تازہ ترین

منگل، 13 اکتوبر، 2020

شوہر کے برے رویے سے بیوی تین راستے کو اختیار کرتی ہے

ازقلم، مفتی محمد ضیائالحق فیض آبادی 

اگر شوہر اپنی شریک زندگی کے ساتھ ظلم و تشدد کرتا ہے ، اور اس کے حقوق کو کماحقہ ادا کرنے کے بجاے وہ اپنا سارا وقت اپنے  دوستوں کو دیتا  ہے،


 

گھر آنے پر اس سے محبت کرنا تو  بہت دور کی بات  چھوٹی چھوٹی باتوں پر  جھگڑتے رہنا بات بات پر گالیاں دینا، دوسرے کی باتوں میں آکر اس کو سب کے سامنے ذلیل کرنا،ماں بہن کی باتوں کو سن کر اس کو مارنا، یعنی اب اس غلیظ انسان کے زندگی کا  صرف ایک ہی مقصد   ہے کہ  کسی بھی طریقے سے اپنی زندگی کے ہم سفر کو  راحت کے بجاے تکلیف پہچایا جاے،اس کے سکون و چین کو چھین کر اس کی زندگی کو برباد کر دیا جائے۔ 


تاکہ وہ مجھ سے رو رو کر اپنی زندگی کے  سکون و قرار کی بھیک  مانگے۔اور میں اس کو عطاء نہ کروں بلکہ اس پر  ظلم و ستم  اور زیادہ  کروں لیکن  اب وہ مظلومہ ظلم و ستم برداشت کرتے کرتے تھک چکی ہے، اب اس کی امیدوں کا فلک بوس محل اج  زمیی بوس ہو گیا ہے، اب اس کے اندر اتنی بھی ہمت نہ باقی رہی کہ مزید کچھ اور برداشت کرے، اس لیے کہ اس نے اپنے ارمانوں کو قدموں تلے روند دیا ہے، اپنی عزت کا خیال نہ کرتے ہوے،اس غلیظ انسان کی بیوی تین راستوں میں سے ایک راستہ کو اختیار کرتی ہے۔


پہلا راستہ

 اس پر آشوب دور میں ہمارے معاشرے میں کچھ  بیویاں جو ایمان اور عقیدے میں کمزور ہوتی ہیں وہ  اپنے شوہر کے ظلم و تشدد کو دیکھ کر غیر محرم سے نا جائز تعلق بنا لیتی ہیں، پھر اپنی زندگی کی خوشی اور غم کو اس سے بیان کرنے لگتی ہیں، اور وہ شخص اس کو اپنی جھوٹی باتوں سے   متاثر  کر دیتا ہے  اسکے لئے اس کی   ہمدردی بہت ہی زیادہ بڑھ جاتی ہے، اور یہ  ہمدردی والا رشتہ سب سے پہلے ایک بااخلاق شخص کے رشتہ کی  شکل میں رہتا ہے پھر وقت کے لحاظ  سے دوستی میں تبدیل ہو جایا کرتا  ہے  پھر 

  دونوں کا  یہ نا جائز رشتہ  کبیرہ گناہوں کی شکل میں تبدیل ہو جاتاہے، ایسی صورت میں شوہر، بیوی اور اس کا وہ ہمدرد  تینوں ہی سخت  سزا کے حقدار ہوتے ہیں۔ اور تینوں عذاب الہی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔


دوسرا راستہ

اج کے اس پرفتن دور میں جہاں مغربی تہذیب نے ہمارے معاشرے کی تہذیب کو اپنا لقمہ تر بنا لیا ہے تو وہیں ہمارے معاشرے میں زندگی بسر کرنے والی کچھ اسلام کی شہزادیاں ایسی بھی ہیں جو اسلام کے بتاے ہوے نقش قدم پر چل رہی ہیں،

 جن  بیویوں کے ایمان و عقیدے بہت ہی  مضبوط  ہیں لیکن  اندر سے وہ  بہت کمزور  ہیں، اگر ان کا شوہر ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا۔ 

جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے تو یہ بیویاں اپنی عزت و آبرو کی تو ہمہ وقت  حفاظت کرتی ہی  ہیں لیکن اندر سے وہ  مکمل ٹوٹ جایا کرتی ہیں،

 ان کا لوگوں کے سامنے  ہنسنا صرف  رسمی ہوتا  ہے، ان کے چہرے کا مسکان بھی رسمی ہوتا ہے، انکی گفتگو بھی رسمی ہوا کرتی ہیں، ان کا  لوگوں سے ملاقات  کرنا سب رسمی ہوتا ہے، یہ دن بدن اندر ہی اندر  گھٹتی رہتی ہیں صبح کا سورج ان کے لئے ایک نیا درد لے کے اتا ہے  اور ہر شام وہ اپنے غموں کو یاد کر کے  خون کے آنسو روتی ہیں، ایسی  بیویاں معاشرے میں زندہ لاش بن کر اپنی زندگی کے شب و روز کو بسر کیا کرتی ہیں،لیکن وہ اپنا تعلق کسی  غیر محرم سے بالکل نہیں رکھتی ہیں۔ایسی بیوی کا شوہر بروز محشر  اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو سکتا ہے  جب تک بیوی کے ایک ایک آنسو کا حساب نا دیدے۔

تیسرا راستہ

 اس راستے پر چلنے والی بیویوں کا ایمان و عقیدہ  مظبوط ہوتا ہی ہے لیکن یہ ہمت و استقلال کا جبل شامخ ہوا کرتی ہیں یہ ٹوٹتی نہیں ہے اور نہ ہی حالات سے گھبراتی ہیں بلکہ حالات پر قابو پانے  کے لئے ہمہ وقت  فکر مند رہا کرتی ہیں، یہ شوہر کے خراب رویہ کو خود کے لیے چیلنج تصور کرتی ہیں کہ اس چیلنج کا جواب وہ عداوت سے نہیں بلکہ محبت سے دیا کرتی ہیں، اور رات و دن  اس سوچ میں گزارتی ہیں کہ  کس طرح شوہر کو اپنی طرف مائل کیا جاۓ، لیکن یہ بھی کسی غیر محرم سے رشتہ ہر گز  قائم نہیں کرتی ہیں۔

 ایسی بیویوں کے شوہر  غصے میں اپنی زندگی کے ہم سفر  پر ظلم و تشدد کرتے ہیں لیکن ان کی بیویاں جواب دینے کے بجاے صبر کرتی ہیں اور اس کے ستم کو برداشت کر کے اپنے گھر والے کی عزت و آبرو کی حفاظت کرتی ہیں۔ یہ اپنے شوہر کے لئے  بہت زیادہ نرم اور پیار بھرے  رویہ سے پیش اتی  ہیں، شوہر کے آنے سے پہلے خود کو بناو و  سنگھار کرکے  اپنے شوہر کا انتظار کرتی ہیں تاکہ  شوہر کا دھیان کہیں اور نا جاۓ۔

یہ اس بات کو بخوبی جانتی ہیں کہ شوہر کے والدین کی خدمت فرض نہیں لیکن پھر بھی  اپنے  ساس و  سسر کی خدمت  کو خلوص کے ساتھ کرتی ہیں تاکہ اس کا شوہر اس سے راضی ہوجاے۔

اور  بزرگوں کی دعاؤں سے ان کا گھر ہمیشہ شاد و باد رہے، یہ رات کی تنہائیوں میں تکیوں میں منہ چھپا کر رونے کی بجاۓ سجدوں میں رونے کو ترجیح دیتی ہیں، یہ سجدوں میں آنسو بہا کر اللہ عزوجل سے اپنے  شوہر کی واپسی کی بھیک  مانگتی ہیں، یہ تہجد کی نماز  میں اٹھ کر پھر اللہ عز اسمہ  کی بارگاہ میں اپنی جبین نیاز کو خم کر کے  اور آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب لیے ہوے  اپنی آہ اس رب کے سامنے رکھ کر اپنی زندگی کی  خوشیاں مانگتی ہیں۔

 اللہ عزوجل انکی ہمتوں کو مزید تقویت عطاء فرماتا ہے اور وہ اپنے رب کو جب مدد کیے لئے پکارتی ہیں تو اللہ عزوجل ان کو مایوس نہیں کرتا ہے۔بلکہ  انکی ہمت و  قربانیوں اور صبر  کا صلہ دیتے ہوے،  انکے شوہر کا دل انکی بیویوں کی طرف پھیر دیتا ہے۔


اگر بیوی پہلا راستہ  اختیار کرتی ہے تو دنیا میں صرف ذلت و رسوائی کے سوا کچھ بھی نہیں ملتا، اور آخرت  میں شوہر اور ہمدرد سمیت سخت عذاب کے مستحق ہوتے ہیں۔اگر بیوی دوسرا راستہ  اختیار کرتی ہے تو غلیظ شوہر کی وجہ سے اپنا ہی دل جلاتی ہے اپنے ہی ارمانوں کا  خون کرتی  ہے۔ اور  اپنے آپ کو تکلیف دینے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ لیکن اسے اللہ عزوجل کے حضور  اس صبر اور عزت و آبرو کی حفاظت کا اجر ملے گا۔


اگر بیوی تیسرا راستہ اختیار کرتی ہے، شوہر کی بیغیرتی کو خود کے لیے چیلنج تصور کرتی  ہمت اور حوصلے سے   کام لیتی ہے جیسا کہ اوپر لکھا جا چکا  ہے  تو ۸۰ فیصد بیویاں اللہ کے حکم سے اپنے مقصد اصلی  میں کامیاب ہوکر ایک خوشگوار اذدواجی زندگی  گزارتی ہیں۔

راقم الحروف  امت مسلمہ کی شہزادیوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ  شوہر کے خراب رویہ پر ہر بیوی کو تیسرا راستہ اختیار کرنا چاہیے ان شائاللہ اللہ عزوجل  اسے کبھی بھی  مایوس نہیں کرے گا۔


یہاں ایک اور بات کہنا چاہتا ہوں  کہ اگر کسی بھی عورت کی آنکھ میں ایک آنسو بھی شوہر کے ظلم کی وجہ سے آجاۓ تو جنت میں اس وقت تک نہیں جا سکے گا جب تک بیوی اسے معاف نا کردے۔  کیونکہ اس کا تعلق  حقوق العباد  سے ہے جب بندہ نہ معاف کر ے۔رب ہر گز نہیں معاف کرے گا

اب آپ کہیں گے کہ میں فتوے لگا رہا ہوں، جناب والا  یہ فتوی  نہیں دین اسلام ہے جہاں کسی ایک انسان کا دل دکھانے پر حکم ہو گا کہ جاؤ پہلے اس شخص سے معافی لیکر آؤ۔

جس کا تم نے دل دکھایا ہے

 ایک شہید جو اللہ کی راہ میں جھاد  کرتے ہوۓ شہید ہوا ہو اسے بھی جنت جاتے ہوۓ راستے میں روک لیا جاے گا کہ تم نے فلاں دن اس انسان کا دل دکھایا تھا پہلے اس سے معافی لیکر آؤ تب تم جنت میں جا سکو گے۔ جب ایک شہید کو جنت میں جانے سے روکا جا سکتا ہے تو آج عام مردوں کی کیا حیثیت ہے، لہذا  ناجائز ظلم و ستم  کیوجہ سے اپنی بیویوں کی آنکھوں میں آنسو نا آنے دینا ورنہ جنت کے راستے میں بڑی رکاوٹ ثابت ہونگی۔ 

اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا گو ہوں مولی سلطان مدینہ کے صدقے میں ہر شوہر کو اپنی  بیوی اور ہر بیوی کو اپنے شوہر کی عزت کرنے کی توقیق عطاء فرما امین یارب العالمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad