تازہ ترین

پیر، 9 نومبر، 2020

حافظ وسیم کی خود کشی-ایک دل دہلادینے والاسچاواقعہ-خود کشی کیوں کی-اسباب اورحل

آج تک ہم یہی سنتے آرہے تھے کہ  عصری تعلیم گاہوں کے فارغین ہی خودکشی کرتے ہیں۔مدارس اسلامیہ کے فارغین میں سےکسی حافظ، عالم کے بارے میں نہیں سنا تھا کہ اس نے حالات سے مجبور ہوکر خودکشی کی طرف قدم اٹھا لیا ہو۔لیکن آج یہ خبر سننے کو مل گئی کہ ایک حافظ صاحب نے حالات سے مجبور ہوکر خود کشی کرلی۔



یہ واقعہ شاملی کے ایک گاؤں گنگیرو کا ہے۔حافظ وسیم اسی گاؤں کے رہنے والے تھے۔شادی شدہ اور بچوں والے تھے پانچ بیٹے اورایک بیٹی کے باپ تھے۔ضلع باغ پت کے ایک گاؤں میں امامت کے فرائض انجام دے رہے تھے۔اوراسی تنخواہ سے ان کا گزر بسرہورہاتھا- لاک ڈاؤن کے دوران  وہاں کے ٹرسٹیوں نے امام صاحب کو یہ کہکرمعزول کردیاکہ ہمارے پاس آ پ کو دینے کیلئے تنخواہ نہیں ہے اسلئے آپ کوامامت سے سبکدوش کیاجاتاہے۔امام صاحب حافظ وسیم وہاں سے تشریف لے آئے  اوربال بچوں کے ساتھ اپنے گاؤں گنگیرو  رہنے لگے۔


یہاں کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا،اس لئے افلاس کےمہیب دیو نے ان کو ڈرانا اور خوف دلانا شروع کردیا۔ ادھر عزت نفس کی بنیاد پر انکامعاملہ  ایساتھاکہ کسی کے سامنے اپنی زبان نہ کھول سکے--------فاقوں پرفاقے اور حددرجہ محتاجگی نے جب انکوچاروں طرف سے گھیرلیانیز انہوں نے دیکھاکہ حالات انتہائ خراب ہو چکے ہیں اور بیماری نے بھی جکڑ رکھا ہے تو انھونے پھر یہ ناعاقبت اندیشانہ فیصلہ کرلیا کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہیں گے -


اس کے لئے انھوں نے پہلے اپنے بچوں کو باہر کسی کام سے بھیجا -پھر اپنی اہلیہ کو اپنے بھائ کے گھر کچھ سامان خورد و نوش آٹا وغیرہ لینے بھیجا کہ کچھ پکا کر کھالیں گے-جب سب چلے گئے تو انھوں نے پنکھے سے لٹک کرخود کشی کرلی- کمال یہ ہے کہ جس رسی کو اس کام کیلئے استعمال کیاتھا وہ اتنی مظبوط ہرگزنہیں تھی کہ اتنے بھاری بھرکم جثے کو سنبھال سکے !مگر موت کا وقت طے تھا اسلئے موت آگئی۔


یہ واقعہ حدسے زیادہ افسوس والم ناک ہے کہ مسجد کے ذمہ داروں نے مسجدسے نکالدیا اورپلٹ کربھی نہیں دیکھا۔ان کا یہ رویہ اوراس کے نتیجہ میں ہونے والا یہ حادثہ فاجعہ یقیناپورے سماج کے لئے کلنک ہے۔ 

دین اسلام انسانیت کی بنیاد پرلوگوں کی مدد اور تعاون کی ترغیب دیتا ہے۔اور کئی موقعوں پر تاکیدی انداز سے حکم دیتا ہے کہ ضرورت مندوں،  محتاجوں اور بے کسوں کی خبر گیری کی جائے ان کو تنہا نہ چھوڑا جائے۔لیکن افسوس کہ دین سے وابستہ افراد کے درمیان بھی آج یہ واقعہ پیش آگیااس سے پہلے کبھی اس طرح کاواقعے سننے کو  نہیں ملا۔


اسلام میں خودکشی حرام ہے اور اسلام کی نگاہ میں یہ ایک سنگین جرم ہے۔انسان کی جان اس کے پاس امانت ہے۔اسکو ضائع کرنے کا حق اس کو نہیں ہے۔عن أبي ھریرة رضي اللہ تعالی عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من تردی من جبل فقتل نفسہ فھو في نار جھنم یتردی فیھا خالدًا مخلدًا فیھا أبدًا․ الحدیث (مشکوٰة: ج۲، ص۲۹۹) 

حدیث مذکور میں خودکشی کی مختلف صورتوں کا ذکر فرماکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وہ جہنم میں ہمیشہ ہمیش رہے گا۔ اور اسی عذاب میں مبتلا رہے گا، جس عمل کے ذریعہ اس نے خودکشی کی ہے۔


 صاحب مرقاة المفاتیح لکھتے ہیں کہ اگر اس عمل کے ذریعہ خودکشی کو حلال سمجھتے ہوئے اس نے کیا ہے تب ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہنے کی سزا ہے یا خلود سے مراد طویل مدت ہے۔ اس لیے اگر مباح سمجھ کر نہیں کیا ہے تو امید ہے کہ اللہ تعالی اس کو معاف کردیں اور بعد سزا جنت میں داخل کردیں۔ یادماغی خلل اس کا باعث رہا ہو بھی معاف کردیں.


بہر حال گنگیرو ضلع شاملی میں یہ واقعہ پیش آیا جو بلکل سچا واقعہ ہے. حافظ وسیم مرحوم کے استاذ گرامی حافظ مستقیم نے اس کی وضاحت کرتے ہوے کہاکہ ایسا اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس طرح کا اقدام کر لیں گے.اس اندوہناک واقعہ سے ایک سبق یہ ملا کہ ہمیں کسی کے کپڑوں اور لباس کو دیکھ کر اس کے اندرونی حالات کا اندازہ نہیں ہوسکتا. بعض مرتبہ خوش پوشاک لوگ دوسروں سے زیادہ ضرورت مند ہوتے ہیں. 


اسی طرح ہمیں اپنے علماء حفاظ اور ائمہ کا مکمل خیال رکھنے کی ضرورت ہے. اس لاک ڈاون نے بہت سارے سفید پوشوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور وہ آج حالات میں جھوجھ رہے ہیں. ہمیں ایسے لوگوں کو تلاش کر کر کے ان کی مدد کرنی چاہیے-


9611021347مفتی خلیل الرحمٰن قاسمی برنی بنگلور

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad