تازہ ترین

ہفتہ، 30 جولائی، 2022

اشاعتِ اسلام اور مذہبی رواداری!


اشاعتِ اسلام اور مذہبی رواداری! 

محمد ابوبکر عابدی قاسمی ندوی 
 موبائل نمبر : 8271507626
اسلام ایک آفاقی و عالم گیر مذہب ہے، جس کی جملہ تعلیمات نہ صرف مسلمانوں کے لئے بل کہ پوری انسانیت کے لئے امن وامان کی ضامن ہیں، اسلام میں جہاں ایمان و یقین، زہد و تقویٰ، عفت و پاک بازی، شرم و حیا، تزکیہ نفس اور عدل وانصاف کی ترغیب ہے وہیں تمام رزائل سے دور رہنے کی بھی تعلیم ہے ۔ اس لیے روز اول سے ہی اسلام کی روشنی اتنی تیزی پھیلی کہ دنیا والے حیرت میں پڑگئے، 


جس کی وجہ سے معاندین اسلام اپنے قلب و جگر میں نفرت و عداوت کے شعلے کو چھپاکر پروپیگنڈہ کرتے ہوئے یہ اعلان کرنا شروع کردیا کہ مذہب اسلام بزورِ شمشیر پھیلا ہے؛ لیکن جب ہم تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں تو تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اسلام بزورِ شمشیر نہیں بل کہ مکارم اخلاق سے پھیلا ہے ۔ 

ہجرت سے قبل اسلام کی تبلیغ روز اول سے ظلم و زیادتی، جبر وتشدد اور زبردستی کے جس معاندانہ ماحول میں ہوئی وہ انسانی تاریخ کی دردناک و تابناک مثال ہے۔ 


اسلام کا آغاز مظلومیت، بےچارگی اور بے بسی سے ہوا، قریش اور یہود ونصاریٰ سب مخالف تھے، اسی لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم ہوا کہ پہلے اس کا آغاز اپنے گھر سے نرمی کے ساتھ کیجیے اور اگر وہ نہ مانیں تو ان سے اعراض کیجیے بل کہ ان کو اپنے حال پہ چھوڑ دیجیے، جیسا کہ اللہ پاک نے اپنی مقدس کتاب میں ارشاد فرمایا " وأنذر عشيرتك الأقربين " ( شعراء :11) چنانچہ سب سے پہلے حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا ایمان لائیں، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ شرف حاصل ہوا، اس کے بعد آپ کے غلام زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی حلقہ بگوش اسلام ہوئے، اور قریش کے سردار میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیقؓ آپ کے گرویدہ ہوئے ۔ یہ سب ابتداء اسلام میں بغیر زور زبردستی کے اسلام لانے والوں میں سے ہیں ۔ 


اس طرح تین سال تک خفیہ طور پر اپنے اوپر ظلم و ستم سہہ کر اور طرح طرح کی پریشانیوں کو برداشت کرکے مکہ کی گلی کوچوں میں تبلیغ کرتے رہے، پھر جب حضرت عمرؓ اور ان کے گھر والے مشرف بہ اسلام ہوئے تو اسلام کی قوت بڑھی، اور مسلمان کھلم کھلا عبادت کرنے لگے، جس سے غیر مسلموں کا اشتعال مزید بڑھ گیا؛ 

جس کی وجہ سے ان لوگوں نے بنو ہاشم کا مقاطعہ شروع کردیا، جس سے پریشان ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجبوراً گھر بار چھوڑ کر اپنے فدائیوں کے ساتھ تین سال تک شعب ابی طالب کی گھاٹی میں پناہ گزیں رہے، تین سال بعد اپنے گھر واپس تشریف لائے، پھر آپ مکہ مکرمہ سے باہر نکل کر تبلیغ کے لئے زید بن حارثہ کے ساتھ طائف تشریف لے گئے؛ جس کی درد بھری داستان سے تمام اہل علم واقف ہیں ۔ ادھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کفار و مشرکین کے مظالم سے تنگ آکر حضور اکرم کے حکم سے حبشہ ہجرت کرگئے، ان ناساز گار حالات میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ جاری رہی اور رفتہ رفتہ بنو ہاشم، موالی بنو ہاشم، بنو عبد شمس وغیرہ کے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا، ان کو مختصر طریقے سے دہرانے کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ ہمارے قارئین کے سامنے حقیقت حال واضح طور پر سامنے آجائے کہ ظالم و جابر اور عدم روادار کون تھا اور کون مظلوم و مجبور اور روادار تھا ؟  

ہجرت کے بعد جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لے گئے، تو قریش مکہ نے مدینہ منورہ کو برباد کرنے کا عزم مصمم کرلیا، تو اس وقت مسلمانوں کے نیام سے تلواریں ضرور نکلی تھیں؛ مگر یہ ساری لڑائی ان دشمنوں کے خلاف تھیں جو حملہ آور ہوکر اسلام اور مسلمانوں کا استیصال کرنا چاہتے تھے ۔ سنہ 2 ہجری میں سب سے پہلی جنگ "جنگ بدر " واقع ہوئی، جس میں مسلمانوں کو بے مثال فتح حاصل ہوئی ۔


 جنگ بدر کے خاتمہ کے بعد دشمنانِ اسلام اسیرانِ جنگ بن کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان کے ساتھ جو سلوک کیا وہ نفس و رواداری کی اعلیٰ مثال ہے، ان اسیرانِ بدر کو اسلام قبول کرنے کی زبردستی کی جاسکتی تھی اور اگر یہ لوگ اسلام قبول نہ کرتے تو ان کو قتل کیا جا سکتا تھا مگر آپ نے ایسا نہیں کیا ۔


 بدر کی جنگ میں شکست سے دوچار ہونے کے بعد کفار قریش میں انتقامی جذبات اور بھی ابھر گئے اور ان کا دل آتشِ انتقام سے شعلہ زن ہوگیا؛ جس کے سبب سنہ 3 ہجری میں جنگ احد کا واقعہ پیش آیا، اس جنگ میں غیر مسلم عورتوں نے مسلمان شہداء کے ناک کان کاٹ کر ان کا ہار بنا کر پہنی، آخر یہ غیر مسلم کس مذہب کے پابند تھے؟ یہ سفاکانہ سلوک ان کے مذہب کی کس تعلیم پہ محمول کیا جائے؟ اس کے مقابلے میں رسول اکرم کا جو اسوہ اس جنگ میں رہا وہ انسانیت کے سنوارنے کے لئے پیام ہے ۔ کچھ دنوں بعد سنہ 5 ہجری میں غزوہ خندق کا واقعہ پیش آیا، اس لڑائی میں کفار کی بہت سی عورتیں گرفتار ہوئیں؛ جو مسلمانوں میں تقسیم کردی گئیں، ان میں سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کرلیا، جس کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے کہنا شروع کیا کہ بنی المصطلق تو اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سسرالی رشتہ دار ہوگئے ہیں؛ اس لیے جو لونڈی اور غلام جس کے پاس ہو آزاد کردے، 


چنانچہ محض اس شادی کی وجہ سے سو سے زائد آدمی آزاد کردیے گئے، یہ بھی رواداری کی ایک عمدہ مثال ہے ۔ اسی طرح سنہ 6 ہجری میں صلح حدیبیہ کا واقعہ رونما ہوا، جس میں سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی رواداری، بردباری اور فراخ دلی کی بہترین مثال موجود ہے جس کا نمونہ مشکل سے کسی اور تاریخ میں مل سکتا ہے ۔ 
 
فتح مکہ : جب سنہ 8 ہجری میں غزوہء موتہ کے بعد سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم فاتحانہ شان سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو اس وقت آپ کے سامنے قریش کے وہ تمام سرکش موجود تھے جنہوں نے آپ کی ایذا رسانی، قتل و غارت گری اور مسلمانوں کی خون ریزی، اور آبرو شکنی میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی تھی، لیکن مکہ میں فاتحانہ طور پر داخل ہوتے ہی آپ نے پنے لشکر کو حکم دیا کہ جب تک کوئی شخص خود ان پر حملہ آور نہ ہو وہ کسی پر تلوار نہ اٹھائیں، اور جو شخص حرم میں چلا جائے یا ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے لے اس کی جان اور آبرو محفوظ رہے گی،



 لہذا اس رواداری پر عمل بھی ہوا، چنانچہ اس موقع پر تمام مفاخر سارے انتقامات اور خون بہائے قدیم آپ کے قدموں کے نیچے تھے؛ مگر آپ نے سب کو نظر انداز کرکے قریش کو اس طرح مخاطب فرمایا کہ جاہلیت کا غرور، نسب کا افتخار خدا نے مٹا دیا، تمام انسان آدم کی نسل سے ہیں اور آدم مٹی سے بنے ہوئے تھے، اللہ کے نزدیک شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہے، جب آپ نے مجمع کی طرف دیکھا تو جباران قریش سامنے تھے، ان میں وہ بھی تھے جن کی زبانیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر گالیوں کے بادل برسایا کرتی تھیں، 


وہ بھی تھے جن کی تشنہ لبی خونِ نبوت کے سوا کسی چیز سے بجھ نہیں سکتی تھی؛ لیکن حبیب خدا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر اپنی رواداری، فراخ دلی اور انسان دوستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چند اشخاص کے  علاوہ سبھوں کو " لا تثريب عليكم اليوم " کا مژدہ سنا کر تاریخ میں ایک مثال قائم کردیا، جس کا نمونہ ملنا انتہائی مشکل بل کہ ناممکن ہے ۔ الغرض آپ نے جتنی جنگیں لڑیں سب مدافعانہ اور حفاظتی تدابیر کے لئے تھیں ۔  

قارئین کرام! ایک قدم اور آگے بڑھائیے اور ایک نظر عہد فاروقی پر ڈالیے تو آپ دیکھیں گے کہ اسلامی مجاہدین نے قبول اسلام کے لئے کبھی کسی کو مجبور نہیں کیا، بل کہ سب کو مذہبی آزادی کا پروانہ دیا ۔ تاریخ کے صفحات میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا وہ امان جو اپ نے فتح بیت المقدس کے موقع پر عیسائیوں کو دیا تھا اج بھی ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے ۔ " کہ ان کے گرجاؤں میں نہ سکونت کی جائے، نہ ان کو ڈھایا جائے، نہ ان کو نقصان پہنچایا جائے، نہ ان کی صلیبوں اور مالوں میں کچھ کمی کی جائے اور نہ ان پر مذہب کے بارے میں جبر کیا جائے " آپ کا یہ فرمان بھی رواداری کی ایک زندہ و جاوید مثال ہے ۔ 


تھوڑا اور آگے نگاہوں کا سفر طے کیجیے! فاتح بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبی نے فتح بیت المقدس کے موقع پر نہ صرف بیت المقدس کو خون خرابے سے بچایا بل کہ تمام عیسائیوں کو خیر و عافیت کے ساتھ نکل جانے کا حکم بھی دیا تھا؛ اسی رحم دلی سے متاثر ہوکر " لین پول " نے لکھا ہے کہ وہ جلالت و شہامت میں یکتا اور بے مثال شخص تھا ۔ 

مذکورہ بالا تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ قبول اسلام میں کوئی زور زبردستی نہیں، كما قال الله تعالى في كلامه المجيد " لا إكراه في الدين " ( سورة البقرة : 256) اس آیت کے ضمن میں حضرت مولانا عبد الماجد دریابادی رحمہ اللہ " تفسیر ماجدی " میں رقم طراز ہیں کہ دین کا تعلق قلب سے ہے اور قلب پر جبر و اکراہ کی گنجائش نہیں؛ گویا یہاں اس حقیقت کا اعلان ہے کہ ایمان کا تعلق اپنے ارادہ و اختیار سے ہے جبر و اضطرار پر نہیں ۔


 چنانچہ اس تحریر سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں وآشکارا ہوگئی کہ اسلام کا چراغ ظلم و ستم اور جبر وتشدد کے تیل سے روشن نہیں ہوا ہے بل کہ اس میں اخلاق حسنہ کا روغن ڈالا گیا ہے، اوراگر کوئی اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے گریز کرے تو یہ اس کا مذہبی تعصب ہے یا پھر اسلام کی تعلیمات سے ناواقفیت اس کے بیچ میں حائل ہے یا وہ غلط رائے قائم کرنے کی منفیانہ ذہنیت میں مبتلا ہے ۔


 اخیر میں یہ دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو اسلام کا صحیح ترجمان بنائے اور کاش غیروں کو اسلام کا صحیح نقشہ سمجھ میں آجائے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad