تازہ ترین

بدھ، 23 نومبر، 2022

نصف آبادی اور اسکولی طلباء کی دینی تربیت کا نظم کیوں نہیں ہے ؟

نصف آبادی اور اسکولی طلباء کی دینی تربیت کا نظم کیوں نہیں ہے ؟ 

تحریر: مسعودجاوید


جب بھی دینی دعوت، دینی تربیت، اسلامی تعلیمات سے متعلق ورکشاپ، سیمینار اور سمپوزیم ہوتے ہیں عموماً ان میں مسلمانوں کی نصف آبادی کی شرکت نہیں ہوتی ہے۔ اس کے متعدد وجوہات ہیں اور ان میں معروف عذر مردوزن کا اختلاط کہہ کر ارباب حل وعقد راہ فرار اختیار کر لیتے ہیں ۔ 

ضرورت اس کی ہے کہ ہم بہت سنجیدگی سے غوروفکر کر کے ایسا کوئی طریقہ اختیار کریں کہ مردوں کی طرح خواتین کی بھی دینی تربیت ہو۔ 

آخر ہماری نصف آبادی کو جمعہ کے خطبوں تقریروں اور ہفتہ واری درس قرآن یا مختلف مواقع پر جید علماء کے بیانات سے محروم کیوں رکھا جاتا ہے؟ اصلاح معاشرہ کے نام پر سال میں دو تین جلسے ہوتے ہیں ان میں مستورات کے لئے انتظام تو ہوتا ہے لیکن  سال میں صرف دو تین اجلاس میں ان کی شرکت محدود کیوں ہوتی ہے ؟ 


دین کی بنیادی تعلیمات سے ایک مسلم خاتون کو واقف کرانا اس کے کنبہ کو واقف کرانے کے مترادف ہے ۔

مدارس دینیہ مدرسوں میں پڑھنے والے مسلمان بچوں کی دینی تعلیم وتربیت کر رہے ہیں جو واقعی قابلِ ستائش ہیں لیکن وہاں مسلم طلباء و طالبات کی کل تعداد کا دسواں حصہ ہی مستفیض ہوتا ہے‌ ۔ باقی نوے فیصد طلباء وطالبات کی دینی تربیت کا ہم نے کیا نظم کیا ہے ؟ 


مسلمان بچے اور بچیاں جو ساڑھے تین سال کی عمر سے ہی پلے اسکول،  نرسری ، کے جی، پرائمری، سکنڈری سے گزرتے ہوئے ہائر سیکنڈری اور پھر کالج تک کا تعلیمی سفر کرتے ہوئے بیس سال کی عمر تک پہنچ جاتے ہیں لیکن عموماً وہ دین اسلام کی بنیادی تعلیمات سے بے بہرہ ہوتے ہیں۔ 


بعض لڑکوں اور لڑکیوں کے بارے میں جان کر بہت افسوس ہوا کہ وہ کلمہ طیبہ کے علاوہ ایمان مجمل اور ایمان مفصل کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ پاکی ناپاکی ، حالت جنابت ، استنجاء اور صحیح اسلامی طریقہء غسل سے بھی واقف نہیں ہیں۔ وضو کر کے ناپاک فرش پر ننگے پاؤں چل کر جائے نماز (مصلیٰ )پر چلے گئے ! 


جنسی بے راہ روی کا خطرہ اس عمر میں زیادہ ہوتا ہے اسی طرح ایمان کی پختگی نہ ہونے کی وجہ سے ارتداد کی خبریں تشویشناک ہیں۔ ہمارا ملک ایک جمہوری اور سیکولر ملک ہے یہاں آزادانہ اپنی پسند کے مذہب، کھانے پینے پہننے اور جیون ساتھی چننے کا حق دستور دیتا ہے کسی بھی بالغ پر جبر نہیں کیا جاسکتا ہے۔ لڑکیوں کے ارتداد کے تعلق سے مسلمانوں میں جس شدت کی تشویش پائی جاتی ہے لڑکوں کی جنسی بے راہ روی یا منشیات کے عادی ہونے یا لیو ان ریلیشن شپ پر اتنی تشویش نہیں دیکھی جاتی ہے ۔ ضرورت ہے کہ نہ صرف دونوں جنس؛  لڑکے اور لڑکیوں ، کی غلط حرکتوں پر یکساں انگشت نمائی ہو بلکہ ان کی اصلاح کا بہتر نظم کیا جائے ۔ 


عموماً اتوار کا دن چھٹی کا ہوتا ہے اس روز دس سے بارہ بجے تک مسجد کے ایک حصہ میں یا بالائی منزل پر خواتین اور اسکول و کالج جانے والی لڑکیوں/ طالبات اور نچلی منزل پر اسکول و کالج جانے والے لڑکے / طلباء کو مدعو کر کے بالتدریج دین اسلام، عقیدہ، بنیادی تعلیمات، روز مرہ پیش آنے والے مسائل اور اسلامی اخلاقیات پر مبنی درس دیں۔ نچلی منزل پر معلم یا مقرر لڑکوں کو مخاطب کرے اور اسی کے ساتھ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے بالائی منزل پر خواتین سماعت کریں۔ 

پچھلے تقریباً بیس سالوں میں ایک اچھا کام یہ ہوا کہ ملک کے مختلف علاقوں میں مدرسة البنات اور جامعة البنات قائم ہوئے جن سے معتد بہ تعداد میں لڑکیاں فارغ التحصیل ہوئی ہیں۔ طالبات کی دینی تربیت اور ان کے مخصوص نسوانی مسائل سے متعلق بات کرنے کے لئے  اگر ان کی خدمات لی جائیں تو اور بھی  بہتر ہوگا اس لئے کہ ان سے سوال کر نے اور جواب سننے میں وہ زیادہ کمفرٹبل محسوس کریں گی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad