وقف ترمیمی بل اور پسماندہ مسلمان
یونس خان
پارلیمنٹ نے وقت بورڈ کے احتساب اور شفافیت کو بڑھانے کے مقصد سے وقف ایک 1995 میں ترمیم کے لیے وقت ترمیمی بل 2024 تعارف کیا ہے اس ترمیمی بل میں وقف ایک 1995 کے بعض دفعات کو منانے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ وقف بورڈ کی مختص طاقت کو کم کیا جا سکے جو فی الحال انہیں کسی بھی جائیداد کو بغیر ضروری تصدیق کے وقف قرار دینے کی اجازت دیتا ہے۔
اس ترمیمی بل کو تعارف کرنے کے تناظر میں حکومت کا دعوی ہے کہ اس سے وقف بورڈ کے نظم و نسق میں بہتری آئے گی اور اس بل کا مقصد بھی وقف املاک کے انتظام میں شفافیت اور احتساب کو بڑھانا ہے بدعنوانی اور دیگر بے ضابطگیوں پر قابو پانے کی کوشش کرنا،وقف املاک کی ترقی اور تحفظ کو فروغ دینا،اور اس بات کو یقینی بنانا کی وقف املاک کو معاشرے کے فائدے کے لیے استعمال کیا جائے۔این ڈی اے حکومت کے درج بالا دلائل اور دعووں کے باوجود اس مجوزہ بل کی مخالفین،مسلم علماء اور مسلم ارکان پارلیمنٹ کی طرف سے شدید مخالفت کی جا رہی ہے۔
اس بل کی مخالفت کرنے والوں کے اپنے دلائل اور خدشات ہیں،مخالفین کا خیال ہے کہ یہ بل مذہبی آزادی اور وقف املاک کے انتظام میں مداخلت کرتا ہے وہ اسے معاشرے کے حقوق میں حکومت کی مداخلت سمجھتے ہیں۔مسلم قوم کو نظریاتی سطح پر ایک مساوی معاشرہ سمجھا جاتا ہے لیکن عملی طور پر ہندوستانی معاشرہ کے اکثرتی طبقے (ہندو برادری) کے ساتھ تعامل کے نتیجے میں اس سماج میں سطح بندی بھی نظر آتی ہے۔
ہندوستانی مسلم معاشرے میں ذات پات کی بنیاد پر تقسیم ہندو ذات پات کے نظام سے متاثر ہے ہندوستانی برصغیر میں مسلمانوں کے درمیان ذات پات کا نظام موجود ہے اس میں تین مشہور زمرے دیکھے جا سکتے ہیں ۔
اشرف: یہ اعلی طبقے کے مسلمان مانے جاتے ہیں جن کا دعوی ہے کہ وہ عربی، ترکی، فارسی یا افغان نسب سے تعلق رکھتے ہیں اشرف میں سید، شیخ، پٹھان اور مغل جیسی اعلی ذات کے لوگ شامل ہیں۔
اجلاف: یہ نچلے طبقے کے مسلمان ہیں جنہیں تبدیل ہندو سے سمجھا جاتا ہے یہ زمرے میں کاریگر کسان اور مزدور طبقے کے مسلمان شامل ہیں۔
ارزل: مسلمانوں کے سب سے نچلے طبقے کے لوگ ہیں جو دلت اور اچھوت ذاتیوں سے تبدیل ہوئے ہیں انہیں معاشرے میں سب سے نچلے طبقے پر رکھا جاتا ہے اخر کے دو زمرے (طبقے) کو ملا کر پسماندہ مسلم معاشرہ کی تخلیق ہوتی ہے۔پسماندہ مسلم حقوق کے کارکن ڈاکٹر فیاز احمد فیضی کا کہنا ہے کہ مجوزہ تبدیلیاں انقلابی ہیں اس سے وقف بورڈ کی جائیداد کی رجسٹریشن تصدیق، لین دین میں شفافیت آئے گی اور اس سے غریب مسلمانوں کو وقف کے تنازعات سے آزادی ملے گی۔
اسی طرح آل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ کے مرکزی صدر نے حکومت کی مجوزہ وقف ترمیمی بل کی حمایت کیا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ بورڈ پر 15 فیصد آبادی والے اشرف (اعلی طبقے کے افراد مسلمانوں کا قبضہ ہے) مولانا سجاد نعمانی مولانا اسد مدنی اور ان کے معاون لوگ وقت جائیداد پر سانپ کی طرح کنڈلی مارے بیٹھے ہیں جبکہ 8 فیصد پسماندہ انتہائی پسماندہ استحصال زدہ اور محروم مسلمان یعنی پسماندہ مسلمانوں کو عرصے سے دھوکہ دیا جا رہا ہے مسلمانوں کو وقف کی جائیداد سے کوئی فائدہ نہیں مل رہا ہے ان کا ماننا ہے کہ بل اس بل کا مخالف کرنے والے مولانا ارشد مدنی جیسے لوگوں کی دلیل مطلب پرستی والی ہے۔
اور مدنی نے پسماندہ مسلمانوں کے حق میں کبھی کچھ نہیں کیا اس کے برخلاف ان کا استعمال کیا ہے مجوزہ وقت ترمیمی بل سے حکومت کچھ اچھا کرنا چاہتی ہے تو مدنی اور ان کے معاون حکومت کے خلاف تحریک چلانے میں مشغول ہیں۔وقف بورڈ ترمیمی بل کو لے کر مسلم معاشرے کے سب سے نچلے طبقے کو امید کی روشنی دکھائی دیتا ہے۔وقف کی اڑ میں کئی مقامات پر زمین مافیا پیدا ہو گئے جنہوں نے قبرستان پر قبضہ کر لیا اور حکومت سے ملنے والی ہر مدد کا خود فائدہ اٹھایا زمین مافیا نے وقف ارازی پرائیویٹ پراپرٹی بنا کر فروخت کر دیا اور اسے معمولی نرخوں پر لیز پر دے کر بڑے بڑے شاپنگ کمپلیکس بنا کر بھاری کرایہ وصول کیا جا رہا ہے۔
اس تاریخ ترمیمی بل کے ذریعے حکومت کی طرف سے وقف بورڈ میں معتبر تبدیل کا دعوی کیا جا رہا ہے جس کو لے کر پسماندہ معاشرہ پر امید ہیں۔جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی اس بل سے متعلق تمام مشترکہ لوگوں کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے تاکہ اس بل سے متعلق کسی بھی شکوک کو دور کیا جا سکیں اس سلسلے میں یہ توقع ہی کی جا سکتی ہے کہ اس بل کو قانون میں تبدیل کرنے کا کام حکومت کی طرف سے مناسب بات چیت اور بحث کے بعد ہی کیا جائے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں