تازہ ترین

ہفتہ، 17 ستمبر، 2022

یتیم پوتے کی وراثت سے محرومی اور اس کے متبادل طریقے

یتیم پوتے کی وراثت سے محرومی اور اس کے متبادل طریقے 
                تصویر سوشل میڈیا

           (۳)   محمد قمر الزماں ندوی 
   مدرسہ نور الاسلام، کنڈہ پرتاپگڑھ 

     اگر کوئی بھی شخص قرآن مجید میں بیان کردہ احکام میراث کا مطالعہ گہرائی سے  کرلے اور باریک بینی سے اس پر غور کرلے تو یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ جو بلا وجہ ایک نزاعی اور اختلافی مسئلہ بنا دیا گیا ہے، وہ خود بخود ایک قطعی فیصلہ کیساتھ حل ہوجاتا ہے کہ اگر چہ یتیم پوتا بہ نسبت بیٹے کے ضرورت مند زیادہ ہو، لیکن الاقربون کے قانون کی رو سے وہ مستحق وراثت نہیں ہوسکتا کیونکہ بیٹے کی موجودگی میں وہ اقرب نہیں ہے، البتہ اس کی ضرورت رفع کرنے کے لیے دوسرے انتظامات کئے گئے ہیں، جس کی بعض تفصیلات میں نے سابقہ مضمون میں بیان کردیا اور مزید آگے بھی اس کی تفصیل ہم بیان کر رہے ہیں۔

 یہاں اس بات کی بھی وضاحت کردیں کہ یہ مسئلہ منصوص ہے، قرآن و حدیث سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ بیٹے کے ہوتے ہوئے پوتے کو میراث نہ ملے گی۔ لیکن بعض مغرب زدہ مسلمان جن کو ہم متجددین کہتے ہیں ، انہوں نے مستشرقین سے مرعوب ہوکر اس مسئلہ کو اختلافی اور نزاعی مسئلہ بنا دیا، اور بہت سے بھولے بھالے مسلمانوں کو بھی یہ مسئلہ سمجھ میں نہیں آتا، کیونکہ آیات میراث کے بارے میں انہیں کچھ واقفیت ہی نہیں ہے، بلکہ اب تو بہت سے فارغین کو بھی اس بارے میں معلومات نہیں ہوتیں۔۔۔ 
    میت کے رشتہ داروں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے، جن کو ضابطہ شرعی کے ماتحت اس کی میراث سے حصہ نہیں ملے گا۔ لیکن وہ تقسیم میراث کے وقت وہاں پہنچ سکتے ہیں۔ اب قرآنی نظام کی خوبی و خوش اسلوبی کو دیکھئے کہ ایک طرف تو خود قرآن ہی کا بتایا ہوا عادلانہ ضابطہ یہ ہے کہ اقرب کے مقابلہ میں ابعد کو محروم کیا جائے،

 دوسری طرف محروم ہونے والے ابعد کی حسرت اور دل شکنی بھی گوارا نہیں کی جاتی، اس کے لیے ایک مستقل آیت میں یہ ہدایت کی گئی۔،، و اذا حضر اولو القربی و الیتمی و المسکین فارزقوھم منہ و قولوا لھم قولا معروفا،، یعنی جو دور کے رشتہ دار اور یتیم مسکین میراث میں حصہ پانے سے محروم ہو رہے ہوں، اگر وہ تقسیم میراث کے وقت آموجود ہوں تو میراث پانے والوں کا اخلاقی فرض ہے، کہ اس مال میں سے باختیار خود کچھ حصہ ان کو بھی دیدیں، جو ان کے لیے ایک قسم کا صدقہ اور موجب ثواب ہے۔۔ اور ہاں ان کے ساتھ تنگ دلی نہ برتو، ان کے ساتھ وہ دل شکن باتیں نہ کرو جو ایسے مواقع پر بالعموم چھوٹے دل اور کم ظرف لوگ کیا کرتے ہیں۔ 


  حدیث شریف میں آیا ہے کہ جنگ احد کے بعد حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی بیوی اپنی دو بچیوں کو لیے ہوئے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ! یہ سعد کی بچیاں ہیں جو آپ کے ساتھ احد میں شہید ہوئے ہیں۔ ان کے چچا نے پوری جائداد پر قبضہ کرلیا ہے اور ان کے لیے ایک حبہ تک نہیں چھوڑا ہے، اب بھلا ان بچیوں سے نکاح کون کرے گا،،؟ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔( تفہیم تفسیر نساء) 


    علماء نے قرآن و حدیث کی روشنی میں یتیم پوتے کی وراثت سے محرومی کے متبادل طریقے پر جو کچھ لکھا ہے، ہم اس کو ذیل میں بیان کرنے جارہے ہیں۔ 
۱/ سورہ بقرہ آیت نمبر ۲۳۳ میں ایک شرعی حکم اور ضابطہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر زوجین میں اختلاف اور منافرت کے بعد علحیدگی ہوگئ ہو اور ان کا شیر خوار بچہ ہو تو ماں کو چاہیے کہ وہ اس کو دودھ پلائے اور باپ پر لازم ہے کہ وہ بچے کو دودھ پلوانے کے اخراجات برداشت کرے۔ اس آیت کا ایک ٹکڑا ہے وعلی الوارث مثل ذلک،، ویسا ہی وارث پر ہے۔ یعنی اگر باپ نہیں ہے تو اس کی کفالت کی ذمہ داری اس شخص پر ہے، 


جو اس بچے کی وفات کی صورت میں اس کی وراثت پانے کا استحقاق رکھتا ہے، اس سے فقہاء نے یہ استدلال کیا ہے کہ یتیم پوتے کی کفالت کی ذمہ داری اس کے قریبی رشتہ داروں پر ہے، بالفاظ دیگر یتیم پوتے کے جو چچا اپنے باپ کے وارث ہوں گے ، وہی اپنے یتیم بچے کی کفالت کے بھی ذمہ دار ہوں گے۔۔۔( یتیم پوتے کی وراثت سے محرومی اور اس کے متبادل طریقے مقالہ از ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی) 


۲/ اسلامی شریعت میں وصیت کا قانون ہے، جس کے ذریعہ ان رشتہ داروں کی مدد کی جاسکتی ہے، جو وراثت میں حصہ نہ پاتے ہوں۔ شرعی مسئلہ ہے کہ وارثین کے حق میں وصیت نہیں کی جاسکتی، ترمذی ۲۱۲۱ ۔۔/ اسی طرح ایک تہائی مال سے زیادہ کی وصیت بھی جائز نہیں ہے۔ بخاری ۲۷۴۳..


اس بنا پر فقہاء نے لکھا ہے کہ غیر وارث رشتے داروں کے حق میں تہائی مال کی وصیت کرنا بعض حالات میں جائز، بعض حالات میں مستحب اور بعض حالات میں واجب ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یتیم پوتے کے حق میں وصیت کرکے بھی اس کی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں۔ دادا کو چاہیے کہ اگر کسی بیٹے کا انتقال اس کی زندگی میں ہوجائے تو وہ اپنے پوتوں اور پوتیوں کے حق میں حسب ضرورت اپنے ایک تہائی مال تک کی وصیت کردے، تاکہ اس کے مرنے کے بعد وہ وراثت سے محرومی کی وجہ سے بے سہارا نہ ہوجائیں۔ اور ایک تہائی وصیت سے ہٹ کر اپنی ملکیت میں سے ان کو الگ سے کچھ ہبہ کرنا چاہے تو دادا کو اس کی بھی اجازت ہے ۔



      وصیت کا قاعدہ اور ضابطہ اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ قانون وراثت کی رو سے جن عزیزوں کو میراث میں سے حصہ نہیں پہنچتا ، ان میں سے جس کو یا جس جس کو آدمی مدد کا مستحق پاتا ہو اس کے لیے اپنے اختیار تمیزی سے حصہ مقرر کردے۔ مثلا کوئی یتیم پوتا یا پوتی موجود ہے، یا کسی بیٹے کی بیوہ مصیبت کے دن کاٹ رہی ہے، 


اور بھی بہت سے رشتہ دار اس میں شامل ہیں۔ اس کے حق میں وصیت کے ذریعہ سے حصہ مقرر کیا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ وصیت کا ذکر قرض پر مقدم ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ قرض کا ہونا ہر مرنے والے کے حق میں ضروری نہیں ہے، اور وصیت کرنا اس کے لیے ضروری ہے۔ لیکن حکم کے اعتبار سے امت کا اس پر اجماع ہے، کہ قرض وصیت پر مقدم ہے۔ یعنی اگر میت کے ذمہ قرض ہو تو سب سے پہلے میت کے ترکہ میں سے وہ ادا کیا جائے گا، پھر وصیت پوری کی جائے گی، اور اس کے بعد وراثت تقسیم ہوگی۔۔۔ 

   ( مستفاد از تفہیم ، تفسیرسورہ نساء) 
   نوٹ / مضمون کا اگلا حصہ کل ملاحظہ کریں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad