی اپنے سنگھی دوستوں اور آقاؤں سے یہ کہہ سکیں کہ مسلمانوں کے حوصلے جو غلطی سے دو دن کے لیے بلند ہوگئے تھے دوبارہ دفنا دیے گئے ہیں، ٹوئیٹ پر سَنگھیوں کا غصہ پھوٹنے کے بعد ظفریاب جیلانی اور کمال فاروقی ایکٹو ہوگئے کیونکہ جیلانی کے تعلقات سَنگھیوں سے ہیں چنانچہ ہماری معلومات کے مطابق ظفریاب جیلانی نے بورڈ کے اعلیٰ سطحی عہدیداروں کے نام ڈرانے والا پیغام بھیجا کہ اس موقف کی وجہ سے سپریم کورٹ کی گستاخی کا مقدمہ ہوگا، جس میں پھر بڑے بڑے عہدیدار بھی دباؤ میں آئے جن کا نام ذکر کرنا بڑی بیادبی شمار ہوگی، بورڈ میں باتیں یہ شروع ہوئی کہ نفس موقف سے رجوع کیا جائے جس سے جنرل سیکریٹری رحمانی صاحب نے انکار کردیا کہ وہ اپنا بیان واپس نہیں لیں گے۔

 جس کے بعد یہ ہوا کہ چلو انگریزی والا ٹوئیٹ ہی ڈیلیٹ کردو یوں ٹوئیٹ ڈیلیٹ ہوا اور بورڈ کی طرف سے جیلانی صاحب حکمرانوں کی خدمت میں یہ عملی پیغام بھیج دیے کہ اب ہم آپ ہی کی دی ہوئی گائیڈلائنز کے مطابق رد عمل کریں گے کل ملا کر قوم کے سب سے مضبوط سمجھے یا کہے جانے والے بورڈ کی لیڈرشپ اپنے ہی ایک ٹوئیٹ کے ساتھ کھڑی نہیں ہوسکی، جو لوگ اس حد تک سہمے اور ڈرے ہوں وہ ہمیں کتنا سہارا دے سکتے ہیں ان پرآشوب حالات میں؟ بورڈ کا ٹوئیٹ ڈیلیٹ کروا کے ایک نئی مصیبت کو جنم دیا ہے، اب سنگھیوں کے حوصلے مزید شباب پر ہوں گے اب ان کی طرف سے آپ پر مزید دباو بنایا جائیگا جس کا بوجھ پھر سے اس مظلوم قوم کے حصے میں آئیگا بورڈ کو چاہیے کہ وہ خود اپنے موقف پر برپا ہونے والی طوفان اور اس کے بعد انہیں پیچھے کیوں ہٹنا پڑا ہے اس کی مکمل وضاحت پیش کریں اپنی حقیقی سچویشن واضح کریں، ضروری ہے کہ علی میاں ندوی قاری طیب اور منت الله رحمانی رحمھم اللہ کے بورڈ کو جن لوگوں نے اس حال کو پہنچایا ہے ان سے پردہ اٹھایا جائے کن لوگوں کی پالیسیوں سے سنگھیوں کو شعوری اور غیرشعوری طورپر بورڈ کے ذریعے فائدہ پہنچا ہے یہ اب منظر پر آناچاہیے تین طلاق کے بعد بابری مسجد کی بھی ہار،، ناکامیوں پر بے لاگ احتساب بہت ضروری ہے جبکہ اس بورڈ میں کچھ لوگ کھڑے ہوجاتے ہیں۔

 حکمرانوں کا موقف لیکر، بورڈ کے اندر موجود سَنگھی عملے کو باہر کیاجائے جنہوں نے پوری کوشش کی ہے کہ بورڈ کا وقار مجروح ہوجائے اور بورڈ اپنی موت مرجائے مجھے معلوم ہیکہ جن کے دل و دماغ ملت کے مسائل اور امت کو درپیش نازک حالات پر بھی مخصوص رجحان و میلانات کے دباو میں سمجھنے کے عادی ہوچکی ہیں وہ اس کمزوری اور بڑی غلطی کی بھی تائید اور تاویل کرینگے لیکن اگر بصیرت اور عبرت کی نگاہ سے دیکھیں تو اس میں اپنا حشر نظر آتا ہیکہ جس ملک میں ہماری قوم کی اعلیٰ سطحی قیادت کو ایک ٹوئیٹ تک ہندوتوا دشمنوں کے خلاف لکھنے کی آزادی نہ ہو اس نے ستر سالوں میں آخر حاصل کیا تو بھی کیا؟ یقینًا بورڈ میں موجود سب لوگوں نے ملکر ظالم حکمرانوں کے دباؤ کو قبول کیا تبھی یہ ڈیلیٹ کرنا پڑا ہے، لیکن عقلمندی اس میں ہی تھی کہ اگر واقعی جسارت اور جرات بچی نہیں ہے تو اس کی ڈرامائی نمائش ہی نہ کرتے یہ جہاں مسلمانوں میں کمزوری کا پیغام لے جارہا وہیں مشرکین و کفار کو بھومی پوجا کے ساتھ ایکسٹرا آفر میں گِفٹ دے رہا رام بھکت اب پوچھ رہیہیں کہ انگریزی والا کیوں ڈیلیٹ کرنا پڑا؟

اس موقف کا آفیشل سے ڈیلیٹ ہوجانا عبرت ہے عبرت یہ سمیع اللہ خان جیسے کسی معمولی شخص کا موقف ڈیلیٹ نہیں کرایا گیا ہے یہ مسلمانوں کی مرکزي قیادت کو پھٹکارا گیا ہیکہ ہمارے رام مندر اور ہندوتوا مظالم پر تمہیں بولنے کا بھی صرف اتنا ہی حق ہے جتنا ہم عطاء کردیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad