تازہ ترین

منگل، 22 ستمبر، 2020

مسلمانوں کا آپسی جنگوجدال/کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں:؟

 سمیع اللہ خان

" سعد کاندھلوی کتا ہے، رابع اندھا ہوگیاہے، رومال اوڑھ کر رابع مولوی حمایت کر رہا ہے لالچ میں اسکی لونڈی کا رشتہ ہونا ہے اس کے لونڈے سے اس لیے دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ بھول گیا، سعد کاندھلوی خبیث ہے، سعد کاندھلوی کے پاس تو اربوں روپیا نکلا، کاندھلہ خاندان سارا کاروبار سنبھالتا ہے، تبلیغ تو سعد کاندھلوی کے باپ دادا نے بھی نہیں کی، یہ تو خوبرو خوبصورت لونڈے کمسن پندرہ سال بیس سال کے سترہ سال کے گوری گوری ٹانگ اور گوری گوری مقعد کے گال لال سفید چکنے چکنے ان کے ساتھ یہ لوگ جماعت میں لے جا کر زناخوری کرتے خوبصورت لونڈوں سے پیر دبواتے سر کی مالش اس کے بعد کمرہ بند کرکے ننگا کر کے………… الخ رابع مولوی میں امیر پرستی ہے، وہ حق بات نہیں کہہ سکتے وہ حق بات کہنے کی ہمت نہیں رکھتے چاپلوسی ان کا شیوہ ہے آجکل، سعدیانی فرقہ کی تبلیغ ہورہی ہے کاندھلہ والے اکابر کی تبلیغ ہو رہی ہے "


 

 یہ چند اقتباسات ہیں ایک مضمون سے جسے پڑھ کر آپ یقینًا شرمندہ ہوں گے اسی شرمندگی نے مجھے یہ مکمل مضمون نقل کرنے سے روکا ہے اور ایسے کئی مضامین ہیں جو گزشتہ کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں آپ کے سامنے نمونہ پیش ہے تاکہ اخلاقی سطح کا اندازہ لگا لیجیے، تبلیغی جماعت میں اختلافات کے وقت سے ہی اور دو دھڑے ہوجانے کیبعد سے ہی یہ سب چل رہا ہے گزشتہ دنوں مولانا رابع حسنی ندوی صاحب مدظلہ نے ایک خط لکھ کر مولانا سعد کاندھلوی صاحب کو کچھ نصیحت فرمائی تھی کہ موجودہ حالات میں تبلیغی جماعت کے اجتماعات کو کیسے محفوظ انداز میں کرنا چاہیے اس خط میں دراصل مولانا رابع حسنی ندوی صاحب نے مولانا سعد کاندھلوی کو تہذیب و شرافت کے دائرے میں مخاطب کیا ہے یہ سبب ہوا ہے کچھ لوگوں کے غصہ ہوجانے کا چنانچہ مولانا رابع حسنی ندوی صاحب جوکہ اس وقت ہندوستان میں قدآور بزرگ اور مسلمانوں کے دینی رہنما ہیں علاوہ ازیں پرسنل لا بورڈ کے صدر اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کے ناظم بھی ہیں تبلیغی جماعت کے نزاعی قضیے میں وہ شروع سے ہی بظاہر مولانا سعد کاندھلوی صاحب کو جماعت سے جوڑے رکھنے کی کوشش کررہی ہیں  


 تبلیغی جماعت میں جو کچھ اختلافات واقع ہوئے ہیں اس سے ہمیں سردست کوئی سروکار نہیں ہے، ناہی ہم مولانا سعد صاحب کی حمایت کرتے ہیں البته ان کے کئی خیالات سے ہمیں اتفاق  نہیں ہے، ہمارے نزدیک شیخ ابراہیم دیولا صاحب مولانا سعد کاندھلوی اور مولانا احمد لاٹ سمیت تمام اکابرِ تبلیغ یکساں محترم و مؤقر ہیں، اور ہمارا یہ مضمون محض اختلافات کے درمیان آپسی ایمانی اخوت اور اہلِ حل و عقد کے احترام سے متعلق ہے، جسے ہمارے زمانے میں شدید نقصان پہنچ رہا ہے

 درج بالا سطور جس میں ایک فاضلِ مدرسہ نے جو کہ مولانا سعد کاندھلوی کا مخالف ہے اس نے مولانا رابع حسنی ندوی صاحب جیسی بزرگ ہستی پر بدزبانی اور مغلظات اسلیے بکی ہیں کہ حضرت رابع صاحب نے مولانا سعد کاندھلوی کو احترام سے مخاطب کیا، اور سعد کاندھلوی صاحب کے خلاف اختلاف اب مخالفت اور افسوسناک عناد کی شکل اختیار کرچکاہے، کچھ ایسا ہی حال مولانا سعد کاندھلوی صاحب کے غالی حامیوں کا بھی ہے جو کئی جگہ زیادتی کے مرتکب ہوچکیہیں یہی سب کچھ سعد کاندھلوی صاحب سے اختلاف کرنے والے ان کے خلاف بھی کررہیہیں یقیناﹰ ایسا کرنے والے خود سے غلطی کررہیہیں 

 یہاں لمحہء فکریہ یہ ہیکہ کیا ہمارے اکابرین و بزرگوں کے حامیوں اور مخالفوں نے جو یہ طرزعمل اختیار کیا ہوا ہے اسے یونہی روا رکھا جائیگا؟ کیا اب بھی یہ سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں ہورہی ہیکہ گزشتہ کچھ سالوں سے ہمارے مدارس سے جو فضلاء نکلے ہیں وہ اسلام کی بنیادی اور عام مومنین سے مطلوبہ صفت " رحماء بینھم " سے بالکل عاری ہیں؟ اختلاف کو جنگ و جدال میں بدلنے اور بازار کے اوباشوں کو شرمسار کردینے والے انداز میں ایکدوسرے کی تردید کرنے کا یہ انداز ہمارے فضلاء مدارس کہاں سے لے رہی ہیں؟


 ان کے ہاتھوں میں ہتھیار آجائیں تو نصف آبادی یہ انتہاپسند لوگ ہی صاف کر دینگے آر۔ایس۔ایس اور ہندوتوا لشکر کو زحمت کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی، آپ یہ مضمون پڑھ کر ناک بھوں چڑھانا چاہیں تو مجھے دس گالیاں دے دیجیے لیکن آپ اپنی حقیقت نہیں بدل سکتے یہ ہماری معاشرت کی خطرناک حقیقت ہے میں اسے آپکو دکھا رہا ہوں یہ حقیقت آپ کی تاریخ بن رہی ہے مسلکی متشدد لڑائیوں کا رونا کیا روئیں جو لوگ خود کو امت مسلمہ کا سرپرست بڑا بھائی اہلسنت والجماعت کہتے ہیں ان کی کیسی حالت ہوگئی ہے کیا آپ اس سے نظریں چرا سکتیہیں؟ کتنے ٹکڑے ہوچکیہیں کیا آپکو اندازہ نہیں؟ جمعیت کے اختلافات، مدارس کی نسبتوں پر آپسی تفاخر کے جھگڑے، ہر دس قدم پر ایک قائد ملت، ہر دس مسلمان کے ایک حضرتِ اقدس،ادارے، جماعتیں، تنظیمیں، شخصیات کی بھرمار اور ان میں رقابت، تحاسد، اور ہر ایک خود کو بالادست ثابت کرنے کی ہوڑ میں، کیا کیا نہیں ہورہاہے اور انہی خرابیوں کی وجہ سے ہم کس پستی میں پہنچ چکے ہیں دشمنوں کے مقابلے میں کتنے بے اثر اور بے وقعت رہ گئے ہیں کیا آپ اس جگ ظاہر حقیقت کو جھٹلانے کی ہمت رکھتی ہیں؟ 


ایسا نہیں کہ یہ جھگڑے اور یہ آپسی گندگی دیگر طبقات میں نہیں ہے… بلکہ سیاسی سماجی دنیاوی دانشور شعبوں کے پروفیشنلز میں یہ خرابیاں مزید کئی گنا ہیں، لیکن ان سب کے اصلاحی ذمہ دار کون ہیں؟ اخلاقی اور دینی تہذیبی باگ ڈور کن کے ہاتھوں میں دی گئی ہے؟ تو جب وہی طبقہ بگڑ کر ایسی بدترین حالت میں پہنچ جائے کہ سفید پوش اہل جبہ و دستار گروہ در گروہ ہوکر اپنے اپنے حمایتیوں کے ساتھ اپنی انا کی جنگ سڑکوں بازاروں اور سوشل میڈیا کے اڈوں پر لڑرہے ہیں، مولویوں کی آپسی لڑائی اور اپنے اپنے حضرت و شیخ اپنے مسلک و مشرب اور اپنے اپنے ادارے کو سپورٹ کرنے یا اپنے مخالف کی تردید کرنے کے لیے کونسی زبان استعمال کرتیہیں وہ اب پوری دنیا دیکھتی ہے،تو پھر دوسروں کی اصلاح کرے کون؟ 

آپ لوگوں نے ایکدوسرے کیخلاف پگڑیاں اچھالنے کے لیے ایکدوسرے کے راز اور ذاتی کمزوریوں کو اُچھالا اور کیسے کیسے ایکدوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ننگا کرتے ہیں گالیاں بہو بیٹیوں کی طرف منسوب واقعات، مالی غبن، بیرونی ملک سے چندے لانے، اور نجانے کیسی کیسی راز کی باتیں جو حکومتیں آپ لوگوں کے خلاف تلاش کرتی رہیں وہ آپ نے خود public domain میں پھیلا رکھی ہیں ایکدوسرے کے خلاف، ہر بڑے مولانا کے حامی، ہر بڑے حضرت کے مرید، ہر بڑی تنظیم کے سپورٹر اپنے سے مخالف لوگوں پر ایسے ٹوٹتے ہیں کہ گویا جان سے مار کر دم لیں گے، 

 مولانا محمود مدنی سے اختلاف ہوا تو ان کی مستورات کے خلاف پوسٹیں چلائی گئیں 

 مفتی ابوالقاسم نعمانی کے خلاف  بدزبانی کی گئی 

سعد کاندھلوی صاحب کے خلاف ان کے مخالفوں نے زنا لواطت اور بدکاری کے الزامات پورے سوشل میڈیا میں بھر دیے اس طرح کے ہم شرم سے پانی پانی ہوجائیں 

سلمان حسینی صاحب کے خلاف اختلاف کرتے کرتے ان کے اہلخانہ اور پرسنل ادارہ جاتی چیزوں کو سڑکوں پر اچھالنے کی کوشش ہوئی 

مولانا ارشد مدنی صاحب سے اختلاف ہوا تو ان کو ایودھیاوی غنڈہ لکھنے لگے 

مولانا طارق جمیل صاحب، مفتی طارق مسعود کے خلاف ان کے مخالفین نے کیسی بیشرمی پھیلا رکھی ہے 

 اب دیکھیے مولانا رابع حسنی ندوی صاحب کو چاپلوس مفاد پرست اور کیا کچھ گھٹیا نہیں کہہ دیا 


میں بزرگوں سے اپیل کرتاہوں کہ الله کے واسطے اس مشتعل مزاج انا پرستی میں ملوث جھگڑالو بھیڑ کو روکیے، یہ بھیڑ جو ہر ایک بڑے  کے ساتھ لگی ہوئی ہے وہ کسی کی بھی خیرخواہ نہیں وہ اسلام کی روح کچل رہیہیں وہ الله کی سنت روند رہیہیں وہ مسلمانوں کو ایسی خانہ جنگی کی طرف لے جارہی ہیں جہاں پہنچ کر وہ ایکدوسرے سے پناہ لینے کے لیے پھر اسلام دشمن باطل ظالم طاغوت کا سہارا لینے پر مجبور ہوں گے، ہر بڑے اور چھوٹے آدمی کے راز ہوتے ہیں آپسی اختلافات کے سبب آج اگر آپ کسی کے خلاف اس کردارکشی بدتہذیبی اور ٹرولنگ کو برداشت کرتے ہیں تو یاد رکھیے یہی بھیڑ کل آپکو بھی نوچے گی اور سوشل میڈیا میں ننگا کرے گی یہ انتہاپسند بھیڑ ہے جس نے کہیں نہ کہیں سے یہ بازاری پن سیکھ لیا ہے اب یہ ناسور بن رہیہیں یہ کسی کے بھی حق میں نہیں ہیں، یہ علماء نہیں ہیں ان کے نام پر داغ ہیں لیکن ان کے ہنگامے جھگڑے اور گروہ بندیاں عوام میں پھیل رہی ہیں ایسے عناصر کے خلاف بولنا اور ان کے مزاج کو پنپنے سے روکنا بیحد ناگزیر ہے ورنہ مسلم سوسائٹی تنوع اور مختلف خیالات کی بنا پر متصادم رہیگی 


مختلف گروہوں میں منقسم، ہر جماعت، ہر ادارے ہر شخصیت پر یہ فرض ہورہاہے کہ وہ لوگ اگر دیگر کاز کے ليے متحد نہیں ہوتے ہیں تو کم از کم اپنی عزت اپنا احترام اپنا وقار بچائے رکھنے کے ليے ہی ایک ساتھ آئیں اور ملک کی ہر ریاست میں ایک ایک اجلاس صرف اور صرف اختلاف بین المسلمین میں آپسی احترام اور عزت سکھانے کے لیے منعقد کریں، اختلافات اور سخت ترین اختلافات میں بھی ایکدوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور بیعزتی کرنے والی روایات کو غلط کریں اختلاف کرنے کا نبوی اسلوب عام کیجیے مشتعل غصہ آور بھیڑ کو تحمل اور بردباری سکھانے آئیے، آپ اگر آج اس کو محسوس نہیں کرتے تو کل آپ لوگ باہر نکلتے وقت اسلئے خفت محسوس کرینگے کہ میرا فلاں راز اور میرے خلاف اتنا گھٹیا الزام public domain میں وائرل ہوچکاہے آپ لوگ ہندوستان میں مسلمانوں کے وجود پر لٹکتی ہندوتوائی تلوار کا احساس نہیں کررہے آپ کو ہندوراشٹر کی غلامی کی طرف دھکیلا جارہاہے ہندوستانی پارلیمنٹ پر مودی امیت شاہ جیسے ظالم مسلط ہیں استعماری سرگرمیاں تیز تر ہیں ہندوستان فاشسٹ ریاست بن رہا ہے، عالم اسلام ٹوٹ پھوٹ گیا مسجد اقصیٰ کا تحفظ داؤ پر ہے، ظالموں کے خلاف لڑنے والے مجاہدین دہشتگردوں میں شمار ہورہیہیں، عالم اسلام اپنی کروٹ لینے کے لیے تیار ہے، خلافتِ اسلامیہ کے زوال کو صدی ہورہی ہے، ملک و ملت کے کیا تقاضے ہیں آپ نے ان پر کان نہیں دھرنا ہے تو مت دھرو لیکن اپنی عزت تو مت اچھالتے پھرو سڑکوں پر، پھر کس منہ سے علماء کے وقار کی دہائی دیتے ہو آپ، آپ تو خود ہی اپنی برادری کے وقار کو کچل رہے ہو جس توانائی کو دشمن کے خلاف لڑائی میں استعمال ہونا تھا جنہیں قومی ترقیاتی مراحل میں لگنا تھا وہ تو آپسی بالادستی کی جنگ میں خرچ ہورہی ہے ایسے میں حریت پسند ترقی پسند نسل کہاں سے آئے میں بار بار طے کرتاہوں کہ ایسی  چیزوں پر نہیں لکھوں گا کیونکہ ہر بار یہ بھیڑ مجھے بھی گالیوں اور بہتانوں کے راڈار پر رکھ لیتی ہے لیکن کیا کروں؟ یہ پستی یہ زوال یہ آگ و خون کی طرف سرپٹ دوڑتی صورتحال دیکھی نہیں جاتی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad