تازہ ترین

پیر، 8 مارچ، 2021

بہار کے قلمکاروں نے بچوں کے ادب میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے:پروفیسر رئیس انور رحمن

’بہار میں بچوں کا ادب‘: المنصورایجوکیشنل ٹرسٹ کی جانب سے قومی سمینار کا انعقاد



دربھنگہ 8مارچ(نمائندہ)بہار میں بچوں کا ادب آج بھی زندہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ادبِ اطفال کو جدید عہد کے تقاضوں کے مطابق ڈھالا جائے۔ یہ باتیں عالمی شہرت یافتہ شاعر پروفیسر عبدالمنان طرزی نے المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ  کے زیر اہتمام ”بہار میں بچوں کا ادب“ موضوع پر سیمینار کے افتتاحی سیشن کے صدارتی خطاب میں کہیں۔پروگرام کا انعقاد ڈان باسکو اسکول(دربھنگہ) کے سمینار ہال میں کیا گیا تھا۔ 


اس موقع پر ٹرسٹ کے سکریٹری ڈاکٹر منصور خوشتر کی ترتیب کردہ کتاب ”بہار میں بچوں کا ادب:کل اور آج“ کا رسم اجراء بھی عمل میں آیا۔  افتتاحی سیشن کے مہمان خصوصی پروفیسر شاکر خلیق (سابق صدر شعبہئ اردو، ایل۔ این۔ ایم۔ یو، دربھنگہ) اور پروفیسر محمد آفتاب اشرف (صدر شعبہئ اردو، ایل۔ این۔ ایم۔ یو، دربھنگہ) رہے۔ مہمانان اعزازی سید احمد قادری، ڈاکٹر ریحان غنی، نذیر فتح پوری، حقانی القاسمی، فخر الدین عارفی رہے۔ کلیدی خطبہ پروفیسر رئیس انور رحمن (سابق صدر شعبہئ اردو، ایل۔ این۔ ایم۔ یو، دربھنگہ)نے دیا۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر عبدالحئی (سابق ایڈیٹر ”اردو دنیا“ نئی دہلی) نے انجام دیا۔پروگرام کا آغاز انور آفاقی کی تلاوت سے ہوا۔ تکنیکی سیشن شروع ہونے کے قبل پروفیسر عبدالمنان طرزی کی دو کتابوں ”میٹھی میٹھی نظمیں“ اور ”پیاری پیاری نظمیں“ کا رسم اجراء بھی عمل میں آیا۔


المنصورایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے سرپرست ایس ایم اشرف فرید نے کہا کہ ”بہار میں بچوں کا ادب“ ایک بہت ہی عمدہ اور دعوت فکر دینے والا عنوان ہے۔ تمام علما او ر دانشور اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ذہنی تربیت کے لئے ایام طفلی ہی بہترین عمر ہوتی ہے کہ جب شاخوں کی کونپلیں پھوٹتی ہیں تو ایک اچھا باغباں اسی وقت اس کی درستگی کی فکر کرتا ہے، کیونکہ و ہ ی بخوبی جانتا ہے کہ اس وقت شاخوں کو درست نہ کیا گیا اور ان میں کجروی آگئی تو پھر انہیں کبھی بھی درست نہیں کیا جاسکے گا۔ 


کلیدی خطبہ ادا کرتے ہوئے پروفیسر رئیس انور رحمن (سابق صدر شعبہ اردو، ایل این ایم یو دربھنگہ) نے کہا کہ بہار کے قلم کاروں نے بچوں کے لیے نظمیں، کہانیاں او مختصر اخلاقی اور معلوماتی مضامین لکھے ہیں۔ لکھنے والوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے سنجیدہ اور بالیدہ فکر کے لوگوں کے لئے زیادہ لکھا ہے اورکبھی کبھار بچوں کے لئے اپنی تخلیقی صلاحیت استعمال کی ہے، مگر جب بچوں کی نفسیات، ان کے معصوم مشاہدات اور ان کی چھوٹی چھوٹی بھولی بھالی تمنائیں شعری یا نثری ہیئت اختیار کرلیتی ہیں تو ان کی ستائش کئے بنا نہیں رہا جاسکتا۔ عبدالغفور شہباز، شبنم کمالی، ناوک حمزہ پوری، مناظر عاشق ہرگانوی، 



عبدالمنان طرزی، چند پٹوی، عطا عابدی، منصور خوشتر، جمیل اختر شفیق، انظار احمد صادق، کامران غنی صبا وغیرہ ایسے شاعر اور قلم کار ہیں جنہوں نے بچوں کی دلچسپیوں کا لحاظ رکھا ہے۔بہار کے قلمکاروں نے بچوں کے ادب میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے لیکن کمی صرف باضابطہ تنقید و تجزیے کی ہے۔ اس پر توجہ دی گئی تو بہار کے قلمکاروں کوادب اطفال میں مناسب مقام ملے گا۔ 

پروفیسر محمد آفتاب اشرف (صدر شعبہئ اردو، ایل این ایم یو دربھنگہ) نے کہا کہ اردو کے ادیبوں ادب اطفال کو موضوع بناکر بے شمار تحریریں قلم بند کی ہیں لیکن یہاں ایسے ادب کا فقدا ن ہے جو بچوں کی ذہنی عمر کے مطابق ایک تدریجی ارتقائی سفر کرتا ہو۔ اردوکے جن شاعروں اور ادیبوں نے ادب اطفال کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایا وہ شہرت و مقبولیت اور مبارک باد کے مستحق ہیں لیکن اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے جو ادب تخلیق کیا ہے وہ بچوں کے ذہنی ارتقا میں کس حد تک مفید ثابت ہورہاہے۔ بطورمہمان اعزازی حلقہئ ادب بہار کے جنرل سکریٹری اور معروف افسانہ نگار فخر الدین عارفی نے کہا کہ بہار میں بچوں کے ادب کی سنہری تاریخ رہی ہے۔


کبھی اس سرزمین سے ماہنامہ ”مسرت“ جیسا اہم اور خوبصورت رسالہ شائع ہوتا تھا۔ اس کے مدیر اعلیٰ ضیاء الرحمن غوثی ہوا کرتے تھے۔ بعد کے دنوں  میں یہ رسالہ ڈاکٹر خالد رشید صبا کی ادارت میں کافی دنوں تک شائع ہوتا رہا۔ آج  ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بچوں کے ادب پر توجہ دیں۔ نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے ڈاکٹرعبدالحی (اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو، سی ایم کالج دربھنگہ) نے کہا کہ بہار میں بچوں کے ادب کی روشن تاریخ رہی ہے۔ محمودالرحمن کے مطابق بہار میں بچوں کے ادب کے سلسلے میں پہلا نام شاہ عماد الدین پھلواروی کا آتا ہے۔



 انہوں نے اورنگ زیب عالمگیر کے دور حکومت میں ایک رسالہ ”سیدھا رستہ“تحریر کیا تھا۔ اس بارے میں اختر اورینوی نے بھی اپنی کتاب میں ذکرکیا ہے۔ تکنیکی سیشن کے صدور پروفیسر ظفر حبیب، پروفیسر سید احتشام الدین، خلیق الزماں نصرت، ایم۔مبین، خورشید حیات تھے۔ مہمانان خصوصی ڈاکٹر جمال احمد، ڈاکٹر عطا عابدی، ڈاکٹر مبین صدیقی، ڈاکٹر قیام نیر اورکامران غنی صبا تھے۔ تکنیکی سیشن سے قبل ملت کالج دربھنگہ کے صدر شعبہئ اردو ڈاکٹر عبدالرافع نے ڈاکٹر منصور خوشتر کی کتاب ”بہار میں بچوں کا ادب کل اورآج“ پر مفصل تبصرہ پیش کیا۔


انہوں نے کہا کہ بہار میں بچوں کے ادب کے تعین قدر کے لیے منصور خوشتر کی کتاب حوالے کے طور پر پیش کی جائے گی۔پرفیسر مناظر عاشق ہرگانوی نے آن لائن تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بہار کے حوالے سے اردو میں بچوں کے لئے جتنا ادب لکھا گیا ہے ان کے مطالعہ سے بچے یقینی طور پر مہذب، بااخلاق، صحت مند اور سلیقہ شعار بنتے ہیں، صحت و سیرت اور آداب و لحاظ کی کاوشیں ابھرتی ہیں اورمعاشرتی اقدارکا اثر نمایاں ہوتا ہے۔ حقانی القاسمی نے ادب اطفال کی تعیینِ قدر کے لیے قاری اساس تنقید کی طرح، طفل اساس تنقیدکی کو ضروری قرار دیا۔ سید احمد قادری نے بچوں کے ادب کو ڈیجٹیلائز کرنے پر زور دیتے ہوئے اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔سینئر صحافی ڈاکٹر ریحان غنی نے ماضی میں بچوں کے لیے نکلنے والے رسائل کو اپنی گفتگو کا موضوع بناتے ہوئے ادب اطفال کی اشاعت میں اخبارات و رسائل کی خدمات پر روشنی ڈالی۔


عطا عابدی نے بچوں کے لیے لکھنے والے قلم کاروں کی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بچوں کے لیے لکھنے والے بہت سارے قلم کاروں کی تخلیقات اخبارات و رسائل میں شائع ہو کر رہی گئیں۔ انہیں کتابی صورت میں شائع کیا جانا چاہیے۔ڈاکٹر قیام نیر نے کہا کہ خوشی کی بات ہے کہ بہار میں ہر طرح کی کہانیاں لکھی جارہی ہیں جو بچوں کی تعلیم و تربیت اور نشو و نما میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ ڈاکٹر احسان عالم نے کہا کہ بچوں میں جستجو کا مادہ ہوتا ہے۔


 اگر ہم ان کی اس نفسیات کو مدنظر رکھے تو بچوں کے لیے بہتر ادب لکھا جا سکتا ہے۔ڈاکٹر منصور خوشتر نے کہا کہ بہار میں ادب اطفال پر نثری حصہ کم لکھا گیا ہے لیکن موضوع کی خارجی اور داخلی شخصیت کے متعدد پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ شاعروں نے بھی تواتر سے عطر گل پھیلانے کی کوشش کی ہے جو ادب آموز ہے اور ان کی کارکردگی کے لئے جلوہ نما ہے۔ ڈاکٹر عارف حسن وسطوی نے کہا کہ دیریا سویریہ بات مان لی گئی کہ بچوں کے لیے لکھنا بڑوں کے لیے لکھنے سے زیادہ دشوارگزارہے۔جن فنکاروں نے اس محاذ پراپنا پرچم لہرا یاہے انھوں نے حقیقی معنوں میں فنکاری کا حق اداکردیاہے۔کامران غنی صبا نے کہا کہ ادب کا مطلب صرف شائع ہونے والا تخلیقی مواد نہیں ہے۔ آج کا زمانہ ٹکنالوجی کا ہے۔ جس طرح بڑوں کا ادب آج وسیع تناظر میں دیکھا جا رہا ہے، اسی طرح بچوں کے ادب پر بھی محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر غلام نبی کمار (مدیر سہ ماہی پنج آب) نے کہا کہ  جتنی اہمیت ہم بڑوں کے ادب کو دیتے ہیں۔


اگر بچوں کی ابتدائی سطح پر اچھی و مؤثر ذہنی،اخلاقی،سماجی اور نفسیاتی نشوونما ہو تو یقینی ہے کہ وہ مستقبل میں اپنے ملک اور قوم و ملت کے لیے مثالی کردار ثابت ہو سکتے ہیں۔ڈاکٹر ابرار اجراوی نے تکنیکی سیشن کی نظامت کی اور ادب اطفال کی موجودہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بہار میں بڑوں کے لیے تو اتنا کچھ لکھا جارہا ہے اور شعر وا دب اور تنقید و تحقیقی کی دنیا میں بہار سے بڑے نام ابھرے جن سے جہان ادب میں روشنی ہے۔ مگربچوں کے ادب کے حوالے سے بہار کی صورت حال نا گفتہ بہہے۔


مقالہ نگاروں میں ڈاکٹر عبدالحی، ڈاکٹر محمد شہنوا ز، صدر عالم گوہر، ڈاکٹر مجیر احمد آزاد، ڈاکٹر عالمگیر شبنم، ڈاکٹر عبدالودود قاسمی، ڈاکٹر مطیع الرحمن، ڈاکٹر عبدالمتین قاسمی، ڈاکٹر مستفیض احد عارف،، ڈاکٹر صالحہ صدیقی، مسرور صغری، ڈاکٹر منظر سلیمان، عرفان احمد پیدل، فردوس علی، ڈاکٹر وصی احمد شمشاد، ڈاکٹر محمد ارشد سلفی، ڈاکٹر ریحان احمد قادری، عارف اقبال نے بھی ادب اطفال کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بہار میں ادب اطفال کی موجودہ صورت حال پر اپنے بیش قیمتی مقالے پیش کیے۔

اس کے بعد ایک شعری نشست کا انعقاد کیا گیا ہے۔اس کی صدارت علاء الدین حیدر وارثی نے کی۔ نشست میں حیدر وارثی، اظہر نیر، کامران غنی صبا،جنید عالم آروری، انور آفاقی، منظر الحق منظر صدیقی، حسین منظر، منظر ریونڈھوی، نسیم اختر برداہوی، زماں برداہوی، عمر فاروق رحمانی، ڈاکٹر احسان عالم، ڈاکٹر مسرور صغریٰ، انعام الحق بیدار، ڈاکٹر منور راہی، مشتاق اقبال، م۔ سرور پنڈولوی اور مقصود رفعت وغیرہ شعراء نے سامعین کو اپنی غزلوں سے محظوظ کیا۔ 


سمینار اور مشاعرہ میں کثیر تعداد میں دانشورانِ ادب اور باذوق سامعین موجود تھے۔ پروگرام کو گوگل میٹ اور فیس بک کے ذریعہ براہ راست بھی نشر کیا گیا۔ ؎

منظر صدیقی:

نشانی سب پرانی ہوگئی ہے

عجب دل کی کہانی ہوگئی ہے

کتابوں میں پڑھا تھا جو بھی منظر

کہانی وہ پرانی ہوگئی ہے


عرفان احمد پیدل:

ملک کے ہر موڑ پر فولاد بیٹھا ہے

جدھر میں دیکھتا ہوں تو جلاد بیٹھا ہے


انام الحق بیدار:

میں اپنے شہر جو لوٹا طویل مدت پر

بہت اداس لگاگھر کا راستہ مجھ کو؎


منظر ریونڈھوی؎

ظلمت شب میں منظر کو جو صلہ دیتا ہے وہ

کچھ نئی شمعیں خیالوں میں جلا دیتا ہے وہ


حیدر وارثی

ایسادل سوز بیاں کیسے سناؤں ان کو

زخم دل تازہ ہوا کیسے بتاؤں ان کو


ڈاکٹر مسرور صغری

غریبوں اور درویشوں کی خاطر جو تھا اک گلشن

سخاوت کا وہی اک منظر ویران باقی ہے


مستا ق اقبال

راہ الفت کو دشوار کرتے ہیں لوگ

پہلے جیسا کہاں پیار کرتے ہیں لوگ


ڈاکٹر احسان عالم

ایک مجبور کے ہاتھوں کی دعا بن جاؤں 

حق میں بیمار کے تاثیر دوا بن جاؤں 

اس موقع پر سینکروں لوگ موجود تھے جس میں جے ڈی یو کے مہانگر صدر علی حسن انصاری، عون احمد، یعقوب امان اللہ (مظفرپور)، محمد تبارک (مدھوبنی)، ڈاکٹر محمد اسلم، ڈاکٹر محمد سالم، حامد انصاری، واصف جمال (مدھوبنی)، راجا خاں، نوشاد خاں، وسیم اختر، جاوید اختر، نسیم برداہوی کے علاوہ سینکروں لوگ شامل تھے۔ پروگرام کے کامیاب انعقاد میں محمد شمشاد،المنصور ٹرسٹ کے اراکین کافی سرگرم رہے۔ 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad