تازہ ترین

جمعرات، 6 اگست، 2020

قومی تعلیمی پالیسی: پسماندہ اور اقلیتی طبقے کو متاثر کرنے والے اہم نکات پر خاموشی اختیار کی گئی ہے۔ایس ڈی پی آئی

نئی دہلی(یو این اے نیوز 6اگست 2020)سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) کے قومی صدر ایم کے فیضی نے اپنے جاری کردہ اخباری اعلامیہ میں کہا ہے کہ کچھ دنوں پہلے قومی تعلیمی پالیسی 2020کو جدید اقدامات کے ساتھ اعلان کیا گیا ہے لیکن اس میں معاشرے کے پسماندہ اور اقلیتی طبقات کو متاثر کرنے والے کچھ اہم امور پر خاموشی اختیار کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ پالیسی میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ اس میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کی لائی جائیں گی لیکن پالیسی کو متعلقین، ریاستوں اور ماہرین تعلیم کی مناسب شمولیت کے بغیر مرکزی حکومت کی طرف سے یکطرفہ اعلان کیا گیا ہے۔ پالیسی میں موجودہ 10+2ڈھانچے کو تبدیل کرکے5+3+3+4کردیا گیا ہے، اور اس مدت کی تکمیل کے بعد طالب علم گریجویٹ ہوگا۔ پالیسی میں چھٹی جماعت سے ووکیشنل اسڈیس کو شامل کرنا، پرائمری سطح پر مادری زبان میں تعلیم، گریجویشن کیلئے سبجیکٹ کے حدود کا خاتمہ، وغیرہ کو تجویز کیا گیا ہے۔ لیکن پالیسی میں بہت سے اہم عناصر جیسے آر ٹی ای، پسماندہ اور اقلیتی طبقات کیلئے ریزرویشن وغیرہ کے بارے میں خاموشی اختیار کی گئی ہے۔

 رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ 2009(آر ٹی ای) ایک ایسا اقدام ہے جس کا مقصد چھ سے چودہ سال تک کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم کو یقینی بنانا ہے۔ ایکٹ نے اس کو بنیادی حق قرار دیا ہے۔ یہ ایک آئینی شق بھی ہے۔ یہ قانون ہندوستان کے آئین میں تجویزکردہ ڈائرکٹیو پرنسپل پر عمل در آمد کرنے کیلئے بنایا گیا تھا۔پالیسی میں تمام بچوں تک رسائی کا وعدہ کیا گیا ہے، لیکن یہ کیسے حاصل ہوگا اس پردستاویز میں وضاحت نہیں ہے۔ ملک میں کسی بھی بچے کو لازمی طور اس کے رہائش کے قریب اسکول میں داخلہ لینے کا حق حاصل ہونا چاہئے۔ اس طرح اسکول کی تعلیم لازمی، مفت اور قریبی پڑوس میں قابل رسائی ہونی چاہئے۔ بہر حال، قومی تعلیمی پالیسی معاشرے کے پسماندہ طبقے کے بچوں کو مفت تعلیم کی فراہمی کے بارے میں خاموش ہے جو آر ٹی ای کو نافذ کرکے انہیں مرکزی دھارے کے تعلیمی میدان میں لا تا ہے۔ یہ خاموشی غریب بچوں کو تعلیم کے بنیادی حق سے انکار کرنے کے مترادف ہے۔ اسی طرح تعلیمی اداروں میں ریز ویشن، معاشرے کے سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ طبقات کو مرکزی دھارے میں لانے کیلئے آئین کے معماروں کے ذریعے تصور کی گئی ایک پرو ویزن ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی ریزرویشن کے بارے میں کچھ نہیں کہتا ہے۔ آر ایس ایس ہمیشہ سے ریزرویشن کے خلاف رہا ہے اور دستاویز میں ریزویشن کے بارے میں واضح خاموشی پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کو تعلیم کے مساوی حق کے مواقع سے انکار کرنا ہے۔ 

جبکہ دستاویز میں عنقریب معدوم ہونے والے سنسکرت کو فروغ دینے کے دفعات موجود ہیں۔ اردو جو سماج میں معقول حد تک بولی جانی والی زندہ زبان ہے اس کو دستاویز میں یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے۔اردو کو نظرانداز کیا گیا تو وہ ختم ہی ہوجائے گی۔ اسی طرح، عربی جو خلیجی ممالک کی مادری زبان ہے جہاں بیشتر ہندوستانی تارک وطن کو ملازمت دی جاتی ہے۔عربی کو غیر ملکی زبان کی پڑھائی کی فہرست سے خارج کیا گیا ہے جبکہ کوریائی اور تھائی زبانوں کو اس فہرست میں جگہ مل گئی ہے۔ پالسی میں خواتین کے متعلق مطالعہ یا صنفی علوم، ثقافتی علوم، میڈیا اسٹڈیز، دلت اور قبائلی علوم، اقلیتی علوم، امتیازی سلوک اور اخراج کے مطالعے، ماحولیاتی علوم اور ترقیاتی علوم جیسے شعبوں کا احاطہ نہیں کیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ تعلیم آئین کے کنکرنٹ لسٹ کے تحت ایک آئٹم ہونے کے ناطے، ریاستوں کو پالیسی سازی میں حصہ لینے کا موقع فراہم کرنا چاہئے تھا۔ جو اس معاملے میں صحیح طور پر نہیں ہوا ہے۔ یہ ریاستوں کے حق اور وفاق کے اصول پر حملہ ہے۔ بہت ساری ریاستوں نے شکایت کی ہے کہ این ای پی کے مسودے سے متعلق ان کی تجاویز پر بالکل غور نہیں کیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ میں اس پر بحث کئے بغیر وبائی مرض کے بیج آنے والی نسلوں کو متاثر کرنے والی ایسی اہم پالیسی کو نافذ کرنے میں جلد بازی کرنا کسی کو یہ سوچنے پر مجبور کررہا ہے کہ اس میں کچھ گڑ بڑ ہے۔ ایس ڈی پی آئی قومی صدر ایم کے فیضی نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ قومی تعلیمی پالیسی پر عمل در آمد کرنے سے پہلے ملک گیر مباحثوں کے علاوہ پارلیمنٹ میں بھی مباحثہ کیا جائے۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad