تازہ ترین

پیر، 21 نومبر، 2022

اکبر اعظم کے تعمیر کردہ پل کی مضبوطی اور خوبصورتی میں 455 برس بعد بھی کوئی کمی نہیں

اکبر اعظم کے تعمیر کردہ پل کی مضبوطی اور خوبصورتی میں 455 برس بعد بھی کوئی کمی نہیں 

 شہر کے شاہی پل کے ساتھ دیگر تاریخی عمارتوں کی تابناکی میں کمی ضرور آئی ہے مگر اب بھی ان عمارتوں کے نقوش عہد رفتہ کے جلال و جمال کی کہانی بیان کر رہے ہیں دن بھر ہزاروں کی بھیڑ کا بوجھ برداشت کر نے کے بعد بھی یہ پل تھکا نہیں ہے حکومت کی عدم توجہی کے سبب پل کے آس پاس جھاڑیاں اگ آئی ہیں اور کہیں کہیں پرانے پتھر اب کمزور پڑ رہے ہیں 


 جونپور (حاجی ضیاء الدین )سلاطین شرقیہ او مغلوں کے زوق وجمال اور نفاست پسندی کا مظہر وہ عمارتیں ہپیں جن کی تابناکی میں کمی ضرور آئی ہے مگر ب بھی ان عمارتوںکے نقوش عہد رفتہ کے جلال و جما ل کی داستانیں سناتے ہیں سلطان ابراہیم شاہ کی تعمیر کر دہ قدیم اٹالہ مسجد ،شاہی مسجد ، لال دروازہ مسجد اور ۴۵۵ سال پر نا شاہی پل جو شہنشاہ اکبر نے شہر کے وسط سے بہنے والی گومتی ندی پر تعمیر کرا یا تھا جو سیکڑوں برس سے سیلاب کی مار جھیلتے ہوئے آج بھی اپنی آب وتا ب کے ساتھ کھڑا ہونے کے علاوہ سیاحوںکو اپنی جانب راغب کر رہا ہے دن بھر ہزاروں کی بھیڑ کا بوجھ بر داشت کر نے کے بعد بھی یہ پل آج تک تھکا نہیں ہے حکومت کی عدم توجہی کے سبب پل کے آس پاس جھاڑ یاں اگ آئی ہیں اور کہیں کہیں پرانے پتھر اب کمزور پڑ رہے ہیں ۔


 مذکورہ پل کی خوبصورتی اور پائداری کی ملک بھر میں مثال نہیں ملتی ہے ۔ تاریخ کے اوراق کھنگالنے پر پتہ چلتا ہے کہ پل کی تعمیر مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے کرو ایا تھا اکبر بادشاہ علی قلی خان کی تادیب کے لئے جونپور پہنچ کر شاہی قلعہ میں قیام کیا تھا ایک روز کشتی سے سیر کے لئے نکلے تو جیسے ہی قلعہ سے مغرب کی سمت پہنچے ایک بوڑھی عورت کو زار و قطار روتا ہو ا دیکھ کر اس پر عورت کے پاس پہنچ کر رونے کی وجہ معلوم کر نے پر عورت نے بتا یا کہ جنوبی سمت سے لکڑی بیچنے کے لئے آئی تھی اور اب شام ہو گئی ہے ملاح کشتی لے کر چلا گیا ہے اب میں اپنے گھر کیسے پہنچوں گی بادشاہ نے بوڑھی عور ت کو اپنی کشتی پر بٹھا کر دریا پار کرا یا بیوائوں اور محتاجوں کے لئے سرکار ی کشتی مہیا رکھنے کا حکم منعم خان کو دیا جس پر منعم خاں نے پل تعمیر کروانے کا مشورہ دیا ۔


بادشاہ کو منعم خان کی تدبیر پسند آئی اور اس نے منعم خاں خانخانہ کو پل تعمیر کر نے کا حکم دیا منعم خاں نے معماروں سے رابطہ کیا جس پر معماروں نے کہا کہ منتخب والی جگہ پل کی تعمیر کر نا مشکل ہے کیوں کہ یہاں پر ایک گہر اغار ہےجس کے متعلق معلومات کر نا مشکل ہے مشورہ سے پہلے جنوبی سمت ندی میں پانچ طاق کا پل بنا کر ندی کا رخ موڑ ا گیا۔

 اس کے بعد بھی تد بیر کام نہ آئی اور پانی کم نہ ہوا ایک جگہ زکر ملتا ہے کہ دوسری تد بیر استعمال کی گئی اور بہت سی کشتیاں تیار کر کے اس پر پتھر اور سیسہ سے پایہ باندھ کر آہستہ آہستہ چھوڑا جائے اس طرح چھوڑتے گئے جب پایہ کہ شکل پانی پر نمودار ہو ا تو تمام پائے بنائے گئے اس کے اندر لوہے کی شہ تیریں بھی ڈالی گئیں تب کہیں جاکر جنوبی سمت کا پل تیار ہو پایا ۔ پل کی تعمیر کو لے کر منعم خاں خانخانہ نے شیخو شاہ ؒ ودیگر علما اولیا ء سے دعائوں کے لئے کہا جس پر شیخ شاہ ؒ نے دعا کرائی اور علماء اکرام نے آمین کہا ۔


اس کے بعد کاریگروں نے اینٹ رکھ کر تعمیر کا کام شروع کیا گیا اس کے بعد دس طاق کا پل تیار ہو ادونوں پلوںکی بناوٹ ایک جیسی ہے پل کی مضبوطی کے ساتھ حسن وجمال کا خیال رکھا گیا ہے پتھروں کے تراشنے کا کام اس طرح کیا گیا ہے کہ دونوں کے جوڑ آپس میں مل جاتے ہیںا ور دونوں کے جوڑ کا پتہ لگا نا مشکل ہو تا ہے پل کی چوڑا ئی ۲۶ فٹ ہے جس کے دونوں طرف ۲ فٹ سے زائد کی فصیل ہے پتھروں کے کھمبوں پر گمٹیاں بنی ہو ئی ہیںجو ہر ستون پر واقع ہیں پل کے درمیان میں ایک مسجد جس کو شیخو شاہ ؒ ( شیر والی مسجد ) کے نام سے جانا جا تا ہے تعمیر ہو ئی ہے۔


اس کے علاوہ چند دکانوں کی تعمیر ہو ئی ہے مشرقی سمت شیر کا مجسمہ بنا ہے جنوبی سمت والے پل کی لمبائی ۱۷۶ فٹ ہے اس میں محراب بنے ہو ئے ہیں جن میں ۱۸ فٹ سے زائد جگہ ہے شمالی پل میں کل دس محراب بنائے گئے ہیں ۔اس پل کو تیار ہونے میں چار سال کا عرصہ لگا تھا اور ۹۷۵ ہجری ۱۵۶۷ ؁میں پل تعمیر ہو اتھا پل اور زمین کی سطح یکساں ہے شاہی پل کے ستون کے درمیانی حصہ کو تھوڑ آگے بڑھا کر نوکیلا بنا یا گیا ہے اور پل پر نوکیلے والے ستون کے سہارے پل پر گومٹی بنائی گئی ہے جو اپنے آپ میں کافی دلکش معلوم ہو تی ہے پانی کی دھار کا ٹنے کے لئے ہر ستون کو نوکیلا بنا یا گیا ہے۔


 تاکہ پانی کا زور ٹو ٹتا رہے پل کے ستون میں اعلی درجہ کے پتھر لگائے گئے ہیں وہیں پل کی بناوٹ نقش و نگاری قابل دید ہے محراب کی شکل میں ستون بنا ئے گئے ہیں اور اس پر بیل بوٹے بھی بنا ئے گئے ہیں ۔ شاہی پل سے متصل  ایک شاندار حمام منعم خاں خانخانہ نے تعمیر کروا یا تھا پل کی صنعت میں ایک چیز قابل دید ہے کہ حمام سے متصل چوتھے طاق کے محراب پر دو مچھلیاں بنی ہو ئی ہیں۔


 ان مچھلیوں کو داہنے جانب سے دیکھا جا ئے تو بائیں جانب کی مچھلی سہرے دار اور کچھ سفید مائل نظر آئے گی اور اسی طرح دائیں جانب والی لال رنگ نظر آتی ہے کچھ ایسا ہی حال ایک محراب پر بنے دو شیروں کا بھی ہے۔سیکڑوں سال قبل تعمیرپل نے مختلف مرتبہ سیلاب کا بھی سامنا کیا لیکن آج بھی شاہی پل اپنے آب تاب کے ساتھ کھڑا ہواہے سیلاب کا زور اتنا تھا کہ کئی بار سیلاب نے پل پر تعمیر ہو ئی گمٹیوں کو اپنی زد میں لے لیا تھا سیلاب کا سلسلہ ۱۷۷۴، سےہوتا ہے ۱۹۸۴ تک پہنچا ہے سیلاب سے پل پر تعمیر گمٹیوںکو نقصان ضرور ہو ا لیکن پل کی مضبوطی کو سیلاب کی طاقت ہلا نہ سکیں ۔


 دونوں پلوں کے درمیان شاہی شیر والی مسجد تعمیر ہو ئی ہے مسجد کے مشرقی حصہ میں شیخو شاہ ؒ کی مزار واقع ہے بتاتے ہیں کہ ۱۹۷۱ میں سیلاب اس قدر زور دار تھا کہ پل پر تعمیر ہوئ تین گمٹیاں پانی میں بہہ گئیں جس کو آثار قدیمہ نے بنوایا تھا گمٹی والی دکانیں بعض مہاجروں کے سپرد تھیں جن کو ایمر جنسی کے وقت میں خالی کروا لیاگیا حالیہ دنوں صوبہ گجرات میں انگریزوں کا بنا یا ہوا پل حادثہ کا شکار ہو تو سوشل میڈیا پر جونپور کے شاہی پل کی پائیداری و خوبصوری کا ذکر خوب ہوا ہے۔

 موجودہ وقت میں پل کے درو دیوار پر جھاڑ اگ جانے سے پل کی دیوار وں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے جس پر انتظامیہ کی توجہ در کار ہے 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad