تازہ ترین

منگل، 27 ستمبر، 2022

الشيخ محمد يوسف القرضاوی کی رحلت پر بعض علماء کا جشن!

الشيخ محمد يوسف القرضاوی کی رحلت پر بعض علماء کا جشن! 

تحریر: مسعودجاوید۔مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے جب کوئی کسی کی موت پر جشن مناتا ہے یا اس کی برائیاں بیان کرتا ہے۔ بارہا ایسا دیکھنے میں آیا کہ جنازہ اٹھا نہیں اور لوگ مرنے والے کے عیوب شمار کرانے لگتے ہیں جبکہ بلا تفریق مذہب ذات اور علاقہ مہذب معاشرہ کے لوگ دشمنوں کے یہاں بھی تعزیت کرنے جاتے ہیں تو مرنے والے کی خوبیاں بیان کرتے ہیں ۔ کوئی انسان کتنا بھی برا ہو اس میں کچھ اچھی صفات بھی ہوتی ہیں۔‌ ایسے موقعوں پر عیوب کو نظر انداز کرتے ہوئے محاسن کا ذکر کرتے ہیں۔ 


 ہمارا دین اعلیٰ اخلاق کا دین مہذب دنیا کے ریت رواج سے بھی بہتر ہے اور ایسے مواقع پر اس کی دلیل یہ  حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : 
  عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَنَسٍ الْمَكِّيِّ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ اذْكُرُوا مَحَاسِنَ مَوْتَاكُمْ وَكُفُّوا عَنْ مَسَاوِيهِمْ ‏"‏ ‏


عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے مرنے والوں کی فضیلت کا ذکر کرو اور ان کی برائیوں کے ذکر سے پرہیز کرو۔ایک دوسری حدیث میں فرمایا کہ مرنے والوں کی برائیوں کا ذکر نہ کرو اس لئے کہ مرنے والے نے جو کچھ مرنے سے پہلے اوپر بھیج چکا ہے وہ وہاں پہنچ گیا ۔ یعنی اس کے اعمال اس کے ساتھ ۔ 


ایک تیسری حدیث " وجبت" بہت مشہور ہے جس کا مفہوم ہے جنازہ گزر رہا تھا لوگوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بتایا کہ فلاں کا جنازہ ہے بڑا نیک شخص تھا اس پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وجبت یعنی جنت واجب ہوگئی۔ اس کی تشریح یہ ہے کہ مرنے والے کے بارے میں اگر مٹھی بھر لوگ گواہی دیں کہ وہ بڑا اچھا شخص تھا تو اللہ رب العزت فرشتوں سے کہتے ہیں کہ اس کا نام صالحین میں لکھ دو۔


 جشن منانے والے کس حد تک صحیح ہیں یہ مذکورہ بالا احادیث سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جشن منانے والے اپنی آخرت خراب کر رہے ہیں۔ 


علامہ الشیخ یوسف القرضاوی رحمہ اللہ کوئی عام عالم دین نہیں تھے وہ  عالم اسلام کی ایک ایسی  عبقری شخصیت تھے جن کا ثانی دور دور تک نظر نہیں آتا ہے۔  ایک ایسے پایہ کے  فقیہ ،مجتہد ، مفکر ، ادیب، شاعر اور مصنف تھے جن سے اپنے اور غیر سب نالاں رہتے تھے اس لئے کہ انہوں نے کبھی " سرکاری مولوی" بننا قبول نہیں کیا ۔ایک ایسا بے باک عالم دین جس کے بارے میں بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ  انہوں نے اپنے اسلاف کی تاریخ اور كلمة الحق أمام سلطان جائر..  یعنی ظالم و جابر حکمران کے سامنے حق بولنے کی روایت کو زندہ رکھا۔ 


انہوں نے مصر میں آمرانہ نظام اور حکمرانوں کے رویے پر انگلی اٹھائی چنانچہ شاہ فاروق اور صدر جمال عبدالناصر کے دور حکومت میں تین بار جیل بھیجے گئے ۔ 


مملکت سعودی عرب نے سب سے اعلیٰ بین الاقوامی اعزاز شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا ۔ متحدہ عرب امارات نے سب سے بڑا بین الاقوامی اعزاز پرسنالٹی آف دی ایئر سے نوازا ۔ 


لیکن اس کے بعد جب خلیجی ممالک پر مخصوص سیاست حاوی ہوئی تو  سعودی عرب اور بعض خلیجی ممالک ان سے دوری بنانے لگے۔ اور یہ رویہ کوئی غیر فطری نہیں ہے۔ ملکوں کے بین الاقوامی برادری کے ساتھ اپنے تعلقات کو نبھانے ہوتے ہیں۔ باہمی تعلقات کی خاطر اور بعض اوقات خارجی دباؤ میں ایسا قدم اٹھاتے ہیں۔ ممکن ہے شیخ کے بعض موقف کی وجہ سے بعض خلیجی ممالک نے ان سے دوری بنائی اس لئے کہ مسجد اقصیٰ اور ارض محتلہ کی آزادی کے شیخ کا اپنا موقف تھا ۔ لیکن سیلوٹ ٹو قطر اس ملک نے شیخ کو ہر حال میں ان کے علمی مقام و مرتبہ کا لحاظ کیا کبھی دیگر خلیجی ممالک یا امریکہ کے دباؤ میں شیخ پر کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی۔  


 تاہم ان ممالک کی  ملکی سطح پر جو روش ہے اس کا اثر ہندوستان کے مسلمانوں پر پڑے اور "بعض"  لوگ جشن منائیں یہ دین اور اخلاق کے صریح  منافی ہے۔ 


الشیخ یوسف القرضاوی 170 کتابوں کے مصنف ہیں ان میں سے زیادہ تر کتب کے تراجم دنیا کے مختلف ممالک میں پڑھی جاتی ہیں ۔ یہ کتابیں جمہوری نظام‌، ملٹی پارٹی سسٹم ، مسلم ممالک میں اقلیتوں کے حقوق اور عوامی زندگی میں عورتوں کی شرکت پر ہیں ۔ 


الجزیرہ سٹیلائٹ چینل پر ان کا لائیو پروگرام 'الشريعة والحياة ' بہت مقبول ہفتہ وار شو تھا جسے کروڑوں لوگ دیکھتے تھے۔ مسائل کا حل پوچھتے تھے فتاوی حاصل کرتے تھے ۔ 


فقہی معاملات میں ان کی اپنی تحقیق تھی اسی کی روشنی میں وہ فتویٰ دیتے تھے، حلال حرام جائز ناجائز بتاتے تھے۔ وہ دین کے ساتھ دنیاوی معاملات سے بھی بخوبی واقف تھے اس لیے معقول جواب دیتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی بینک نام رکھنے سے اس کے ساتھ کاروبار جائز نہیں ہو سکتا ہے۔ کیا واقعی وہ بلا سودی بینک ہیں یا سروس چارجز کے نام پر سود وصول کرتے ہیں ۔ اگر سروس کے نام پر سود وصول کرتے ہیں تو ان اسلامی بینکوں سے معاملات جائز نہیں ہے۔ 


ایک صاحب نے کہا کہ انہوں نے اپنی فیملی کے ساتھ یورپ ہجرت کی ہے لیکن یورپ میں عریانیت اور بے حیائی عام ہے بیوی اور بچوں کو کس طرح آن عریانیت اور برے مقامات سے محفوظ رکھا جائے ۔ شیخ نے پوچھا کہ کیا آپ کے وطن اصلی میں آپ کی زمین تنگ کر دی گئی تھی؟ کیا آپ پر اس قدر ظلم ڈھایا جا رہا تھا کہ آپ نے اپنے ملک کو خیر باد کہہ دیا اگر نہیں تو اپنے ملک لوٹ جائیں ۔ 


ہمارے یہاں بر صغیر ہند پاکستان بنگلادیش میں بہت سے مولوی حضرات ان کو ناپسند کرتے ہیں اس لئے کہ وہ صراحت پسند فقیہ تھے۔ انہوں نے کہا جو مفتی لوگوں سے جڑا ہوا نہ ہو ، عام زندگی اور موجودہ حالات سے بے خبر ہو اس کو فتویٰ دینے کا حق نہیں ہے۔  ظاہر ہے اس سے تھوک کے در سے مفتی بن کر نکلنے والے اور مفتی کا سابقہ لگانے والے ان کو ناپسند کریں گے ۔


 لیکن آپ خود جائزہ لیں ایسے کمرشیل مفتی جو تین کمروں کے فلیٹ میں تیار ہوتے ہیں جنہیں نہ بینکنگ کا پتہ ہے نہ انشورنس کا اور نہ شیئر مارکیٹ میں لین دین خرید و فروخت کا جنہیں نہ ہندوستان کے دستور اور قوانین کا علم ہے اور نہ بین الاقوامی قانون کا ، وہ لوگ اگر فتویٰ دیں گے تو یہی دیں گے کہ لاؤڈ اسپیکر سے نماز باجماعت درست نہیں، تصویر ، کیمرہ ، ٹیلی ویژن وغیرہ وغیرہ سب ناجائز ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad