تازہ ترین

پیر، 19 اپریل، 2021

دو جواں سال صحافی چل بسے

 

دو جواں سال صحافی چل بسے


دو جواں سال صحافی چل بسے

ایک منٹ کا کالم

از: آفتاب اظہرؔ صدیقی

رات ۱۲؍ بجے ہمارے استاذ محترم مولانا نظر الاسلام صاحب کا فون آیا تو آنکھ کھل گئی، اتنی رات گئے کسی کا فون آنا اکثر کسی انہونی خبر کے لیے ہوا کرتا ہے، انہوں نے دریافت کیا ’’قاری نسیم منگلوری کا انتقال ہوگیا کیا؟‘‘ میں نے کہا: معلوم نہیں، فرمایا تصدیق کرکے بتاؤ دو طرح کی خبریں مل رہی ہیں، میں نے فوراً مولانا رئیس احمد عرشی کلیری صدر انجمن تحفظ ناموس صحابہؓ منگلور کو فون کیا: تصدیق ہوئی کہ ہاں خبر درست ہے ابھی کچھ دیر قبل دہرادون کے جولی گرانٹ ہسپتال میں ان کا انتقال ہوگیا ہے، میں نے استاذ محترم کو تحقیقی خبر بتائی، اتنے میں دوسرے استاذ محترم مفتی عنایت اللہ صاحب قاسمی کا واٹس ایس میسج ملا، وہ بھی حیرت سے تصدیق مانگ رہے تھے، میں نے کہا :جی! مصدقہ خبر ہے۔ انہوں نے جواب میں لکھا کہ میری تو نیند اڑ گئی، حقیقت میں نیند میری بھی اڑ گئی تھی، قاری نسیم منگلوری صاحب اتراکھنڈ کے معروف صحافی تھے، انہوں نے ’’راشٹریہ سہارا‘‘ سمیت کئی اہم اخبارات میں صحافتی خدمات انجام دی ہیں، وہ کئی ملی، سماجی اور رفاہی تنظیموں سے منسلک تھے، کچھ عرصے قبل ہی وہ ’’تنظیم ائمہ مساجد منگلور‘‘ کے ترجمان منتخب ہوئے تھے، منگلور میں ان کا اپنا اسکول اور مدرسہ تھا، وہ بڑے خلیق اور نرم مزاج انسان تھے، مذہبی اور سیاسی رہنماؤں سے ان کے اچھے روابط تھے، مجھے منگلور میں چھ سات سال کا عرصہ رہنے کا اتفاق ہوا، طالب علمی سے لے کر امامت اور مدرسی تک کا زمانہ منگلور میں گزرا، وہاں رہتے ہوئے قاری نسیم صاحب سے برابر ملاقاتیں رہیں، وہ ایک قدر دان اور قابل قدر شخصیت کے حامل تھے، وہ اچھے صحافی ہونے کے ساتھ ایک اچھے شاعر بھی تھے ان کی نعت و منقبت اور غزلیں منگلور کی ادبی نشستوں کا حصہ ہواکرتی تھیں۔اچانک ان کے انتقال کی خبر سے بڑی بے چینی ہوئی۔ منگلور سے آنے کے بعد مجھے منگلور کی چار موتوں نے بڑا صدمہ دیا جن میں ایک قاری شہزاد مرحوم جو عیدگاہ والی مسجد کے امام تھے، دوسرے حافظ مرسلین صاحب جو لالباڑہ کی مسجد میں امام اور تنظیم ائمہ مساجد کے صدر تھے، تیسرے حافظ عثمان ٹانڈہ بنہیڑہ جس نوجوان حافظ قرآن نے کچھ روز میرے پاس عروض پڑھا تھا اور چوتھے قاری نسیم منگلوری صاحب جن کی اچانک رحلت کی خبر نے سوگوار کردیا۔ اللہ پاک ان حضرات کی بخشش کے فیصلے فرماکر انہیں جنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے۔ 

آج ظہر کے بعد مولانا شمیم ریاض ندوی محرک مجلس علمائے ملت خاکسار کی دکان پر تشریف لائے، میں ابھی انہیں قاری نسیم منگلوری کے انتقال کی خبر سناکر فارغ ہی ہوا تھا کہ وہ اپنا فیس بک دیکھنے لگے، دیکھتے کیا ہیں کہ ملت ٹائمس کے ایڈیٹر شمس تبریز قاسمی نے مفتی اعجاز ارشد قاسمی کے انتقال کی خبر شائع کی ہے، انہوں نے موبائل میری طرف کیا، ہم دونوں سکتے میں رہ گئے، انہوں نے دہلی میں کئی جگہ فون کیا، معلوم ہوا کہ مفتی اعجاز ارشد قاسمی کو ایسے ہسپتال میں لے جایا گیا تھا جہاں سے کورونا وبا کے بعد کوئی مولوی بچ کر واپس نہیں آیاہے۔ مفتی اعجاز ارشد قاسمی ایک باصلاحیت عالم دین، قلم کار، مصنف، ادیب اور بہترین مباحث تھے، ٹی وی چینلوں کے ڈبیٹس میں ان کی جرأت مندانہ بحث قابل دید ہواکرتی تھی، وہ اپنے آپ میں ایک انجمن تھے، انہوں نے بہت کم عرصے میں شہرت و مقبولیت کا وہ درجہ حاصل کرلیا تھا جہاں تک پہنچنے میں عمریں بیت جاتی ہیں۔ اللہ پاک ان کے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ فرمائے اور ان کا ٹھکانہ جنت بنائے۔ آمین!

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad