تازہ ترین

جمعہ، 9 اپریل، 2021

گیان واپی مسجد میں آثار قدیمہ کے سروے کا وارانسی عدالت کاحکم، امن وامان اور حکمرانیئ قانون کے لئے خطرہ: پاپولر فرنٹ

 وارانسی(یواین اے نیوز 9اپریل2021)پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی قومی مجلس عاملہ (این ای سی) کے ذریعہ پاس کردہ قرارداد میں وارانسی ضلعی عدالت کے اس حکم کو مذہبی اقلیتوں کے آئینی حقوق پر سنگھ پریوار کے حملوں کو مزید بڑھاوا دینے والا بتایا گیا ہے، جس میں عدالت نے محکمہ آثار قدیمہ (اے ایس آئی) کو گیانواپی مسجد کا سروے کرنے کے لئے کہا ہے۔ عدالت کے اس حکم میں بابری مسجد حق ملکیت معاملے میں دئے گئے سپریم کورٹ کے اصول کو بھی نظرانداز کر دیا گیا ہے، جس میں پانچ رکنی بنچ نے واضح طور پر یہ کہا تھا کہ اے ایس آئی کے ذریعہ آثار قدیمہ کی تحقیقات کو کسی بھی ملکیت کے معاملے میں قانون کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔



عدالت کا حکم مذہبی مقامات (خصوصی شقوق) قانون، 1991 کے بھی خلاف ہے، جس میں15 اگست 1992 کو جو بھی عبادتگاہ جس حالت میں ہے، اس کی اسی حالت کو برقرار رکھنے اور اس کی حفاظت کرنے کی بات کی گئی ہے۔ اس قانون کو اجودھیہ معاملے پر سپریم کورٹ کے 2019 کے فیصلے میں بھی دہرایا گیا ہے۔ یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ مندر کے دعویداروں کے ذریعہ وارانسی ضلعی عدالت میں دی گئی عرضی کے خلاف دائر کردہ اپیلیں ابھی الٰہ آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر، پاپولر فرنٹ نے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے اس حکم کو کالعدم قرار دینے کی اپیل کی ہے، جو کہ قانون اور عدالت دونوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔


اس فیصلے کو موجودہ رجحانات کے ساتھ ملا کر پڑھنا چاہئے، جن میں مسلم عبادتگاہوں اور اعمال کے خلاف سنگھ پریوار کا پرتشدد تفریقی ایجنڈہ شامل ہے۔ ایسا معلوم پڑتاہے کہ گیانواپی مسجد سے متعلق عدالت کی حالیہ پیش رفت بابری مسجد کے ساتھ سنگھ پریوار کے اقدامات کی ہو بہو نقل ہے، کیونکہ وہاں بھی ہندوتوا خیمے نے سب سے پہلے متنازعہ زمین پر آثار قدیمہ کے سروے کا عدالتی حکم حاصل کیا تھا۔


اس سیاق میں، عدالت کی جانب سے اے ایس آئی ٹیم میں اقلیتی طبقے کے دو افراد کی شمولیت کو اس گھناؤنی حرکت میں تھوڑی معتبریت پیدا کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جانا چاہئے، جس سے صرف اور صرف آر ایس ایس کے ایجنڈے کو فروغ ملتا ہے۔ یہ ایک دکھ بھری حقیقت ہے کہ شہید بابری مسجد کی زمین پر رام مندر تعمیر کرنے کی اجازت دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے نے کئی اعتبار سے ہندوتوا طاقتوں کو حوصلہ دینے کا کام کیا ہے کہ وہ کاشی اور متھرا کی مسجدوں جیسی دیگر مسلم عبادتگاہوں پر قبضے کے لئے جارحانہ انداز میں اپنی مہم کو آگے بڑھائیں۔ سنگھ پریوار کے پاس شہید کی جانے والی ایسی متعدد مساجد کی فہرست ہونے پر عدلیہ کی جانبداری سیکولر بھارت کے لئے سنگین خطرات پیش کر رہی ہے، جن مساجد کے بارے میں سنگھ پریوار کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کے نیچے قدیم مندروں کے ڈھانچے موجود ہیں۔


پاپولر فرنٹ کا یہ ماننا ہے کہ بابری مسجد کی دوبارہ تعمیر ملک میں سیکولرزم کی بحالی کی جانب پہلا قدم ہے۔ انصاف کی بحالی کی اس طویل جدوجہد میں پیش پیش رہنے کی حیثیت سے، ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ اب مزید بابری کی شہادت نہیں ہونے دیں گے۔


پاپولر فرنٹ عدالت عظمیٰ سے اپیل کرتی ہے کہ وہ فوری مداخلت کرتے ہوئے ملک کی اقلیتی برادریوں کی مذہبی آزادی اور ان کے مذہبی مقامات پر جاری ان ہندوتوا حملوں اور اقدامات پر روک لگائے۔ عدالت کا یہ فیصلہ اکثریتی برادری کے مختلف طبقات اور سیاسی جماعتوں کا اصل امتحان ہوگا کہ وہ وارانسی ضلعی عدالت کی اس مداخلت کی وجہ سے آئے سماجی و سیاسی بحران پر کس ردّعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہم مسلم سماج اور اس کے لیڈران سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ سنگھ پریوار کے ان شیطانی منصوبوں کے مقابلے میں مضبوطی سے کھڑے ہوں اور ان پر سوال اٹھائیں۔


ایک دوسری قرارداد میں، این ای سی نے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (این سی پی یو ایل) کی جانب سے آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کی کتاب کے اردو ترجمہ کے اجراء کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ یہ بڑی حقیر بات ہے کہ ایک حکومتی ادارے کا استعمال ایک فسطائی تنظیم کے سربراہ کے لیکچر اور تقریروں کو فروغ دینے کے لئے کیا جا رہا ہے۔ یہ کتاب اردو زبان میں اس لئے شائع کی جا رہی ہے کہ تاکہ یہ مسلمانوں کے بیچ میں بھی زیادہ سے زیادہ پہنچے، جس میں ایسے زہریلے خیالات ہیں کہ ہر ہندوستانی کو خود کو ہندو سمجھنا چاہئے اور ملک کی تعمیر کے لئے ان کو ”آر ایس ایس کی شاکھاؤں“ سے جڑنا چاہئے۔


ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومتی مجالس اس قسم کے تفریقی اقدامات سے پیچھے رہیں جن سے ہندوتوا نظریے کو فروغ ملتا ہے اور مسلم سماج موجودہ ہندوتوا حکومت کے ان تاناشاہی رجحانات کا بائیکاٹ کرتے ہوئے ان کی مخالفت میں باہر آئیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad