تازہ ترین

ہفتہ، 17 اکتوبر، 2020

کریں گے یاد تجھ کو, مدتوں رندان میخانہ

از.نبیره حاجی شکراللہ صاحب 

(عبدالواحد حلیمی جونپوری)

نۓ انداز سے سکھلاۓ ھیں آداب میخانہ

کریں گے یاد تجھ کومدتوں رندان میخانہ

کل شیئ ھالک الا وجھہ  ⁦ باری تعالیٰ کی ذات کے علاوہ دنیا و مافیہا فانی ہے انسان اس دنیا کے اندر  اپنی حیات مستعار کے چند روز گزارکر رب حقیقی سے جا ملتا ہے اور پھر اپنے رب کے یہاں اپنے کئے ہوئے کا بدلہ نیکی و بدی کی شکل میں پاتا ہے یہ ایک خداوندی قانون ھے کہ ہر ذی روح کو ایک نہ ایک وقت موت کا تلخ جام پینا ہی پڑتا ہے اس سے کسی کو مفر نہیں ہے لیکن بعد حادثات ایسے ہوتے ہیں کہ وقتی طور پر اس کا بہت اثر رہتا ہے  اور بہت دیر تک اثر باقی رہتا ہے انھیں حادثات میں سے ھماری دادی جان کا اچانک کاحادثہ تھا {یہ حادثہ 10 مارچ 2019 کا ہے اللہ ان کے درجات کو بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام نصیب فرمائے - آمین} دادی جان کے انتقال کو ابھی دیڑھ سال سے کچھ زیادہ عرصہ ہی ہوا تھا کہ آج بتاریخ 13 اکتوبر 2020 بروز منگل بعد نماز ظہر 03:15 بجے دادا جان بھی اس دارفانی سے دار جاودانی کو کوچ کرگئے 


فوٹو :رائٹ سے مضمون نگار ۔عبدالواحد حلیمی ۔۔۔۔۔اسکے بعد  مرحوم حاجی شکراللہ صاحب


انا للہ وانا الیہ راجعون ان للہ ما اخذ ولہ ما اعطی وکل شیئ عندہ باجل مسمی فلتصبر ولتحتسب    


رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی 

تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی 


دادا جان کی سن پیدائش سرکاری کاغذات کے مطابق 1940/01/01  ہے تو بلحاظ اس کے آپ کی عمر تقریبا 81 سال ھوتی ھے جبکہ تجربات و مشاھدات اور لوگوں کے انداز کھلے لفظوں میں اس کی تردید کرتے ہیں کیونکہ سرکاری کاغذات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں %90 لوگوں کی تاریخ پیدائش یکم جنوری درج ہوتی ہے  جبکہ لوگوں کا غالب گمان آپ کی عمر کے متعلق تقریبا 90 سال کا ہے  رب ذوالجلال نے آپ کو لمبی عمر عطا فرمائی تھی


 ابتدائی تعلیم اپنے شہر جونپور کے مانیکلاں مدرسہ ضیائالعلوم سے حاصل کی تعلیم کا کوئی خاصا حصہ اپنے حاصل نہیں کیا بلکہ چند سالوں بعد تعلیم کا یہ سلسلہ موقوف ہوگیا بعد اسکے بغرض معاش سنگاپور چلے گئے اور عمر کا بیشتر حصہ وہیں پر گزرا لیکن اس کے باوجود وہاں کی رنگینیوں سے پاک تھے سادگی کو ہمیشہ لازم پکڑے رہے 


 سادگی ان میں رہی اور یکسوئ رہی

 تھی تواضع انکساری اور وہ تھے خوش خصال 


دادا جان کی شخصیت بہت ہی خصوصیات کی حامل تھی آپ کے اندر ایک خاص وصف جودوکرم کا تھا یہی وجہ تھی کہ اپنی پوری زندگی اقرباء غرباء و مساکین کی اعانت و مدد میں گزاردی کبھی کسی سائل کو خالی ہاتھ نہیں بھیجتے تھے واما السائل فلا تنھر پر بالکل عمل پیرا تھے علمائے کرام کی محبت دلوں میں رچی بسی تھی ان کا بے انتہا احترام کرتے تھے ادب سے ان کے سامنے پیش آتے تھے   ان کی دینی محفلوں مجلسوں میں شرکت فرماتے تھے غالبا اسی کی برکت ہے کہ آج بحمد للہ آپ کے لڑکے پوتے نواسے میں علماء و حفاظ کی ایک بڑی تعداد موجود ہے { اللہ دن دونی رات چوگنی ترقی عطا فرماتا رہے } 


 آپ کا تمام دینی اداروں خاص کر اپنے ادارے ریاض العلوم سے بہت ہی گہرا تعلق تھا ادارہ کی اعانت کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے تا دم حیات مدرسہ کی خبر گیری کرتے رہے عصر کی نماز مدرسہ کی مسجد میں پڑھنا روزمرہ کا آپ کا معمول تھا اور بحمدللہ آپ تاحیات مدرسہ کے شوریٰ کے رکن تھے غرضیکہ ہر خیر کے کاموں میں پیش پیش رہتے تھے 


دادا جان بہت ہی بلند اخلاق کے حامل تھے آپ کے مزاج میں تواضع خاکساری و سادگی حد درجہ تھی صوم و صلات کی بے انتہا پابندی کرتے تھے  نوافل کی بھی کثرت کرتے تھے شب بیدار بندوں میں شامل تھے تلاوت قرآن سے خاص شغف تھا بعد نماز فجر اوراد و وظائف کے بعد ایک دو پارہ بآسانی پڑھ لیتے تھے بعدہ اشراق پڑھ کر ھی گھر آتے تھے مھمانوں کی ضیافت کا حد درجہ جذبہ تھا ان کی خاطر مدارات کرتے ان سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملتے تھے 


 کتابوں کے مطالعہ کے بھی حریص تھے دیر رات تک مطالعہ کرتے رہتے تھے اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ جب میں بعد نماز عشاء مدرسہ میں دیڑھ دو گھنٹہ پڑھ کر آتا تو آپ کو اکثر مطالعہ میں مشغول پاتا تھا جھاں دیدہ - دنیا میرے آگے وغیرہ اس قسم کی کتابوں کو اکثر پڑھا کرتے تھے خدمت لینے کا آپ کے اندر بالکل جذبہ نہیں تھا بڑھاپے میں بھی کبھی کسی سے سر پیر دبوانا نہیں چاہتے تھے بہت اصرار کے بعد اگر دبواتے تو مشکل سے 4 سے 5 منٹ دبواتے اس کے بعد منع کردیتے  چھوٹے بچوں سے بے انتہا پیار و محبت کرتے تھے ان کے ساتھ باتیں کرتے تھے اور بہت خوش رہے تھے  اسی طرح جانوروں سے بھی بے انتہا محبت تھی اسی لیے گھر میں ایک دو جانور ہمیشہ رکھتے تھے صفائی و ستھرائی کا خاص اہتمام فرماتے تھے بصورت دیگر گھر والوں کو اس پر سختی سے تنبیہ کرتے تھے بے وضع (بے ڈھنگی) چیزوں کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے تھے بلکہ فورا اصلاح کرواتے 


ہر خاص و عام میں مقبول تھے حتی کہ غیر مسلموں میں بھی آپ حد درجہ مقبولیت رکھتے تھے نہایت کم گو تھے من الذین اذا رووا ذکراللہ { کہ جب انہیں دیکھو تو اللہ یاد آجائے } کا چلتا پھرتا مفہوم تھے مگر یہ مقبولیت اللہ کی طرف سے تھی بخاری شریف کی حدیث ہے کہ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اذا احب اللہ عبدا نادی جبرئیل ان اللہ یحب فلانا فاحببہ فیحبہ جبرئیل فینادی جبرئیل فی اھل السماء ان اللہ یحب فلانا فاحبوہ فیحبہ اھل السماء ثم یوضع لہ القبول فی الارض { بخاری شریف حدیث نمبر: 3209 }


جب اللہ رب العزت کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام آسمان سے ندا لگاتے ہیں اللہ تعالی فلاں بندے سے محبت کرتا ہے تو آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں پھر اس کے لیے زمین پر قبولیت رکھ دی جاتی ھے  اس مقبولیت کا اندازہ آپ کے جنازے میں موجود بھیڑ کو دیکھ کر ہوا کہ قرب و جوار کا ایک بڑا مجمع جنازے میں شریک تھا


 آپکی نماز جنازہ مقررہ وقت کے مطابق 9 بجے شب میں مدرسہ عربیہ ریاض العلوم کے صحن میں حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم صاحب مظاہری مہتمم مدرسہ ھذا نے  پڑھائی اس کے بعد جنازہ قبرستان حلیمی پہنچا اور وہاں تدفین عمل میں آئی



 آپ کے پسماندگان میں چار صاحبزادے اور دو صاحبزادیاں ہیں صاحبزادوں میں مفتی محمد عارف صاحب مولانا محمد شاہد صاحب { جو کہ فی الحال مدرسہ ہذا میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں } حافظ عبدالعظیم صاحب اور مفتی محمد زاھد صاحب ھیں الحمدللہ تمام ہی بچے بچیاں صاحب اولاد ہیں نیک اور صالح ہیں جو آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہیں حدیث شریف میں آتا ھے اذا مات الانسان انقطع عنہ عملہ الا من ثلثۃ: الا من صدقۃ جاریۃ او علم ینتفع بہ او ولد صالح یدعولہ { صحیح مسلم: 1631 } کہ انسان جب نیک و صالح اولاد چھوڑ کر جاتا ہے تو اس کے مرنے کے بعد بھی مسلسل اس کو ثواب ملتا رہتا ہے


 رب کریم دادا جان کی قبر کو انوار سے بھر دے درجات کو بلند کرے انبیاء صدیقین شھداء اور اولیاء کے زمرے میں آپ کا حشر فرمائے آپکی قبر میں جنت الفردوس کے دروازے کھول دے آمین


اللھم اکرم نزلہ ووسع مدخلہ وابدلہ دارا خیرا من دارہ واھلا خیرا من اھلہ واغسلہ بماء الثلج والبرد ونقہ من الخطایا کما ینقی الثوب الابیض من الدنس اللھم لا تحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ

    آمین یا رب العالمین


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad