تازہ ترین

بدھ، 10 اگست، 2022

موت اس كى ہے كرے جس پر زمانہ افسوس حضرت مولانا حافظ قمر الدين صاحب کا سانحہ ارتحال

موت اس كى ہے كرے جس پر زمانہ افسوس
 حضرت مولانا حافظ قمر الدين صاحب کا سانحہ ارتحال

  از قلم :عبيد الله شميم قاسمى

سنی حکایت ہستی تو درمیان سے سنی
نہ ابتداء کی خبر ہے نہ انتہا معلوم

  آج 10/اگست 2022ء بروز بدھ مختلف واٹسپ گروپ كے ذريعے یہ المناک اطلاع ملی کہ  شيخ الاسلام حضرت مدنى نور الله مرقده كے شاگر علاقہ جون پور كى بافيض شخصيت حضرت مولانا حافظ قمر الدين صاحب اس دار فانی سے دار آخرت کی طرف رخصت ہو گئے، إنا لله وإنا إليه راجعون إن لله ما أخذ وله ما أعطى وكل شيء عنده بأجل مسمى فلتصبر ولتحتسب.


 موت کی حقیقت کچھ بھی ہو لیکن یہ زندوں اور مردوں کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دیتی ہے، اور اسی وجہ سے موت پر غم ایک فطری امر ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! آپ بھی رو رہے ہیں تو آپ نے فرمایا: یہ تو رحمت ہے، کسی کی موت پر آنسو جاری ہونا اور غم کا ہونا یہ فطری چیز ہے، 

اس پر انسان کا اختیار نہیں ہوتا، مگر مسلمان کا غم دنیا کی تمام دوسری قوموں کے غم سے مختلف ہے، اس لئے کہ مسلمان اس کائنات اور کائنات سے ماوراء کے متعلق ایک خاص نظریہ اور تصور رکھتا ہے ،وہ موت کو زندگی کا خاتمہ نہیں سمجھتا ،بلکہ ایک نئی زندگی کا آغاز سمجھتا ہے ۔


لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
اور وہاں چلے گئے جہاں باری باری ہم سب کو وقت متعین پر جانا ہے ۔ کیوں کہ خلاق ازل نے اس دنیا کا نظام کچھ اس طرح بنایا ہے کہ کل نفس ذائقة الموت( ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے) کی حقیقت ہر ایک پر صادق آکر رہے گی، اس سے کوئى بھی فرد بشر حتی کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی ذات بھی مستثنٰی اور علحدہ نہیں ہے ۔

موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے

مشہور ادیب اور شاعر ماہر القادری صاحب مرحوم نے اپنی کتاب "یاد رفتگاں" میں ایک جگہ موت اور زندگی کے حوالے سے لکھا ہے :


فروغ شمع تو باقی رہے گا صبح محشر تک
مگر محفل تو پروانوں سے خالی ہوتی جاتی ہے


اس عالم کون و فساد میں موت ہر جان کے ساتھ لگی ہوئى ہے ۔ اللہ تعالٰی کی ذات کے سوا ہر شئ فانی اور آنی جانی ہے ،احتیاج اور فنا مخلوق کی صفت ہے، آدمی کوئی شک نہیں خلاصئہ کائنات اور اشرف المخلوقات ہے مگر وہ ضعیف البیان بھی تو ہے ۔
حکایت ہستی کے دو ہی اہم واقعات ہیں، پیدائش اور موت، موت وحیات کا فلسفہ کائنات کے دوسرے اسرار کی طرح اب تک لا ینحل ہے ۔


حضرت مولانا قمر الدين صاحب رحمہ الله  جو علمى حلقوں ميں مولانا سے زياده حافظ كے نام سے مشہور تھے، ان  ميں الله رب العزت نے بہت سى خصوصيات وديعت فرمائى تھيں، وه ايك عالم ربانى تھے، بزرگوں كى روايات كے امين، علماء وصلحاء سے محبت كرنے والے، طالبان علوم نبويہ پر اپنا جان نچھاور كرنے والے تھے۔

حافظ صاحب كى پورى زندگى "طوبى لمن طال عمره وحسن عمله" كا  مصداق تهى، آپ نے ايك طويل عمر پائى اور مختلف كار خير ميں پورى زندگى صرف كى۔


حافظ صاحب نے تقريبا نوے سال عمر پائى اور آپ  کی پوری زندگی اس حدیث کا نمونہ تھی جو حضرت عثمان رضى الله عنہ سے مروى ہے اور مسند احمد ميں موجود ہے ، صاحب مجمع الزوائدعلامہ ہيثمى نے اس حديث كے ايک راوى كو ضعيف قرار ديا ہے مگر يہ حديث  مختلف طرق سے روايت كى گئى ہے:  


عَنْ عُثْمَانَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "الْعَبْدُ الْمُسْلِمُ إِذَا بَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً خَفَّفَ اللَّهُ حِسَابَهُ، وَإِذَا بَلَغَ سِتِّينَ سَنَةً رَزَقَهُ اللَّهُ الْإِنَابَةَ إِلَيْهِ، وَإِذَا بَلَغَ سَبْعِينَ سَنَةً أَحَبَّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ، وَإِذَا بَلَغَ ثَمَانِينَ سَنَةً ثَبَّتَ اللَّهُ حَسَنَاتِهِ وَمَحَا سَيِّئَاتِهِ، وَإِذَا بَلَغَ تِسْعِينَ سَنَةً غَفَرَ اللَّهُ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ، وشفَّعه اللَّهُ فِي أَهْلِ بَيْتِهِ، وَكُتِبَ فِي السَّمَاءِ: أَسِيرَ اللَّهِ فِي أَرْضِهِ". (مسند أحمد: 21/12، رقم: 13279).

اس حديث ميں ہے كہ جب بنده نوے سال كو پہنچ جاتا ہے تو الله تعالى اس كے اگلے اور پچھلے گناه معاف فرماديتا ہے اور اس كے گھر والوں كے حق ميں اس كى سفارش كو قبول فرماتا ہے۔
 

 حافظ صاحب كى كن خوبيوں كو بيان كيا جائے وه ايک جامع الصفات شخصيت كے مالك تھے، صاحب دیوان حماسہ نے باب المراثی میں یہ شعر نقل کیا ہے:
لعمرک ما واری التراب فعاله
ولکنه واری ثیابا و أعظما


(خدا کی قسم مٹیاں صرف اس کے جسم و پیرہن کو چھپا سکیں گی ان کے زریں تابندہ اور درخشاں کارنامے مرور ایام کے ساتھ اور روشن ہوتے چلے جائیں گے)۔


 مکارم اخلاق موت کی وجہ سے دفن نہیں ہوتے، بلکہ وہ لوگوں میں پھیلے ہوتے ہیں، اور کبھی بھی فراموش نہیں ہو سکتے، اور اس کے کارنامے زمانہائے دراز گزرنے پر بھی لغو نہیں ہوتے بلکہ لوگ ہمیشہ یاد رکھتے ہیں،


کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ "العلم حي خالد بعد موته" اہل علم تو مر کر بھی دائمی اور ابدی زندگی پاتے ہیں۔
سچ کہا شاعر نے:

موت نے ان کو عطا کی ہے حیات جاوداں

حافظ صاحب ضلع جونپور كے مشہور قصبہ مانى كلاں سے متصل غياث پور نونارى كے رہنے والے تھے، ان كى ابتدائى تعليم مدرسہ بدر الإسلام شاه گنج ميں ہوئى  اور وہيں سے دارالعلوم ديوبند گئے، حضرت مولانا جميل احمد صاحب بانى مدرسہ بدر الإسلام كے آپ خاص شاگرد تھے، حضرت مولانا جميل احمد صاحب نور الله مرقده بڑى دلآويز شخصيت كے مالك تھے، تعليم وتربيت ميں انہيں كمال حاصل تھا، حافظ صاحب پر ان كى خصوصى توجہ تھى، اخلاق وانسانيت كى استعداد ان كے اندر فراواں تو تھى ہى، انہوں نے رگڑ مانجھ كر كندن بناديا۔

 اسى طرح  آپ كے ماموں حافظ رحمت الله صاحب جو ايک بافيض استاذ تھے اور كلكتہ ميں ايک مدت تک امامت كرنے كے بعد جب خرابى صحت كى بناء پر وطن آگئے اور اسى دوران  جامعہ حسينيہ  جون پور كا قيام عمل ميں آيا  تو آپ وہاں استاذ ہوئے ان كے تلامذه ميں مشہور شخصيات شامل ہيں، ان كے كوئى اولاد نہيں تھى مگر انہوں نے اپنے بهانجوں كى پورى توجہ اور ذمہ دارى  كے ساتھ اچھى تربيت كى، آپ كى تربيت بھى آپ كے ماموں نے كى تهى۔


حافظ صاحب كى فراغت  دارالعلوم ديوبند سے ہوئى تهى، آپ مولانا عثمان احمد صاحب جون  پورى رحمة الله عليہ كے رفيق درس تھے اور وه حضرت مولانا عبد الحق صاحب اعظمى سابق شيخ الحديث دارالعلوم ديوبند كے درسى ساتھى تھے، اس اعتبار سے حافظ صاحب كى فراغت 1374ھ ميں ہوئى، آپ اپنے استاذ خصوصاً حضرت شيخ الإسلام كے عاشق زار تھے، مشرقى يوپى كے كسى بھى جلسے  ميں اگر حضرت مولانا اسعد مدنى صاحب نور الله مرقده يا حضرت مولانا سيد ارشد صاحب مدنى دامت بركاتہم تشريف لاتے تو آپ كى حاضرى وہاں ضرور ہوتى۔


فراغت كے بعد آپ تدريس سے وابستہ ہوئے جامعہ حسينہ جون پور ميں ايک عرصہ تک خدمت انجام دى، اسى دوران فتح پور ميں ايک مدرسہ بھى قائم فرمايا، جو آج بھى بحمد الله جارى ہے۔


حافظ صاحب علم دوست شخصيت كے مالك تھے، علماء اور طلبہ سے محبت كرنے والے تھے، مہمان نوازى كى صفت آپ كے اندر كوٹ كوٹ كر بھرى ہوئى تھى، آپ بہت سخى تھے،  يہى وجہ تھى كہ جہاں بھى آپ جاتے آپ كے چاہنے والوں كا ايک ہجوم آپ كے ساتھ ہوجاتا۔ بس بات يہ تھى كہ

ہجوم كيوں ہے زياده شراب خانے ميں
فقط يہ بات كہ پير مغاں ہے مرد خليق

اپنے استاذ حضرت مولانا جميل احمد صاحب كى خصوصى توجہ كى وجہ سے آپ كے اندر شعرى صلاحيت پيدا ہوئى اور  آپ اس ميدان كے شہسوار ہوئے،  آپ كے شعرى مجموعے شائع بھى ہوئے ہيں، جس پر مشہور صاحب نسبت وصاحب قلم عالم حضرت مولانا اعجاز احمد اعظمى نور الله مرقده نے مبسوط مقدمہ لكھا ہے۔


 ميرى حافظ صاحب سے بہت زياده ملاقات نہيں تھى ، مدرسہ شيخ الإسلام شيخوپور ميں ايك مرتبہ جلسہ دستار بندى تھا، اس موقع پر آپ نے ايك طويل نظم پڑھى تھى جسے سن كر سامعين بہت محظوظ ہوئے، اسى طرح نومبر 2016ء ميں موضع ڈھنڈواره ميں جمعيت علماء ہند كا قومى يكجہتى كا جلسہ تھا، اس موقع پر بھى آپ نے ايك نظم كہى تھى، اس كے علاوه مختلف خصوصى مجلس ميں بھى آپ كو سننے كا موقع ملا۔


حافظ صاحب كو  1996ء ميں دل كا شديد دوره پڑا تھا،  اس وقت زندگى كى سانس ٹوٹتى نظر آرہى تھى مگر فضل الہى شامل حال رہا اور آپ صحت مند ہوگئے اور زندگى  اپنى ڈگر پر چل پڑى مگر تقريبا دو سال قبل آپ كے كولہے كى ہڈى ٹوٹ گئى تھى آپريش ہوا اور رو بصحت بھى ہوگئے تھے مگر اس كے بعد سے آپ كى صحت دن بدن گرتى  ہى گئى اور بڑھتى عمر كے ساتھ اور بھى بيمارياں لاحق ہوگئى تھيں، بالآخر وقت موعود آپہنچا اور 9/اگست 2022ء كى رات گذار كر 10/ اگست 2022ء بروز بدھ آپ نے جان جان آفريں كو سپرد كردى اور عمر بھر كى بيقرارى كو قرار آگيا۔

حافظ صاحب كا پورا گھرانہ علماء وصلحاء كا گھرانہ ہے، آپ كے صاحبزادے مولانا حافظ ظفر الدين صاحب جو قطر ميں امام ہيں، ان كے تينوں بچے  اس كے علاوه خاندان كے كئى افراد دارالعلوم ديوبند سے فارغ ہيں، يہ سب حافظ صاحب كے حق ميں دعائے مغفرت كرتے رہيں گے اور اس كا ثواب انہيں پہنچتا رہے گا۔
بس اس دعا کے ساتھ اس وقت اس مضمون کو ختم کرتا ہوں كہ الله تعالى حافظ صاحب کی قبر کو نور سے بھر دے، جنت الفردوس میں اعلی مقام نصیب فرمائے،

 وارثین، پسماندگان اور تمام متعلقین و منتسبین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ہم سب کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنے اور ان ہی کی طرح قابل رشک زندگی گزارنے کی توفیق مرحمت فرمائے آمین۔

آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad