تازہ ترین

منگل، 9 اگست، 2022

میں حسینی ہوں:میں یزیدی ہوں نہ حسینی، ہاں اگر کوئی حسین و یزید کا تقابل کرتے ہوئے کوئی مجھے پوچھے کہ آخر کیا ہو تم؟ یزیدی یا حسینی؟ تو برملا میرا جواب پہونچے گا کہ میں حسینی ہوں۔ یہاں ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو حضرت حسین کے اقدام کو غلط اور یزید کے رویوں اور اقدامات کو صحیح سمجھتی ہے، ظالم وقت سے ٹکرانا اور اس کے خلاف مہم چلانا اگر غلط بات ہے تو میں اسی غلطی کا پیر و کار ہوں اور دائم رہوں گا، میں کسی فاسق و فاجر سے کبھی کسی صحابی رسول کا تقابل نہیں کرتا، خواہ وہ آخری صحابی رسول ہی کیوں نا ہوں۔ صحابہ اور صحابیات کا قتل عام جرم عظیم ہے، اور پھر اس نے تو نواسۂ نبی کو شہید کردیا، جس پیشانی اور لب و رخسار کو نبی چوما کرتے تھے اسے لہو لہان کر دیا، جس کے بچپن میں نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اور دونوں ہاتھوں کو زمین سے لگا کر گھوڑے کی ہیئت بنا کر اسے اپنی پشت پر سوار کرکے کھلایا کرتے تھے، جس کو نبی نے اس کے بچپن میں ہی پروانۂ جنت دے دیا تھا اور جنتی نوجوانوں کا سردار بھی بنایا اور بتایا تھا اگر اس کا یہ اقدام غلط ہوتا جس کی وجہ سے ایک بڑی تعداد کا قتل عام ہوا تو اللہ کے نبی ہر گز اسے جنت کی بشارت نہ دیتے اور مزید بر آں جنتی نوجوانوں کا سردار تو کبھی نہ بناتے، اور پھر ذرا تصور کیجیے کہ اسی میدان کربلا میں دوران جنگ اگر اچانک نبی صلی اللہ علیہ وسلم آجاتے تو آخر کس کی صف میں کھڑے ہوتے؟ آیا یزید کی صف میں یا پھر اپنے نواسے کی صف میں؟ یقیناً اپنے نواسے، اپنے صحابی، اور اپنے مبشرۂ جنت کی صف میں کھڑے ملتے۔ یزید کی طرف داری اور اس کی اثبات بے گناہی اس وقت عقل میں آتی جب قتل حسین پر وہ خاموش نہ ہوتا، گردن حسین کو اس کے سامنے پیش کئے جانے پر خوشی کا اظہار و رد عمل نہیں کرتا، اور عبید اللہ بن زیاد کے ساتھ سخت ترین رویہ اپناتا، فوراً اسے معزول کرتا، اور اس کی گردن مار دیتا، لیکن اس نے ایسا کچھ بھی نہ کیا، کیوں کہ اپنی حکومت کی سالمیت کی خاطر اسی نے یہ سب کروایا تھا، ایسے میں یزید کو بے گناہ سمجھنا یا سمجھانا یا تو احمقانہ عمل ہے یا منافقانہ۔ہاں یہ بھی سچ ہے کہ میں آج کا روایتی حسینی نہیں ہوں جو حسین کی یاد میں سینہ کوبی تو کرتا ہے لیکن ظالم کے خلاف ایک قدم بھی نہیں چلتا، اس کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھاتا، حتی کہ ١٠ محرم کو سینہ کوبیاں تو کرتا ہے لیکن حسین کا مقصد شہادت بھلا دیتا ہے، اسے فلسطینی بھائیوں، بہنوں اور بچوں کی شہادتیں نظر نہیں آتیں، آج دنیا جہان کی یزیدیت اسے نہیں دکھتی، اسے دکھتے ہیں اور اسے یاد آتے ہیں تو صرف چودہ سو سال پہلے شہادت پاجانے والے اہل بیت۔ جس مقصد کے لیے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ جام شہادت نوش کیا تھا آج وہ مقصد تو فوت ہے لیکن آج ہی کے دن اس نیک مقصد کا ہر سال سر عام مذاق اڑایا جاتا ہے، جو یہ تو پیغام دیتا ہے کہ حسین کے غم میں اپنے سینے چھلنی کرلو لیکن دنیا جہان کے ظالموں اور مظلوموں سے تمہیں کوئی سر و کار نہیں، تمہیں مطلب ہے تو فقط نام حسین سے۔ مقصد شہادت حسین کا تمہیں کوئی پاس نہیں!۔اشتارالحق حباب ١٠ محرم الحرام ١٤٤٤ھ

میں حسینی ہوں:

میں یزیدی ہوں نہ حسینی، ہاں اگر کوئی حسین و یزید کا تقابل کرتے ہوئے کوئی مجھے پوچھے کہ آخر کیا ہو تم؟ یزیدی یا حسینی؟ تو برملا میرا جواب پہونچے گا کہ میں حسینی ہوں۔ یہاں ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو حضرت حسین کے اقدام کو غلط اور یزید کے رویوں اور اقدامات کو صحیح سمجھتی ہے، ظالم وقت سے ٹکرانا اور اس کے خلاف مہم چلانا اگر غلط بات ہے تو میں اسی غلطی کا پیر و کار ہوں اور دائم رہوں گا، 


میں کسی فاسق و فاجر سے کبھی کسی صحابی رسول کا تقابل نہیں کرتا، خواہ وہ آخری صحابی رسول ہی کیوں نا ہوں۔ صحابہ اور صحابیات کا قتل عام جرم عظیم ہے، اور پھر اس نے تو نواسۂ نبی کو شہید کردیا، جس پیشانی اور لب و رخسار کو نبی چوما کرتے تھے اسے لہو لہان کر دیا، جس کے بچپن میں نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اور دونوں ہاتھوں کو زمین سے لگا کر گھوڑے کی ہیئت بنا کر اسے اپنی پشت پر سوار کرکے کھلایا کرتے تھے،


 جس کو نبی نے اس کے بچپن میں ہی پروانۂ جنت دے دیا تھا اور جنتی نوجوانوں کا سردار بھی بنایا اور بتایا تھا اگر اس کا یہ اقدام غلط ہوتا جس کی وجہ سے ایک بڑی تعداد کا قتل عام ہوا تو اللہ کے نبی ہر گز اسے جنت کی بشارت نہ دیتے اور مزید بر آں جنتی نوجوانوں کا سردار تو کبھی نہ بناتے، اور پھر ذرا تصور کیجیے کہ اسی میدان کربلا میں دوران جنگ اگر اچانک نبی صلی اللہ علیہ وسلم آجاتے تو آخر کس کی صف میں کھڑے ہوتے؟

 آیا یزید کی صف میں یا پھر اپنے نواسے کی صف میں؟ یقیناً اپنے نواسے، اپنے صحابی، اور اپنے مبشرۂ جنت کی صف میں کھڑے ملتے۔ یزید کی طرف داری اور اس کی اثبات بے گناہی اس وقت عقل میں آتی جب قتل حسین پر وہ خاموش نہ ہوتا، گردن حسین کو اس کے سامنے پیش کئے جانے پر خوشی کا اظہار و رد عمل نہیں کرتا، اور عبید اللہ بن زیاد کے ساتھ سخت ترین رویہ اپناتا، فوراً اسے معزول کرتا، اور اس کی گردن مار دیتا، لیکن اس نے ایسا کچھ بھی نہ کیا، کیوں کہ اپنی حکومت کی سالمیت کی خاطر اسی نے یہ سب کروایا تھا، ایسے میں یزید کو بے گناہ سمجھنا یا سمجھانا یا تو احمقانہ عمل ہے یا منافقانہ۔


ہاں یہ بھی سچ ہے کہ میں آج کا روایتی حسینی نہیں ہوں جو حسین کی یاد میں سینہ کوبی تو کرتا ہے لیکن ظالم کے خلاف ایک قدم بھی نہیں چلتا، اس کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھاتا، حتی کہ ١٠ محرم کو سینہ کوبیاں تو کرتا ہے لیکن حسین کا مقصد شہادت بھلا دیتا ہے، اسے فلسطینی بھائیوں، بہنوں اور بچوں کی شہادتیں نظر نہیں آتیں، آج دنیا جہان کی یزیدیت اسے نہیں دکھتی، اسے دکھتے ہیں اور اسے یاد آتے ہیں تو صرف چودہ سو سال پہلے شہادت پاجانے والے اہل بیت۔

 جس مقصد کے لیے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ جام شہادت نوش کیا تھا آج وہ مقصد تو فوت ہے لیکن آج ہی کے دن اس نیک مقصد کا ہر سال سر عام مذاق اڑایا جاتا ہے، جو یہ تو پیغام دیتا ہے کہ حسین کے غم میں اپنے سینے چھلنی کرلو لیکن دنیا جہان کے ظالموں اور مظلوموں سے تمہیں کوئی سر و کار نہیں، تمہیں مطلب ہے تو فقط نام حسین سے۔ مقصد شہادت حسین کا تمہیں کوئی پاس نہیں!۔


اشتارالحق حباب 
١٠ محرم الحرام ١٤٤٤ھ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad