تازہ ترین

منگل، 24 نومبر، 2020

یادوں کی کسک

 برادرم سید محمد غفران ندوی مرحوم کے یوم وفات کی مناسبت سے

 بقلم: محمد نفیس خاں ندوی

جذبات کا ہجوم- احساسات کا سیل رواں-یادوں کی سوغات-نہ قلم کا ساتھ - نہ زبان وبیان کو تاب- قلم اٹھاتاپھر رکھ دیتا ، دیر تک خیالوں میں گم ہوجاتاپھرجی چاہتا  کہ دھاروں دھار روؤںلیکن ضبط نفس کی سولی گڑی ہوئی تھی، خود کو سہارتا اور پھر ایک اضطراب! اضطراب کہ حافظہ کہاں تک ساتھ دے گا،الفاظ کہاں تک یاوری کریں گے، کئی کئی پہر اسی کشمکش میں نکل گئے کہ مرحوم کی کن خوبیوں کا ذکر کروں، کن احسانات کو بیاں کروں،ان کی ذات ہشت پہل ، ہمہ جہت ہمہ صفات،مانو کسی عظیم شخصیت کی شناخت!زندگی میں بھی سراہا گیا-مرنے کے بعد خراج کا سلسلہ جاری!



گنبد آبگینہ رنگ-کبھی راحت کا سندیسہ اورخوشیوں کی سوغات لاتاہے،کبھی اس میں درد کی لہریں اٹھتیں اور خون کی ندیاں موجزن ہوتی ہیں۔یہ آسمان- اپنی آغوش میں جشن کی شہنائیاںبھی سمیٹے ہوئے ہے اورایسی راتیں بھی جب غم کی خون آشام تلوار روح کی گہرائیوں تک کاٹتی چلی جاتی ہے،۲۴/نومبر کی ایسی ہی ایک رات تھی جب جواں سال ، جواں بخت ، ہردلعزیز دوست نےالوداع کہا-رات کی سیاہی، سڑک کی خاموشی، دو بھائی محو گفتگو- منزل کی جانب رواں موٹر کار اور سامنے سے بہکتالڑکھڑاتا، نشہ میں دھت بے قابو ا ٹرک--- ایک زور کا تصادم ----- اور منزل مقصود سے پہلے منزل حقیقی نے قدموں کو چوم لیا۔ آہ!


غفران کے انتقال کی خبر آناً فاناً دور دورتک پھیل گئی،کوئی آہ بھر تا ، کوئی پھوٹ پڑتا تو کوئی سختی سے رد کردیتا، سوشل میڈیا نے مخمصہ میں ڈال دیا،تصدیق وتردید کا سلسلہ شروع ہوگیا،خدا خدا کرکے مرحوم کے برادر مشفق ڈاکٹر سلمان سے رابطہ ہوا،وہ رو رو کر ہر ایک کوفقط یہی جواب دیتے’’بس اللہ سے دعا کرو‘‘ ۔



خبر ملی کہ غفران کو رائے بریلی کے سرکاری اسپتال لایا گیا ہے، سبھی اہل تعلق چل پڑے، جو سنتا نکل پڑتا،ایک جم غفیر پہنچ گیا،معلوم ہوا کہ مرحوم کا جسد خاکی یہاں نہیں ہے، جائے حادثہ کے قریب لال گنج پولس اسٹیشن پرہے، یہاں ان کے ہم سفر برادرم عمران کا شکستہ جسم ہے،لہو میں سناہوا، زخموں سے چور، کہیں سےسالم تو کہیں سے مخدوش، سانسیں جاری ہیں، حواس غائب ہیں، ڈاکٹروں نے کوششیں کیں لیکن نہ مہارت تھی، نہ وسائل تھے! بالآخر مشورہ ہوا اور موصوف کو لکھنؤ ریفر کردیا گیا۔


لال گنج پولس اسٹیشن- مرحوم کا جسد خاکی-اہل تعلق کا انبوہ- مرحوم کے والد کا شکستہ وجود- حسرت ویاس کی تصویر- صبرو استقلال کا پہاڑ-نہ چیخ نہ پکار- نہ شور نہ ہنگامہ- پر سکون فضا-سکینت کی تنی ہوئی چادر -اسلامی تعلیمات کا حسین پرتو- خاندانی صفات کی مکمل عکاسی-زبان گویا ہوئی- رُندھی رُندھی آواز-ہائے میراغفران! کبھی کسی کا برا نہیں کیا، کسی کا حق نہیں مارا،کسی کا دل نہیں دکھایا،وہ میرا بازو، میرا سہارا، میری زندگی کا کل سرمایہ! انشاء اللہ وہ جنت جائے گا اور مجھے بھی لے جائے گا۔


والدہ منتظر تھیں-بچے ابھی لوٹے نہیں-کوئی رابطہ نہیں-انتظاربڑھنے لگا-اُف- کون بتاتا کہ اب انتظار ختم ہوا- کون ہمت کرتا کہ باغ وبہار چمن اجڑ گیا-کون کہہ دیتا کہ غفران ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے-ہمتیں یکجا کی گئیں-ماحول بنایا گیا-حادثہ کی اطلاع دی گئی-دل بیٹھ گیا-کلیجہ مسوس گیا-آنسو رواں ہوگئے-وجود لرز گیا -لیکن -الصبر عند الصدمۃ الاولیٰ کی عملی تفسیر-قاری صدیق احمد باندویؒ کی تربیت کا سراپا نمونہ-خدا کے فیصلہ پر راضی-دعائے مغفرت کا اہتمام-ایصال ثواب کا سلسلہ!


غفران کی اہلیہ-غم سے نڈھال- اس پر قیامت سی ٹوٹ پڑی- بار الم اٹھائے نہ اٹھتا-دنیا لٹ چکی- آنسو خشک ہوچکے-بیوی کے دل کی لگی کون بجھا سکتا ہے- رونے دھونے کے بعد بے حسی کا وقفہ- تصویر کی طرح خاموش-بت کی طرح بے جان-زیر لب تلاوت و دعائے مغفرت!


آج وہ چھت اوپر آن رہی تھی جیسے وہ بے آسرا ہوگئی ہو- گھر کی ملکہ کا راج ختم ہوا- بچہ کے لیے شفقت کے چشمے خشک ہوئے-دنیا بھر کی نعمتیں بھی میسر ہوں تو اس خلا کو کون پاٹ سکتاہے!احساس محرومی دل میں شبخوں مارتا رہے گا-کون کس کا غم باٹ سکتا ہے! کون سہارا دے سکتا ہے!عزیز دور کھڑے ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں، جس پر گذر جاتی ہے وہی مر مر کر جیتا ہے!یہ گھاؤ پورے طور پر کبھی نہ بھر پائے گا-جب بھی کوئی غم ہوگا --اپنا یا پرایا--تویہ زخم ہرا ہوجائےگا،زندگی کبھی تہی دامن نہیں ہوتی، اس طویل اندھیری رات میں روشنی کی کرنیں تو ہوں گی لیکن پہلا سا روز روشن لوٹ کر نہ آئے گا!


آخری سفر کی تیاریاں مکمل ہوئیں، دلوں کے آبلے پھوٹنے لگے،درد کی لہریں کنارے سے ٹکرا جاتیں لیکن ان کا زور کم نہ ہوتا،جنازہ اٹھا تویہ گلوگیر آوازبھی بلند ہوئی: یارو کیا غضب کر رہے ہو، اسے کہاں لے جارہے؟روز ازل سے یہ فریاد گنبدگردوں تک جاتی ہے اور صدائے بازگشت کی طرح خالی لوٹ آتی ہے۔


ملک ِ عدم کا مسافر ہتھورا کے لیے روانہ ہوا، آخری ساتھ دینے والے قافلہ نے بھی کوچ کیا،سب غموں سے نڈھال و بے حال ، کوئی اپنے خیالات میں غرق تھاتوکوئی کسی حرماں نصیب کوتھامے تھا،گم صم سا سفر جاری تھا،ہوا کا جھونکا بھی اس خاموشی میں مخل ہورہا تھا،نڈھال نڈھال سا قافلہ رواں تھا،سفر کی دوری کا احساس فوت ہوچکا تھا،گویا مسافت سمیٹ دی گئی ہو، ہتھورا میں ایک ہجوم منتظر تھا،نم نگاہوں ، تر داڑھیوں اور پر نور چہروں نے استقبال کیا، تعداد سیکڑوں میں نہیں ہزاروں میں تھی،اب تاخیر مناسب نہ تھی، نماز کی ندا ہوئی، چند ہی لمحوں میں آخری رشتہ بھی منقطع ہوا چاہتا تھا،


وہ ازلی تنہائی جو عمر بھر انسان کا ساتھ دیتی ہے مجبوری عریاں کی صورت میں جلوہ گر تھی، کیفیت ِ غیاب وشہود سمجھنے کی ساعت آن پہنچی تھی،وہ کھلتاہو اشفیق چہرہ گل ہوگیا،ہتھورا کی دعوت شبینہ سے ہتھورا کی وادی خموشاں کا سفر چوبیس گھنٹہ میں طے ہوا،حیات مستعار کا آخری سفر مکمل ہوا،وہ ماہتاب جوقاری صدیق صاحبؒ کی گود میں طلوع ہوا تھا آج انہیں کے پہلو میں غروب ہوگیا۔ 

ع  سبزہ نورستہ تیرے گھر کی نگہبانی کرے۔

لاڈلے بیٹےکی جدائی پر والدین کا غم-سوجان سے نثار خاوند کی فرقت پر بیوی کی تڑپ-مشفق باپ کے سایۂ شفقت سے معصوم بچہ کی محرومی-مخلص وخیراندیش کے بچھڑنے پر دوست کی تہی دامنی -وہ کرب ہے جس کی شدت حیطۂ تحریر میں نہیں آسکتی- وہ خلا ہے جو کبھی پر نہیں ہوسکتا- غموں کی وہ لہریں ہیںجو ساحل سے ٹکراٹکراکربھی پرسکون نہیں ہوسکتیں!آہ ایک کسک ! ایک ٹیس !


خدا بخشےمرحوم غفران خوب انسان تھے- شکل وصورت، رفتار وگفتار اور وضع قطع سے شرافت اور نیکی ظاہر ہوتی-بڑی شگفتہ اور باغ وبہار طبیعت کے مالک -مزاج میں نرمی اور بے تکلفی-معاملات میں حق گوئی وبےباکی-باہمی رنجشوںسے دور-دل آزاری سے پرے- طنز وطعن سے ناآشنا- بادوستان تلطّف بادشمناں مدارا کی عملی تفسیر !


نو دس برس کی مسلسل رفاقت -مختلف موضوعات پر لمبی لمبی ملاقات-کبھی علاقائی کبھی ملکی اور کبھی عالمی حالات پر تبصرے-ندوہ اور اہل ندوہ کے تذکرے-ماضی کی باتیں ، مستقبل کے منصوبے-کبھی آپ بیتی ،کبھی جگ بیتی-باتوں کا ایک تسلسل ہے، یادوں کا ایک دیوان ہے-امتداد وقت کے ساتھ کسک کم ہوجائے گی لیکن اب تویوں ہے جیسے کوئی نیند سے چونک پڑے اور دیر تک ایک خیال ذہن کے پنجرہ میں پھڑ پھڑائے،جب ہمیں کوئی صدمہ پہنچتا ہے تو یادوں کے چہرے ماضی کے دریچوں سے جھانک کر پریشان کرتے ہیں،وہ ایک دوست کی موت ہو یا رشتہ کی۔ 


غفران سے راقم کا بڑا گہرا یارانہ تھا-گھنٹوں مجلسیں جما کرتی تھیں-یادش بخیر! ہم استنبول میں تھے- سفر وحضرکے مسلسل تین ہفتے-تکلف کے ساتھ بے تکلفی- احساس خوردی کے ساتھ بہترین رفاقت-معاملات کی صفائی-باہمی تعاون وخیر خواہی- وہ بہترین دوست، بہترین ہم سفر تھا-وہ خوشگوار لمحے کتنے گریزپا تھے-ایک مستحکم دوستی کا پیش خیمہ جو تام دم واپسیں قائم رہا-استنبول ہماری امیدوں کا یکساں مرکزتھا -ابتدائے شوق کی لمبی ملاقاتیں-ہماری خوشی کی انتہا نہ تھی-ہمارا شوق ہمیں لیے پھرتا تھا جیسے ہمیں پَر لگ گئے ہوں-انتہائی بے فکری اور فارغ البالی کا زمانہ تھا- دو دوستوں کا ساتھ تھا-ہماری محفلیں جمتیں اور خوب جمتیں-کبھی قہوہ خانوں میں-کبھی باسفورس ساحل پر - کبھی مسجد محمد الفاتح کے سایہ میں تو کبھی ایاصوفیا کے نظاروں میں -مختلف مقامات، مختلف مناظر ، مختلف گفتگو- کبھی خلافت کا تذکرہ- کبھی ترکوں کی دینداری کا ذکر- کبھی تاریخی مقامات کی جستجو- کبھی استنبول کی صفائی ستھرائی-کبھی نظام حکومت- کبھی اپنے ملک پر ماتم- کبھی ترکی کےماضی کا مرثیہ-کبھی صدر کے کارنامے اور کبھی خلافت اسلامیہ کے نغمے!


 سچ پوچھو تو ہم خلافت کے تصورمیں ڈوبے ہوئے تھے اورنئی اسلامی حکومت میں بس جانے کی آرزومند تھے۔غفران کو شدت سے یہ فکر لاحق ہوئی، ترکی میں دوبارہ آنے کی فکر سوار ہوئی اور کسی یونیوسٹی میں داخلہ کی راہ سوجھی، کچھ رابطے بھی ہوئے ،کچھ کوششیں بھی ہوئیں،کچھ امیدیں بھی بنیںلیکن-ہاتھوں میں چائے کے فنجان اور آنکھوں میں مستقبل کے سنہرےخواب-ہم اس بھول میں تھے کہ یہی زندگی ہے- ہماری امیدیں -ہمارے خواب-ہمارے فیصلے-اِن کی کیا وقعت ہے؟ مجبور وبے حیثیت انسان کی کیا حیثیت ؟ہم منصوبے بناتے رہتے ہیں- اور-تقدیر کھڑمسکراتی رہتی ہے۔


کیا کیا باتیں اس کے سینے میںتھیں! کتنی ہی باتیں اس کے قلم سے صفحہ کاغذ پر آگئیں !کتنی ہی لوگوں کے حافظے میں بے تحریر پڑی ہیں - کتنی ہی ناگفتنی ہونے کے باعث محفلوں میں اڑتی پھرتی ہیں- اکثر گفتنی اور نا گفتنی وہ اپنے ساتھ قبر میں لے گیا۔


غفران خوش باش یار تھا-مزاج میں سنجیدگی اور قدرے حجاب تھا-خاندانی تربیت نے بہت محتاط بنایا تھا-لیکن جب بے تکلف دوستوں کا جمگھٹا ہوتا تو تکلف اور سنجیدگی کی بساط تھوڑی دیر کے لیے تہہ کرکے رکھ دیتا- مجلس میں ہر مزاج کے ساتھی ہوتے-بہتیرے موضوع چھڑتے- اس دور منافقت میں اہل سیاست پر طنز کے نشتر بھی چلتے- مذہبی قیادت کی اہلیت ونااہلیت بھی زیر بحث آتی-ندوہ کے بحران پر سرد گرم تبصرے بھی ہوتے-دوستوں کی بے رخی وبے مہری ہدف تنقید بھی بنتی-حسن کی حشر سامانیوں اور عشق کی وارداتیں بھی موضوع سخن ہوتیں لیکن خدا گواہ کہیں ابتذال و سطحیت کا رنگ نظر نہیں آتا ؎

جان کر منجملہ خاصان میخانہ تجھے مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ تجھے


آج جام وپیمانہ ہی نہیں سارا میخانہ زار زار ہے- وہ خاصۂ میخانہ بلکہ حاصل میخانہ اور میر میخانہ ہم میں نہیں رہا-اس غالب ِخوش خصال کی صورت ہم میں نہیں ہے مگر اس نقش پاکی شوخی ہماری زیست کے لیے حیات کا پیغام بنی رہے گی؎

خواب بن کر رہ گئی ہیں کیسی کیسی محفلیں

خیال بن کر رہ گئے ہیں کیسے کیسے آشنا


ذہنی غبار ہو یا اعصابی فشار-سفر درپیش ہو یا کوئی اور مصروفیت- ناسازی طبع ہو یا ناسازگار حالات-وہ سرسری ملاقات پر اکتفا نہ کرتا- علیک سلیک کی رسمی ملاقات سے وہ بہت دورتھا-اس سے جو بھی ملتا اسی کا ہو رہتا- تعلق میں اضافہ ہوتا- مگر تشنگی رہ جاتی-ہر چھوٹے بڑے سے اخلاص- ہر کہہ ومہ سے الفت-اپنے پرائے کی خیر سگالی -اتنی محبت اس کے دل میں کیسے سما آئی تھی! افسوس محبت کا اتھاہ سمندر خشک ہوگیا۔


جو کچھ اس کے پاس تھاعزیزوں اور دوستوں کے لیے وقف تھا- علمی صلاحیت- فارغ وقت- جسمانی طاقت-مال کی ضرورت-دوستوں اور عزیزوں کی خدمت ومدد تو ایک طرف-کبھی ایسا بھی ہوا کہ کسی دوست کا عزیز پہنچ گیا تو اس کے ساتھ بھی ہمدردی- ہر ممکن تعاون-شفقت واپنائیت کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا’’تم میرے دوست کے بھائی ہو تو میرے بھی ہوئے نا‘‘!


 ہتھورا کی روح پرور فضا-گھرانہ کے علمی وروحانی مشاغل- جدید وقدیم علوم کا مطالعہ-وہ عوامل تھے جو غفران کی شخصیت کے تشکیلی عناصر بنے-وہ حافظ ہوا-عالم دین کہلایا-مدرس قرآن ہوا-خادم حدیث بنا-استادوں کی توجہ کا مرکزرہا-بزرگوں کا صحبت یافتہ بنا-باپ کا فخروغرو-ماں کی آنکھ کا نور-بھائی کا دست وبازو-بہن کا دلار- بیوی کی روح کا سنگار- محفل دوستاں کی جان -الغرض انسان نما انسانوں کی بیچ میں ایک ہر دلعزیز انسان!


گرم جوشی اور خوش اخلاقی کہیے یا خندہ پیشانی-سب سے ہنس کے ملنا اس کی عادت تھی-فطرتاً رحم دل بلکہ رقیق القلب تھا-وہ دھیما تھالیکن نتائج وعواقب سے باخبر- حق بات کہنے کا عادی! لوگ جلب منفعت کے لیے دسیوں حیلے تراشتے ہیں، عمائدین کی دہلیز پر جبیں سائی کرتے ہیں-اس کے پاس ایسے مواقع کی کوئی کمی نہ تھی- خاندانی پس منظر کامیابی کی ضمانت تھی-لیکن وہ ریا کاری اور منافقت سے کوسوں دور تھا-ابن الوقتی کے اس دور میں ایسی نظیر مشکل سے ملے گی!


وہ جہد پیہم کو زندگی کا ایک ناگزیر حصہ سمجھتا-ہردم جواں پیہم رواں-علم سے کبھی سیری نہ ہوتی-مطالعہ پابندی سے ہوتا-بی اے پاس کیا ، ایم اے پاس کیا اور پھرسے ایم اے پاس کیا-پی ایچ ڈی زیر تکمیل تھی-تدریس میں ناغہ نہیں-تصنیف وتحقیق میں تساہل نہیں -طلباء کی رہنمائی سے گریز نہیں -دوستوں کی ضیافت میں کوئی کنی نہیں- بزرگوں سے استفادہ کا تسلسل-اس پر مستزاد لکھنؤ رائے بریلی کی روز آمد ورفت!


مرحوم نہ شعلہ بیاں خطیب تھےنہ بلند پایہ مقرر، مگر اپنی بات بڑے سلیقہ سے کہتے- لکھنؤ کی ایک مسجد میں بڑا مقبول درس قرآن تھا-رائے بریلی میں جمعہ کا امام اور خطیب تھا-لوگ استفادہ کرتے -اپنے دینی وخانگی مسائل میں مشورے کرتے- سچ پوچھو تو اپنی مقناطیسی شخصیت کے باعث ایک بڑا حلقہ اسیر کیے ہوئے تھا۔


وہ ایک شمع کی مانند تھا جو تیزی کے ساتھ جلا کی- یہ جانتے ہوئے کہ شمع پگھل رہی ہے ہم اس سیل ِنور کا نظارہ کرتے رہے- اس کی ضو سے انجمن کا گوشہ گوشہ مسکرا اٹھا تھا- ہمارا ندیم ہم سے روٹھ گیا-وہ بھرامیلہ چھوڑ گیا-ماہ وسال کی ریگ رواںشیشۂ ساعت سے پھسلتی رہے گی اور اپنے آنسو پی کر ہم آگے بڑھتے رہیں گے۔ زمانہ کی یہی ریت ہے - وقت ہماری عزیز متاع چھین کر آگے بڑھ جاتا ہے -جو کل تھا آج نہیں- جو آج ہے جانے کل نہ ہو۔


آہ اے دوست! تیری جدائی پر ہم سب غمگین ہیں- نگاہیں اشک بار اور دل زار زار ہیں -لیکن ہم وہی کہیں گے جس سے ہمارا رب راضی ہو: اناللہ وانا الیہ راجعون۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad