تازہ ترین

جمعہ، 11 ستمبر، 2020

مسلمانوں کی ماب لنچنگ کا سلسلہ آخر کب بند ہوگا؟

 تحریر:سرفرازاحمد قاسمی(حیدرآباد)برائے رابطہ: 8099695186  ہمارا ملک بھارت جس تیزرفتاری کے ساتھ نفرت وعداوت،بیروزگاری،بھکمری،لاقانونیت،تاناشاہی شدت پسندی،بیاطمینانی اورخوف وہراس کی  جانب  بڑھ رہاہے،یہ انتہائی افسوس ناک ہے،ایسا لگتاہے کہ پورے ملک میں ہرجگہ فضاء میں زہرگھول دیاگیاہے،مجوعی طور پرہرشخص یہاں خوف ودہشت کی فضاء میں سانس لے رہاہے،حالات دن بہ اتنے مایوس کن ہوتے جارہے ہیں کہ آپ کے ساتھ کب کیاہوجائے کچھ 
کہا نہیں جاسکتا،کورونا کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہورہاہے
fa/pi


،ہرجانب افراتفری ہے،اور حکومت ہے کہ پراسرار خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے،نہ انھیں لوگوں کی فلاح وبہبود کی فکر ہے اورنہ ہی لوگوں کے جان ومال کی،موجودہ حکومت  جب سے اقتدار میں آئی ہے،ملک کو لوٹنے اور کنگال کرنے کاسلسہ جاری ہے،چھ سال کے عرصے میں ملک میں کوئی ترقی تونہیں ہوئی لیکن برباد اورتباہ کرنے کاکھیل برابر ہورہاہے،
ملک میں رہنے والے 20کروڑ مسلمانوں کیلئے زمینیں تنگ کی جارہی ہیں، اس میں ایک طرف حکومت پیش پیش ہے اوردوسری جانب اکثریتی مذہب سیتعلق رکھنے کچھ شدت پسند دہشت گردہیں، جوغریب اور بے قصور مسلمانوں کو ایک منصوبے کے تحت مختلف بہانوں کے ذریعے نشانہ بناتے ہیں اور پھر وہ مظلوم اپنی جان ومال سے ہاتھ دھوبیٹھتاہے،2014 کے بعد سے اگر آپ ملکی حالات کا سرسری جائزہ لیں گے تو یہ بات بہت آسانی سے آپ کو معلوم ہوجائے گی کہ خاص طور پر مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور انھیں خوفزدہ  کرنے کیلئے نئے نئے ہتھکنڈے اپنائے گئے


،کبھی گھر واپسی، کبھی لوجہاد اور کبھی سی اے اے اور این آرسی کے ذریعے انھیں خوف ودہشت میں مبتلا کیاگیا تو کبھی ماب لنچنگ کا سلسلہ شروع کیاگیا،اس ہجومی دہشت گردی کاسب سے پہلا شکار،دادری کا محمداخلاق ہواتھا،جنکو اسلئے نشانہ بنایا گیاتھاکہانکے فریزر میں گائے کاگوشت تھا،یہ جھوٹا الزام لگاکر ایک ہجوم نے انکا قتل کردیا تھا،اورجب سے یہ سلسہ جاری ہے،ایک رپورٹ کے مطابق ابتک تقریباً 250 لوگ اس لنچنگ اور ہجومی دہشت گردی کا شکارہوچکے ہیں،لیکن ایسامحسوس ہوتاہے قانون بے بس ہے اور وہ اسطرح کے سماجی مجرم کو سزا دینے سیقاصرہے،حالت اتنی خراب ہوچکی ہے کہ اگرآپ کسی راستے میں چل رہے ہیں تو اسکی کوئی گارنٹی نہیں کہ آپ ہرحال میں منزل مقصود تک پہونچ جائیں گے،اگرآپ مسلمان ہیں تو کبھی بھی اور کسی بھی وقت آپ پر کوئی جھوٹا الزام لگا کر آپ کو لنچنگ کا شکار بنالیا جائیگا،اور آپ اپنی جان گنوا بیٹھیں گے،کوئی پولس اور کوئی قانون مجرموں کا،درندوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی،اگر ملک میں قانون اپنا کام کرتاتو لنچنگ کا سلسلہ کب کاختم ہوگیا ہوتا،


 اور غریب،معصوم ومظلوموں کو اپنی جان نہ گنوانی پڑتی،لیکن سوال یہ ہے کہ اس کی روک تھام کیلئے اب تک کیاکیا گیا؟مسلم ووٹ پرعیش کرنے والے لیڈران آخر کیوں اس سلسلیمیں آواز نہیں اٹھا رہیہیں؟کیا اسی طرح حیوانیت کامظاہرہ کیاجاتا رہیگا؟ ملک کی مختلف ریاستوں میں اس طرح کی عفریت جاری ہے،تازہ معاملہ یوپی کے بریلی میں چار پانچ دن قبل پیش آیا،اخباری رپورٹ کے مطابق بریلی میں 32 سالہ مسلم نوجوان باسط علی کو انتہاء پسندوں کیایک ہجوم نے چوری کے شک میں بری طرح زدو کوب کیا،ان پرلوہا چوری کرنے کا جھوٹا الزام عائد کرکے، ہندو شدت پسندوں نے کئی گھنٹے تک اسے درخت سے باندھ کر رکھا اور جم کر اسکی پٹائی کی،وہ کہیں جارہا تھاکہ اس پر چوکیدار کی نظر پڑگئی


،اوراس نے اسے چور سمجھ کر شور مچادیا،جسکی وجہ سے ایک ہجوم  جمع ہوگیا اوراسکے ساتھ بری طرح مارپیٹ کی گئی،اسکی اطلاع جب پولس کو ملی اور پولس موقع واردات پر پہونچی تو ہجوم نے باسط کو پولس کے سپرد کردیا،اس واقعہ کا بے چین کردینے والا ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر گشت کررہاہے،ویڈیو میں جوشخص نظر آرہاہے وہ باسط علی ہے،ویڈیو میں یہ بھی دیکھا جاسکتاہے کہ اسکے دونوں ہاتھ کو درخت سے باندھ دیا گیا ہے،زدو کوبی کے درمیان  وہ مددکی گہار لگاررہاہے لیکن وہاں موجود لوگ اس پر کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں،



بلکہ کئی لوگ تو مسکراتے ہوئے بھی دکھ رہے ہیں،اورآپس میں بات چیت کررہے ہیں،اس دوران کچھ لوگ مظلوم باسط کے پاس ضرور آئے مگر وہ بھی صرف ویڈیو بناکر اور فوٹو کھینچ کر واپس لوٹ گئے،ایک رپورٹ کے مطابق پولس نے بتایا کہ پٹائی کرنے کے بعد کچھ لوگ باسط کو تھانہ لیکر آئے،یہاں وہ لوگ بھی پہونچے جنکے سامان چوری ہونے کیالزام میں اسکی پٹائی کی گئی تھی،پولس اسٹیشن میں ان لوگوں نے کہا کہ چونکہ انکا سامان واپس مل گیاہے اور باسط انکا پڑوسی ہے،لہذا وہ شکایت درج نہیں کرانا چاہتے،پولس اسٹیشن میں مبینہ سمجھوتے کے ایک گھنٹے بعد باسط نے وہیں دم توڑ دیا اور زندگی کی جنگ ہارگیا،

پولس کے مطابق پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد ملزمان کو گرفتار کیاجائے گا،اس واقعہ کے بعد باسط کا کنبہ کافی خوفزدہ ہے،مقتول کی ماں نے میڈیا سے کہا کہ جب مجھے معلوم ہوا کہ باسط کو کچھ لوگ پیٹ رہے ہیں،تو میں نے اپنے چھوٹے بیٹے کو اسے بچانے کیلئے کہا لیکن وہ اتنا ڈرگیا تھا کہ اس نے خود کو ایک کمرے میں بند کرلیا"(روزنامہ سہاراحیدرآباد 6 سپٹیمبر)ایسا ہی ایک دوسرا واقعہ دہلی کے این سی آر میں پیش آیا،6 سپٹیمبر بروزاتوار کو محمد آفتاب گڑگاؤں سے بلند شہر اپنی کار سے ایک سواری کو لیکر گئے،واپسی میں کچھ لوگوں نے لفٹ مانگا اور کہا کہ آگے چھوڑدو،یہ لوگ گاڑی میں بیٹھنے کے بعد الٹی سیدھی باتیں کرنے لگے،مسلمانوں کے خلاف بولنے لگے،محمد آفتاب کو شک ہوا اور انھیں لگاکہ یہ لوگ صحیح نہیں ہیں،انھوں نے فورااپنے بیٹے کوفون لگایا اور موبائیل کالنگ پررکھدیا،آفتاب کے بیٹے صابرکو گاڑی میں بیٹھے لوگوں کی پوری آواز سنائی دے رہی تھی،


پانچ منٹ تک مسلمانوں کے خلاف الٹا سیدھا بولنے کے بعد گاڑی میں بیٹھے دوشخص نے محمد  آفتاب سے کہا بولو جے شری رام۔جے شری رام بولو۔آفتاب نے بولنے سے انکار کردیا،اسکے بعدان لوگوں نے کہا لوشراب پیو،آفتاب نے اسے پینے سے بھی انکار کردیا،یہ ساری باتیں آفتاب کے بیٹے صابرآفتاب سن رہے رہے تھے اور آئیڈیو بھی ریکارڈ ہورہی تھی،اسکے بعد کارمیں بیٹھے دہشت گردوں نے آفتاب کو مارنا شروع کردیا،موبائل آن تھا اسلئے آواز صابر کو سنائی دیرہی تھی،کچھ دیر بعد فون کٹ ہوگیا،آفتاب کے بیٹے صابر نے پولس اسٹیشن میں جاکرشکایت درج کرائی،پولس نے لاسٹ لوکیشن کا پتہ لگایا،چتارو نام کی جگہ آخری لوکیشن تھے،وہاں پریہ لوگ گئے اور جانے کے بعد فوراً گاڑی تلاش کی گئی اور بادل پور پولس اسٹیشن سے چار کیلومیٹر کی دوری پر کارکھڑی مل گئی،وہاں دوپولس والے بھی موجود تھے،صابر نے پوچھا میرے والد کہاں ہیں؟پولس نے کہا آپکو ہاسپٹل چلنا پڑیگا،ہاسپٹل جانے کیبعد معلوم ہوا کہ انکے والد آفتاب کی موت ہوچکی ہے،دن دہاڑے قتل اور ماب لنچنگ کاواقعہ دہلی میں پیش آیا"


آئیے اسی طرح کاایک اور واقعہ دیکھتے ہیں،جوابھی دوتین روز قبل ہی پیش آیا ہیاورسوشل میڈیا پرزیرگشت ہے،یوپی کے سہارنپور کا اخلاق سلمانی نامی نوجوان،ہریانہ کے پانی پت کام کی تلاش میں گیا تھا،شام کو پارک میں بیٹھا تھا،پاس کی شدت کی وجہ سے سامنے ایک گھر سے پانی مانگنے گیا،جہاں اسکے ساتھ کچھ لوگوں نے بے رحمی سے مارپیٹ کی،یہاں تک کہ آرا مشین، (لکڑی کاٹنیوالی مشین)سے اسکا ایک ہاتھ تک کاٹ دیاگیا،پھر اسے مردہ سمجھ کر ریلوے کی پٹری پر چھوڑ دیا،اخلاق سلمانی کے رشتہ داروں نے پولس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی ہے جسکی ایف آئی آر کاپی بھی سوشل میڈیا پرزیرگشت ہے،لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اخلاق سلمانی اور انکے علاوہ جتنے لوگ اس لنچنگ کا شکار ہوچکے ہیں کیا ایسے لوگوں اورانکے رشتہ داروں کو اب تک کوئی انصاف مل سکا؟ چاہے وہ جھاکھنڈ کا تبریز ہو یاپھر کوئی اور،کیا ہمارے ملک کاسسٹم بالکل اپاہج ہوچکاہے؟


آفتاب کو انصاف دلانے کیلئے ایک مسلم تنظیم نے عدالت جانے کا اعلان کیا ہے جوایک اچھی پیش رفت اوراچھا قدم ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا دوسرے لوگوں کی انصاف کیلئے ہمیں آواز نہیں اٹھانی چاہئے؟


ملک میں ہجومی دہشت گردی کے بڑھتے واقعات اورلامتناہی سلسلہ کو دیکھتے ہوئے بنگال کی ممتا حکومت نے نیاقانون لانے کا اعلان کیاتھا،اور اس بل کو اسمبلی میں پاس بھی کردیاگیا،اس بل میں ہجومی  دہشت گردی کے خلاف سخت الزامات کے تحت ہجوم کو بھڑکانے والوں کیلئے عمرقید  کی سزا کا جواز پیش کیا گیاہے،بل میں کہا گیاکہ اگرایسی مارپیٹ سے متاثرہ کی موت ہوجاتی ہے تو اسکے ذمہ دار شخص کو پھانسی یاعمرقید اور پانچ لاکھ روپے کاجرمانہ ہوسکتاہے،بل پیش کرتے وقت ممتانے ایوان میں یہ بھی کہا کہاکہ ماب لنچنگ ایک سماجی ناسور ہے،اوراسکے خلاف ہم سبھی کو متحد ہوکر لڑنا چاہئے،سپریم کورٹ نے لنچنگ کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایت دی ہے"ہجومی دہشتگردی  کیخلاف قانون بنانے والی مغربی  بنگال،راجستھان کے بعد ملک کی دوسری ریاست بن گئی ہے،اس قانون کے تحت ان لوگوں کی سزا کا التزام ہیجو ہجومی دہشت گردی کی سازش رچتے ہیں،ساتھ ہی ان لوگوں کے لئے بھی جو ہجومی دہشت گردی میں شامل ہوں،ممتا نے یہ بھی کہاہے کہ مرکزی حکومت کوبھی ایسے جرائم پرروک لگانے کیلئے قانون بناناچاہئے


،بل میں عمر قید اور جرمانے کے کی زیادہ سے زیادہ سزا ایک لاکھ سے پانچ لاکھ رکھنے کی تجویز رکھی گئی ہے،بل کے ڈرافٹ کے مطابق مذہب،ذات،جنس،جائے  پیدائش اور زبان،ذات پات یاکسی دوسری بنیاد پر ہجوم کے ذریعے تشدد کو ہجومی تشدد کے طور پرواضح کیا گیاہے،اس سے قبل راجستھان اسمبلی نے بھی ہجومی تشدد کرنے والوں کو عمرقید اورایک لاکھ سے پانچ لاکھ تک کے جرمانے والا بل اسمبلی میں پاس کیاتھا،جو ایک اچھی پیش رفت ہے،ملک کی مختلف ریاستوں میں ہجومی دہشت گردی کے واقعات ان دنوں عام ہوچکے ہیں،وقفے وقفے سے کہیں نہ کہیں،کسی نہ کسی ریاست میں ہجومی تشدد کے نام پر غریب اور نہتے لوگوں پر حملہ کردیا جاتاہے،ملک کی شمالی ریاستیں ان واقعات کا مرکز بناہواہے،جس میں زیادہ ترواقعات یوپی،جھارکھنڈ کیعلاوہ دہلی میں ہورہے ہیں،بلکہ ان ریاستوں میں خاص طور پر اس طرح کے واقعات رونما ہورہے ہیں جہاں بی جے پی اوراسکی اتحادی حکومت ہے


،ایسی ریاستوں میں منظم اندازمیں ہجومی دہشتگردی کے واقعات انجام دیئے جارہے ہیں،جوانتہائی افسوسناک ہے،لیکن اس سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان مجرموں کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں کی جاتی جسکی وجہ سے انکے حوصلے بلند ہوتے جارہے ہیں،حکومت کی جانب سے ظالموں کے بجائے مظلوم اور معصوموں کو ہی اگرموردالزام ٹہرانے کی کوشش کی جائیگی تو ظاہر ہے کہ اس سے مجرموں کیحوصلے بلند ہوں گیاور اب تک یہی ہوتاآرہاہے،چاہے وہ پہلوخان کامعاملہ ہو یاتبریز انصاری کا،ہرایک کے ساتھ یہی ہورہاہے،اس سے پہلے عدالت عظمی نے مرکز اور ریاستی حکومتوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہاتھاکہ ہجومی تشدد جیسے واقعات کی روک تھام کیلئے مؤثراقدامات کئے جائیں، لیکن سوال یہ ہے سپریم کورٹ کی اس نوٹس پرکہاں تک عمل ہوا؟ظاہر ہے اگراس پرعمل آوری ہوتی تو پھراس طرح کے واقعات ہی نہ ہوتے،سال گذشتہ اترپردیش کی لائکمیشن نے اس قسم کے بڑھتے واقعات پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے ایک مسودہ قانون تیارکیا تھا،


جس میں حملہ آوروں کو سات سال اوراپنی ڈیوٹی سے غفلت برتنے والے پولس افسران کو تین سال قید کی سزاتجویز کی گئی تھی،یہ مسودہ سی ایم یوگی کو پیش کردیا گیا اور اس مسودہ کانام "اترپردیش ہجومی تشدد مخالف بل 2019" رکھا گیاتھا،اس مسودہ میں یہ کہاگیا تھا کہ ہجومی تشدد کو ایک الگ جرم سمجھا جائے تاکہ شر پسندوں میں خوف پیداہو،اس میں سفارش کی گئی تھی کہ ہجومی تشدد سے متاثر شخص کے زخمی ہونے کی صورت میں حملہ آوروں کو سات سال تک کی جیل اور ایک لاکھ روپے تک جرمانہ،شدید مار لگنے کی صورت میں دس سال تک کی جیل اور تین لاکھ روپے جرمانہ، ہلاک ہونے کی صورت میں بامشقت عمرقید  اور پانچ لاکھ روپے تک کا جرمانہ عائدکیا جائے اور سزا سنائی جائے،لاء کمیشن کے  چیرمین ریٹائرڈ جسٹس آدتیہ ناتھ متل کی رپورٹ کے مطابق موجودہ قوانین کو ناکافی قرار دیاگیا،اوراس بات کی نشاندہی کی گئی کہ نہ صرف مجرموں کو سزا دی جائے بلکہ غفلت برتنے پر انتظامیہ کو بھی ذمہ دار ٹہرایا جائے،ان سب کے باوجود ریاست میں ہجومی دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے،اور یہ اسلئے کہ لاء کمیشن کے مسودہ کو کچرے دان میں ڈال دیاگیا،اگرحکومت کی جانب سے اس طرح کی کارروائی میں ملوث حملہ آوروں کے خلاف کارروائی ساتھ ساتھ غیر ذمہ داری برتنے والے برتنے والے حکام کے خلاف بھی کارروائی ہوتی تو شاید اس پر قابو پایا جاسکتاتھا،



لیکن حکومت نے اس معاملے میں کسی بھی طرح کی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا، پھر یہ سوال تو ہوگا ہی کہ آخر اس عفریت  کا طوفان کیسے تھمے گا؟اور ماب لنچنگ کا یہ سلسلہ کب بند ہوگا؟قانون دانوں کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ اس طرح کے واقعات کے ملزموں کیلئے ملک میں کوئی قانون  نہیں ہے،قانون  موجود ہے لیکن حکومتوں کی نیتوں میں فتور ہونے کی وجہ سے اس قانون پر عمل نہیں ہورہاہے پھر اسکی روک تھام کیسے ہو؟


سوال یہ بھی ہے کہ اس طرح معاملے میں جب تک حکومتیں مخلص نہیں ہوں گی اور بدنیتی کا مظاہرہ کرتی رہیں گی اورایسے غیرانسانی واقعات میں ملوث افراد کے خلاف جب تک حکومت سنجیدہ نہیں ہوگی تب تک اس پر روک کیسے لگایاجائے؟ایسے میں چاہے کتنے ہی قوانین بنالئے جائیں سماج سے اسکا خاتمہ ممکن نہیں لگتا،


اس وقت ملک کی اقلیتیں نشانے پر ہیں اور خاص طور پر ان سماج دشمن عناصر اور دہشت گردوں کے نشانے پر مسلمان ہیں، ظاہر ایسے میں ہم مسلمانوں کو خود ہی اس طرح کے واردات کی روک تھام کے ہمیں منظم طور پر لائحہ عمل طے کرنا ہوگا اور اپنے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا۔ ورنہ تو ملک کے جوموجودہ حالات ہیں،ڈاکٹر راحت اندوری مرحوم نے ہمیں اس سے خبر دار کردیاہیکہ 
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں 
یہاں پر صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

(مضمون نگار، کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad