تازہ ترین

جمعہ، 18 ستمبر، 2020

بٹلہ ہائوس فرضی انکائونٹر ! آخر انصاف ملے گا کب ؟

                مکرمی ! 

اشرف اصلاحی راشٹریہ علماء کونسل
19 ستمبر 2008 کو دہلی کے جامعہ نگر علاقہ کے بٹلہ ہاؤس L18 میں دہلی کی کانگریس پولس نے اعلی تعلیم حاصل کر رہے اعظم گڑھ کے دو بے قصور نوجوان کو شہید کردیا تھا اور کئ نوجوانوں کو گرفتار کر جیل کی سلاخوں میں بند کرنے کے ساتھ ساتھ درجنوں کو فرار دکھایا تھا۔ جس کو ہر ذی عقل فرضی جانتا ہے اور ہمیشہ فرضی گردانتا رہے گا۔ پچھلے 12 سالوں سے اہل خانہ و سماجی سیاسی جماعتیں بٹلہ ہاوس فرضی انکاونٹر کی جانچ اور انصاف کے لئے برابر آواز بلند کر رہی ہیں مگر افسوس ! آپ کو بتا دیں کہ رمضان کا مہینہ تھا۔ عید قریب تھی، بازاروں میں عید کی خریداریاں زوروں پر ہو رہی تھیں، ہر طرف خوڈی ہی خوشی تھی۔مگرکسی کو کیا پتا تھا کہ جس چیز کی ہم تیاری کر رہے ہیں کچھ ہی پلوں میں سب دھری کے دھری رہ جائیگی۔ اعظم گڑھ میں میڈیا کے توسط سے یہ خبر آگ کی طرح پھیلتی ہے کہ دہلی میں سنجر پور کے دو نوجوان دہشتگردی کے الزام میں شہید کر دیئے گئے ہیں۔ پھر کیا تھا ہر طرف ماتم ہی ماتم نظر آنے لگا۔ سنجر پور و آس پاس کے علاقوں میں خفیہ ایجنسیوں و پولس کی گاڑیاں نظر آنیں لگیں،ہر طرف جوتوں کی ٹاپ کے ساتھ ساتھ سائرن بجاتی پولس کی گاڑیاں سنائ دیتی، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا ہجوم نظر آتا اور تسلی دینے والوں کا جم غفیر نظر آتا۔ ہمارے دلوں میں ایک عجیب ڈر و خوف کا عالم ایسا پیدا ہوا تھا کہ بیان کر پانا مشکل ہے۔ وہ منظر یاد آتا ہے تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ہر طرف خاموشی ہی خاموشی تھی۔ عصر سے پہلے بازاریں سڑکیں و گاؤں ویران ہو جاتے۔ مدرسوں سے لیکر کالج و ہاسٹلوں میں باہر نا نکلنے کا اعلان ہونے لگا۔ ہر کوئ سنجر پور کو اپنا کہنے سے ڈرتا تھا۔ تمام مسلم لیڈران،ملی جماعتیں و مسیحائی کا دم بھرنے والےخاموش رہے۔ کسی نے بھی مدد کرنے اسکے خلاف آواز بلند کرنے یا سنجر پور کے دکھ درد کو اعلی لیڈران و حکومت تک پہونچانے کی ہمت نہیں کی۔ جبکہ اس وقت مرکز و صوبہ دلی میں کانگریس کی سرکار تھی۔ کانگریس کو مسلمانوں کے مسیحا ملائم سنگھ، مایاوتی، لالو پرساد یادو، اسد الدین اویسی، اجمل ایوب سمیت سلمان خورشید، غلام نبی آزاد، ابو عاصم اعظمی، اعظم خان، نسیم الدین صدیقی وغیرہ اپنی حمایت دے رہے تھے مگر کسی نے کانگریس سے اپنی حمایت واپس نہیں لیا اور نہ ہی راجیہ سبھا و لوک سبھا سے استعفی دیا کہ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کی جانچ کرائ جائے ورنہ ہم اپنی حمایت واپس لیتے ہیں اگر ایسا ہوتا تو کانگریس اپنی سرکار گرنے کے ڈر سے ضرور جانچ کراتی مگر افسوس ان کی خاموشی کا نتیجہ یہ رہا کہ آج تک اعظم گڑھ و مسلمانوں پر آتنکواد کا دھبہ لگا ہوا ہے۔


اسی بیچ پورے اعظم گڑھ کو دہشت گردی کی نرسری و آتنک گڑھ سے مشہور کردیا گیا۔ اعظم گڑھ کے باشندہ ہونے کی وجہ سے دوسری جگہ تعلیم حاصل کر رہے طلبہ و سروس کر رہے لوگوں کو فلیٹ و ہاسٹل سے نکالا جانے لگا اور انہیں کرائے کا مکان ملنا دور رشتہ دار بھی پناہ دینے سے گریز کرنے لگےتھے۔ ( یہی نہیں آج بھی اعظم گڑھ کے نام پر شہروں میں فلیٹ دینے سے لوگ ڈرتے ہیں اور اس سے لوگوں کو کافی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہےتعلیم حاصل کرنے کے دوران راقم الحروف کے ساتھ خود ایسا ہوا کہ درجنوں سوالات و آئ ڈی کے بعد بمشکل فلیٹ ملا )۔ پھر اعظم گڑھ کے درجنوں نوجوانوں کی لسٹ بنا کر گرفتار کیا جانے لگا۔اس کے پیچھے حکومت و خفیہ ایجینسیوں کا اصل مقصد صرف یہ تھا کہ مسلمانوں کو تعلیمی سماجی معاشی ہر سطح پر کمزور کیا جائے۔

 مگر اعظم گڑھ کے علمائے کرام و دانشوران نے بہت غور و فکر کیا۔ بچو کے مستقبل و اعظم گڑھ کی عزت کی بقا کے لئے ہر قربانی دینے کو تیار ہوئے اور مولانا عامر رشادی و مولانا طاہر مدنی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس ظلم کے خلاف "علماء کونسل اترپردیش"  نامی ایک تنظیم بنائ جو آج راشٹریہ علماء کونسل کے نام سے ملک کے گوشہ گوشہ میں موجود ہے۔اس تنظیم نے ایک جم غفیر کے ساتھ پوری ٹرین بھر کر دہلی و لکھنئو میں اس کے خلاف احتجاج کیا۔ ہندوستانی تاریخ میں ایسا پر ہجوم و پرجوش احتجاج پہلی دفعہ کسی نے کیا تھا۔ اس وقت دہلی و مرکز دونوں جگہ کانگریس کی حکومت تھی۔ اس لئے کانگریس کے خلاف ہر طرف سے کھینچا تانی ہونے لگی جو کی جائز بھی تھا۔سب نے ایک آواز میں لبیک کہتے ہوئے انصاف کی بھیک مانگی۔ اور کہا کہ یہ انکاؤنٹر فرضی ہے ہمارے بچے آتنکوادی نہیں۔ ضلع اعظم گڑھ علمائےکرام، دانشوروں، ادیبوں، شاعروں اور انصاف پسندوں کا ضلع ہے نہ کہ دہشتگردوں کا۔ مگر افسوس آج تک انصاف نہ مل سکا۔ اسوقت کے وزیر داخلہ پی چدمبرم نے جانچ کرانے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ اس سے پولس کا منوبل ڈاؤن ہوگا وقت نے کروٹ لیا اور جنکی عزت کا انہیں فکر تھی اسی پولس نے پی جدمبرم صاحب کا منوبل ڈاؤن کر پچھلے سال جیل کی سلاخوں میں ڈال دیا۔ یہ بات سچ ہے کہ اللہ کے یہاں دیر ہے مگر اندھیر نہیں۔ 

جبکہ آئین کی دفعہ 176 کے تحت کسی بھی پولس مدبھیڑ کی جانچ کسی دوسری ایجینسیوں سے کرائ جا سکتی ہے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی چینخ چینخ کر کہہ رہی ہے کہ انکاؤنٹر فرضی ہے۔ گولی سر کے اوپری حصہ میں لگی ہے جب کی انکائونٹر میں گولی سامنے یا پیچھے لگے گی۔ آخر ہمیں انصاف ملے گا کب ؟ اس فرضی انکاونٹر سے پردہ کب اٹھے گا؟ کب ہوگی اس فرضی انکائونٹر کی جانچ ؟

آج اس سانحہ کو ہوئے 12 سال ہو رہے ہیں۔اہل خانہ کے آنسو خشک ہو چکے ہیں۔کچھ تو ہار مان چکے ہیں ۔مگر یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ہمیشہ جیت حق و سچائ کی ہوتی ہے۔ ہمیں ناامید ہوکر بیٹھنا نہیں چاہئے۔قران کی ایک آیت ہے جس کا ترجمہ ہے کہ نا امیدی کفر ہے۔اس لئے اس کے خلاف ہمیشہ اواز بلند کرتے رہیں جو ہمارا آئینی حق بھی ہے۔ پچھلے سال اس فرضی انکاؤنٹر پر ایک فلم بنائ گئ جس میں دونوں شہید نوجوانوں کو دہشتگرد دکھایا گیا و اعظم گڑھ کو آتنک گڑھ بتایا گیا ہے۔ راشٹریہ علماء کونسل نے اس فلم کی مخالفت کی اور دلی ہائ کورٹ میں اپیل دائر کر روک لگانے کا مطالبہ کیا مگر سنگھی سرکار اور کورٹ نے فورا ایکشن نہ لیکر مقدمہ کو آگے کی تاریخ دے دی اور فلم کو ریلیز کرادیا۔

2013 کے دلی عام انتخاب میں موجودہ وزیر اعلی اروند کیجریوال نے وعدہ کیا تھا کہ اگر حکومت بنتی ہے تو بٹلہ ہاؤس فرضى انکاؤنٹر کی ایس آئ آٹی بنا کر جانچ کروائیں گے مگر 2 دفعہ حکومت بننے کے بعد جانچ نہیں کروائ، وہیں پچھلے سال 84 کے سکھ دنگوں کے لئے ایس آئ ٹی بنا دی ہے جس کا وعدہ تک نہیں کیا تھا ۔اروند کیجریوال جی دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ ایسا دو رکھا پن کیوں؟ مسلمانوں سے اتنی نفرت کیوں؟ اس انکاؤنٹر کی جتنی زمہ دار کانگریس ہے اتنا ہی کیجریوال اور اس کی سرکار ہے۔اس لئے کیجریوال کے خلاف بھی احتجاج ہونا لازمی ہے کہ وہ اپنا کیا ہوا وعدہ پورا کریں۔ 19 ستمبر کو بٹلہ ہاؤس فرضی انکائونٹر کی 12 ویں برسی ہے۔ راشٹریہ علماء کونسل ہر سال دلی سمیت ملک بھر میں احتجاج کرتی ہے مگر کورونا کی وجہ سے  اس دفعہ کونسل نے دہلی کے ساتھ ممبئ،مدھیہ پردیش،بہار، آسام،راجستھان،تملناڈو،اترپردیش سمیت ملک بھر میں ضلع ضلع احتجاج کرنے کا اعلان کیا ہے اس موقعہ پر ہمیں چاہیئے کہ ہم اس کا ساتھ دیتے ہوئے اس فرضی انکائونٹر کے خلاف احتجاج کریں ۔اور یہ احتجاج اس وقت تک جاری رکھیں جب تک ہمیں انصاف نہ ملے،ہم پر اور ہمارے اوپر لگے آتنکواد کا داغ مٹ نہ جائے۔آج مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہے ۔سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نعرہ کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے موجودہ جج کی نگرانی میں اس انکائونٹر کی جانچ ہو جس میں اعظم گڑھ کے دو نوجوان عاطف امین اور محمد ساجد کے ساتھ ساتھ پولس انسپکٹر ایم سی شرما بھی شہید ہوئے ہیں اور درجنوں گرفتار کئے گئے ہیں۔تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو اور ہمیں انصاف ملے۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad