تازہ ترین

جمعرات، 16 نومبر، 2017

مدارس پر ایک مضمون اور میری چند گزارشات

 مدارس پر ایک مضمون اور میری چند گزارشات
تحریر، ایاز احمد اصلاحی
م(مدارس،خصوصا مدرسة الاصلاح کے تعلق سے برادر عزیز علم اللہ۔ صاحب کا ایک۔مضمون پہلے  سوشل میڈیا پر ظاہر ہوا اور بعد میں وہ سہ روزہ دعوت میں بھی شائع ہوا۔۔۔اس مضمون پر ایک استدراک مدرسةالاصلاح کے سینیئر استاذ مولانا عمر اسلم اصلاحی کا بھی دو تین روز قبل اسی اخبار میں شائع ہوا ہے۔۔۔۔اسی تعلق سے بعض وضاحتوں کے لیئے یہ مختصر تحریر یہاں پیش ہے۔  یہ دونوں مذکورہ مضامین اتنے طویل ہیں کہ  انھیں یہان نقل کرنا ممکن نہیں۔ویسے بھی میری تحریر کے جو اولین مخاطب ہیں امید یہی ہے کہ وہ اس سے واقف ہوں گے۔۔۔۔اسلیئے میں یہاں اپنے مضمون کے آخر میں محض ان دونوں کے لنک دینے پر اکتفا کرون گا تا کہ تفصیل کے 
طالب کو کوئی دقت نہ ہو۔۔۔اب اپ میری تحریر ملاحظہ فرمائیں۔ اس گذارش کے ساتھ کہ میری ان مختصر معروضات کو مثبت زاویہ نظر سے دیکھا جائے کیوں کہ اس  کا مقصد نہ کسی کی بیجا طرفداری ہے اور نہ اپنی کسی رائے کو دوسرون پر مسلط کرنا)۔

برادم علم اللہ صاحب سے میرا تعارف نہیں ہے لیکن جب پہلی بار ان کا یہ  مضمون ایک وھاٹساپ گروپ پر دیکھا تو تعجب کے ساتھ افسوس بھی ہوا،  مدارس ہوں یا امت کے دوسرے ادارے اور مراکز ہر جگہ اور ہر وقت اصلاح کی بھی گنجائش ہے اور غور و فکر کی بھی، نصاب تعلیم بھی زیر بحث آنا چاہیئے اور معیار تعلیم بھی۔  عام لوگون کو ہی نہین خود اہل مدارس کو بھی اس کا اعتراف ہے کہ مدارس کے معیار میں  وقت کے ساتھ تنزلی آئی ہے اور جوش عمل  میں بھی فرق آیا ہے۔ اج یہ سوال بالکل بے محل بھی نہیں ہے کہ : جہاں ستارے کبھی نوجوانوں کی منزل قرار پاتے تھے،اور شاہین بچوں کو اسمان کی بسیط فضائوں میں پرواز کرنے کی تربیت دی جا تی تھی وہاں اب بیشتر بچے خاکبازی تک ہی محدود ہوکر کیوں رہ جاتے ہیں۔۔۔۔۔شاہین کا جہاں بدل کیوں رہا ہے اور پرواز میں یہ کوتاہی کس وجہ سے ارہی ہے؟۔۔۔۔۔۔۔ یہاں اسی سے جڑے اور  سوالات بھی ہیں ، آخر اس انحطاط کے بنیادی اسباب کیا ہیں ؟ اس کا ذمہ دار کسے قرار دیا جائے؟ اور اب اصلاح و تغیر کا آغاز کہاں سے ہو؟ ان نکات پر مباحثہ و مذاکرہ ہو نے میں کوئی قباحت نہیں ہے،اور جہاں تک مجھے معلوم ہے مدارس کی انجمنوں اور ان کی انتظامیہ کو بھی ان چیزوں کا احساس ہے اور وہ ان مسائل پر گفتگو کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتے، نیز ان کے اپنے احاطو ں میں (جیسا کہ کم سے کم اصلاح و فلاح کے تعلق سے مجھے علم ہے) ان امور پر کھل کر گفتگو ہوتی ہے۔۔۔ 

معیار تعلیم و تربیت میں وقت کے ساتھ گراوٹ نہ آئے اس کی فکر کرنا اہل مدارس کی ہی نہیں ہم سب کی  ذمہ داری ہے، اصلاح حال کے لیئے ابتری کے اسباب کا بے لاگ جائزہ لینا بھی ضروری ہے، تبصرہ کرکے آگے بڑھ جانا بیگانوں کا کام ہے ، اپنے تو اخلاص کے ساتھ مسائل کا تعین کرتے ہیں اور ان کا حل بھی ڈھونڈتے ہیں۔ ۔۔۔مدارس کے معیار تعلیم و تربیت میں موجودہ انحطاط کے اسباب  میں سے ایک اہم سبب میرے نزدیک یہ بھی ہے کہ دینی تعلیم اور مدارس کی اہمیت کے تعلق سے امت مسلمہ میں اس وقت پہلے جیسی بیداری باقی نہیں رہی  ،اس کی وجہ یہ ہے کہ بڑے مدارس کے قیام کا سب سے بڑا مقصد تحفظ دین و شریعت تھا اور اس سے حاصل ہونے والے دوسرے معاشی و سماجی فوائد ضمنی تھے۔۔۔۔لیکن اب ہماری اکثریت مدارس کو جس نظر سے دیکھتی ہے اس کے مطابق جو مقاصد ضمنی تھے وہ اصلی قرار پاگئے اور جو  شیئ مقصود حقیقی تھی وہ ضمنی بن کر رہ گئی ہے۔ مدارس کے تعلق سے ہمارے اس تبدیل شدہ رویے نے اور ہماری بدلتی ترجیحات نے مدارس کی کار کردگی پر  سب سے زیادہ منفی اثر ڈالا ہے۔

اگے بڑھنے سے پہلے  ایک بار پھر یاد دہانی کرادوں کہ میں مدارس کے سلسلے میں کسی مثبت تنقیدی و اصلاحی گفتگو کو ذرا بھی غلط نہیں مانتا۔ البتہ ہمیں ان پر غور کرتے ہوئے ان حقائق پر  اس طور  سےنظر رکھنی ضروری ہے کہ امت کے ایک فرد کی  حیثیت سے  ہم میں سے ہر ایک اپنے آپ کو ان حالات اور   ان کی ذمہ داریوں کا خود کو بھی ایک حصہ سمجھے۔ ساتھ ہی یہ بھی دیکھنا اشد ضروری ہے کہ ہمارا تبادلہ خیال ایسے رخ پر بھی نہ چلا جائے کہ اس سے مدارس کی ساکھ کے متاثر ہونے اور بدگمانیوں کے راہ پانے کا خطرہ پیدا ہو جائے ۔  اتنی احتیاط اسلیئے بھی لازم ہے کہ جو قوم اخلاقی، سیاسی اور معاشرتی لحاظ سے  زوال کے آخری درجے میں ہو وہاں داخلی و خارجی سطح پر  بنیاد کو کمزور کرنے والے حادثوں کا رونما ہونا کبھی بھی متوقع ہے، ہمیں ایک مسلمان کے طور سے بہرحال اتنی احتیاط تو کرنی ہی چاہیئے کہ کہیں   جانے انجانے میں ہم خود ان حادثات کا سبب نہ بن جائیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔

دعوت میں چھپے جس مضمون کی وجہ سے میں یہ گذارشات پیش کر رہا ہوں،اس سے میں ذرا تاخیر سے واقف ہوا ورنہ شاید  اس کا جواب میری طرف سے اسی وقت آجاتا ، البتہ۔وھاٹساپ پر مجھے یاد پڑتا ہے کہ بعض باتوں کی طرف متوجہ کرنے کے لیئےاس پر ایک مختصر تبصرہ میں نے بھی کیا تھا، اس مضمون میں دوسری باتیں تو ایسی ہیں جو ڈیبیٹ ایبل  کہی جا سکتی ہیں اور ان میں رایوں کا مختلف ہونا بھی ممکن ہے۔۔۔ جیسے معیار تعلیم میں ترقی، طریقہ تدریس میں وقت کے ساتھ تبدیلی اور نصاب تعلیم میں تنوع وغیرہ۔۔۔۔بے شک ان پہلووں پر بحث کرنا نہ تو جرم ہے اور نہ مدرسہ دشمنی۔، البتہ دوسرے مسئلوں کی طرح اس مسئلے میں بھی انتہائی ضروری ہے کہ ہر بات مدلل ہو اور ساتھ ہی ہر رائے کو پورا احترام ملے،اس میں نہ تو ہماری عظیم تعلیم گاہوں کا استھزا ہو اور نہ کسی رائے پر بیجا  اصرار۔

لیکن اس مضمون کی جس بات نے مجھے سب سے زیادہ  چونکایا تھا وہ صاحب مضمون کا یہ کہنا  ہے کہ مدرسةالاصلاح سمیت ان تمام مدارس میں عام طور سے ملک دشمنی کا ماحول پیدا کیا جاتا ہے،اور طلبہ کی اسی لحاظ سے تربیت بھی کیجاتی ہے۔ ظاہر ہے یہ ایسی بات نہین تھی جس سے کم سے کم میرے جیسا شخص سرسری گزر جاتا، پہلے میں نے سمجھا کہ یہ ایک چھوٹی سی تحریر ہے جو ایک گروپ میں تبادلہ خیال کے لیئے پیش کی گئی ہے اور وہیں تک محدود ہے۔۔۔تاہم بعد میں پتہ چلا کہ اسے فیس بک اور وھاٹساپ کےمختلف گروپوں میں ایک منصوبے کے تحت عام کیا جا رہا ہے یہاں تک کہ اسے دعوت میں بھی شائع کردیا گیا۔

اس تحریر نے دو وجہوں سے مجھے خاص طور سے تشویش میں مبتلا کیا تھا۔۔۔۔۔ایک  تو مضمون نگار کا مدرسے سے فارغ ہونے کے باوجود یہ کہنا کہ وہاں علم و تعلیم نام کی کوئی قابل لحاظ چیز طلبہ کو نہین ملتی،ان کی تحریر سے یہ تاثر ملتا ہے جیسے وہاں سب کچھ صفر ہو،ظاہر ہے اسے ایک ایسا شخص جو حقائق سے واقف ہو یا تو مبالغہ سے تعبیر کرے گا یا اسلوب کی غلطی سے۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ مدارس مدارس ہیں اور یونیورسٹیاں یونیورسیٹیان ہیں،ان دونوں میں کوئی ایسی مناسبت نہیں ہے کہ ان کے نتائج یا  وہاں کے طلبہ کی ذہنی و علمی سطح کا موازنہ کیا جائے۔۔۔۔۔۔۔ کسے نہیں معلوم کہ یونیورسیٹیان وسائل سے مالا مال اعلی تعلیم کے مراکز ہیں جب کہ محدود وسائل والے ہمارے یہ مدارس ملت اسلامیہ کےایسے تہذیبی و ثقافتی قلعے ہین جو بنیادی طور سے یونیورسٹی سطح کی ڈگریاں فراہم کرنے کے لیئے نہیں بلکہ مسلمانوں کے دینی و تھذیبی وجود کے تحفط کے لیئے تعمیر کیئے گئے تھے، یونیورسٹیوں میں طلبہ ایم اے اور پی ایچ ڈی کے لیئے جاتے ہیں جب کہ مدارس میں محض فاضل تک کی تعلیم ایسے طلبہ کو دی جاتی ہے جو اس سے پہلے علوم اسلامیہ و عربیہ سے بالکل نا آشنا ہوتے ہیں اور یہیں سے وہ ان علوم کی الف ب شروع کرتے ہیں۔یہ فرق ملحوظ نہ ہو تو ہم ان اداروں کے درمیان بلاوجہ موازنہ کرکے ایک طرف لوگوں کو مایوسی و احساس کمتری میں مبتلا کریں گے تو دوسری طرف مدارس سے غیر فطری  انداز میں وہ نتائج حاصل کرنا چاہیں گے جو عملی طور سے یہاں ممکن نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اسلیئے ہمیں اپنے احتساب میں  مدارس کا مقابلہ اعلی تعلیم کے جدید  ادارون سے کرنے کی بجائے یہ دیکھنا چاہیئے کہ  یہ مدارس آج بھی  وہ اعلی مقاصد پورے کر رہے ہیں یا نہیں جو ان کے کا قیام کا اصل سبب ہیں ، یا پورا کر رہے ہیں تو کس حد تک کر رہے ہیں۔۔۔۔ میری اپنی رائے میں مدارس کے تعلق سے ہماری ہر بحث بے سود قرار پائے گی اگر اس میں  اس مرکزی نقطہ پر خاطر خواہ توجہ نہ دی جائے ۔ 

 یہ تو اس مضمون کا ایک پہلو ہے جو میرے لیئے قابل توجہ بنا لیکن اس سے بھی زیادہ چونکانے والی بات اس میں یہ ہے کہ صاحب  مضمون نے اپنی  مادر علمی کے پورے نظام تعلیم و تربیت  اور اس کے پورے ماحول کو ملکی نطام کا مخالف قرار دیا ہے۔ اس آخری بات سےمجھے  سب سے زیادہ صدمہ پہنچا اسلیئے کہ مین بھی اسی مدرسے کا فارغ ہوں اور مجھے علم و حکمت کا اصل سرمایہ وہیں سے ملا ہے۔ ۔۔۔۔۔میرا ذاتی تجربہ اس بات کی تایید نہیں کرتا  کہ وہاں کا ماحول ملک مخالف ہوتا ہے یا طلبہ کو وہاں ملکی و وطنی حالات و مسائل سے اس طرح بے خبر رکھا جاتا ہے کہ ان کا ملک سے کوئی تعلق ہی باقی نہیں رہتا ۔۔۔۔۔، اس حوالے سے پہلی بات تو یہ کرنی ہے کہ  یہ چاہے مدارس میں فضیلت کے طلبہ ہوں یا کالج کے2+ 10کے۔اسٹوڈنٹس،اس اسٹینڈر کے طالب علموں کی عمر ایسی نہیں ہوتی کہ وہ  حکومت کے اتار چڑھاؤ،ریاستی نظام کے مالہ و ماعلیہ ، جمہوریت کے محاسن و معایب، ملک کے سیاسی انڈکسز، اور بین الاقوامی حالات  کی باریکیوں سے پوری طرح آگاہ ہوجائیں۔۔۔۔میں تقریبا دو دہائی سے تعلیم کے ہی پیشے سے وابستہ ہوں، میرے تجربے کے لحاظ سے اس میدان میں کالج اور مدارس کے طلبہ میں بہت زیادہ فرق نہین ہوتا۔۔۔جہاں تک  جی کے کا مسئلہ ہے تو ان دونوں تعلیم گاہوں کے ماحول اور ترجیحات کے فرق کی وجہ سے طلبہ کے جنرل نالج میں بھی فرق رہتا ہے۔ میرے اپنے بچے نے جس اسکول(لا مارٹینیر کالج) سی انٹر کیا ہے وہ لکھنؤ ہی نہیں ہندوستان کے چند بہترین اسکولون مین شمار ہوتا ہے، اور اللہ کا شکر ہے وہ خود بہت ذہین و باصلاحیت ہے، اس کے باوجود میں یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ وہ وہاں سے فراغت کے وقت ان امور میں بہت آگے تھا جن میں میرے بھائی کو یہ شکوہ ہے کہ مدارس کے طلبہ بالکل کورے ہوتے ہیں۔۔۔۔استثنائی مثالون سے انکار نہیں،یہ یہاں بھی ہے اور وہاں بھی۔۔۔۔۔ میں خود اپنی مثال بطور تفہیم مسئلہ پیش کر رہا ہوں۔۔۔۔  میں نے بھی اس مٹی میں پورے آٹھ سال گزارے ہیں، لیکن میرا حال یہ تھا کہ میں اپنے عہد میں وہاں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مسئلہ افغانستان ، اندرا گا ندھی کے سیاسی مستقبل اور سیاسی پارٹیوں کے فکری بیک گراؤ نڈ جیسے امور پر  گھنٹوں تبادلہ خیال کرتا تھا جب  کہ میں ابھی عربی سوم،چہارم  کا طالب علم تھا۔۔۔۔۔۔آخری کلاس میں پہنچتے پہنچتے  ہم چند دوستوں کی ذہنی و فکری سرگرمیوں کا معیار اتنا بلند ہو گیا تھا کہ ہم اشتراکیت،جمہوریت اور سرمایہ پرستی جیسے ازمس اور  اور دیگر کنٹمپریری سماجی و سیاسی نظریات پر خود اپنی رائے ظاہر کرنے لگے تھے، اس معیار کے ساتھ اس وقت ہمیں مقامی یا گھریلو موضوعات پر گفتگو کرنے میں لطف ہی نہین آتا تھا۔ یہ ایک حقیقت ہےکہ یہ معیار گفتگو اس وقت ملکی جامعات کے بی اے اور ایم اے کے طلبہ مین بھی نظر نہیں اتا۔ اس صحتمند ماحول میں ہم حالات اور ملکی مسائل سے کبھی بھی خود کو الگ نہیں سمجھتے تھے، اسلیئےصاحب مضمون کی اس بات کی میں تایید نہین کرسکتا کہ وہاں کبھی ایسا بھی ماحول رہا ہے جو ہمیں ملک و قوم سے بیگانہ کرنے والا ہو۔

 ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ نہ تو وہاں  وطن سے بیزاری کا کوئی۔رجحان ہے اور نہ ہی فرقہ پرستی کو ہوا دی جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔ وہاں کے ماحول میں مجھے کبھی بھی کوئی ایسی بات نہیں نظر آئی جسے ملک مخالف کہا جا سکے۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر برادر موصوف کو کہاں سے اس کا احساس ہوا، اس کی بنیاد کیا ہے پتہ نہیں؟البتہ ہمیں یہ اعلان کرنے میں کوئی خوف نہیں کہ ہم وطن دوست ہیں لیکن وطن پرست نہیں،اور ہم ہر وقت اپنی وطن دوستی کا ثبوت دیں یہ بھی ضروری نہیں، یہ ملک ہمارا ہے،اس کی تعمیر میں کسی بھی قوم سے زیادہ ہمارا حصہ ہے اور اس کی آزادی میں ہمارا بھی خون جگر شامل ہے۔اس لیئے اس پر ہمارا اتنا ہی حق ہے جتنا کسی اور کا۔

  اج کل مدارس،جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں بی جے پی کی مرکزی و ریاستی حکومتوں کے نشانے پر ہیں،  ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے  تقریبا  ہر روز ہندوستانی مدارس کو دپشت گردی کا اڈہ اورنہ جانے کیا کیا کہا جاتا ہے۔ مدرسة الاصلاح بھی ابو البشر اصلاحی کی مشتبہ گرفتاری کے بعد اس تکلیف دہ مرحلے سے گزر چکا ہے۔۔۔۔۔ ایسے میں خود مدارس کے فارغین کی طرف سے با قاعدہ اپنی مثال پیش کر کے مدرسے کے ماحول  کو ملک دشمن یا ملک بیزار  بتا کر اسے ہر طرف عام کرنا کسی بھی طور سے مناسب نہیں ہے۔۔۔ اس وقت بھی میں نے اس جانب متوجہ کیا تھا کہ  یہ ایسی بات ہے جو اگر مسلم دشمن قوتوں کے ہاتھ لگ گئی تو وہ اسےمدارس اور امت کے خلاف ایک کارآمد  ہتھیار کے طور سے استعمال کر نے سے نہیں چوکیں گے اور اس بے بنیاد بات کو مشتہر کرنا ہر پہلو سے خطرناک  ہے۔۔۔۔۔لیکن افسوس کہ صاحب مضمون اس حقیقت کوقبول کرنے کے لیئے تیار نہیں اور تعجب ہے  بعد میں دعوت نے بھی اسے بغیر کسی ایڈیٹنگ کے شائع کردیا اور یہ بھی نہیں دیکھا کہ یہ مضمون پہلے سے سوشل میڈیا پر شائع شدہ ہے۔ بہر حال مضمون کا یہی پہلو ہے جو مجھے اب  بھی سب سے زیادہ تشویشناک لگ رہا ہے، لیکن مضمون نگار کا انداز بتا رہا ہے کہ چاہے اپ امت کا حوالہ دیں یا مدارس کے مستقبل کا وہ اپنے صحافتی جوش  کے سبب یا کسی اور  وجہ سے فی الحال اس پر نظر ثانی کے لیئے قطعا تیار نہین ہیں۔ وہ مدارس عربیہ کے طلبہ کا ذہنی لیول ناپ رہے ہیں لیکن ان کا اپنا حال یہ ہے کہ جب ان کے مضمون کے اس مخصوص پہلو پر مدرسہ کے بعض فارغین اور بہی خواہوں کی طرف سے تشویش ظاہر کی گئی تو اس پر نظر ثانی کرنے یا اس کا کوئی سنجیدہ  و معقول جواب دینے کی بجائے اس احساس پر ان کی طرف سےجو رد عمل آیا ہے وہ بھی عجیب ہے:  موصوف گرامی کا کہنا ہےکہ یہ جو بعض لوگ مدارس کے سلسلے میں میری  تحریر پر یہ اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ مسلم دشمن عناصر  اس قسم کی باتوں کا غلط استعمال بھی کر سکتے ہیں ،  تو یہ  ایسی ہی بات ہے جیسے گرجا گھروں کے جنسی اسکینڈلس کو محض بدنامی کے ڈر سے چھپانے کے لیئے دباؤ  ڈالاجائے۔۔۔۔۔۔ دیکھا آپ نے موضوع کیا ہے اور یہ ناپختہ دانشور کہاں بھٹک رہا ہے۔  اعتراض ہے ان کی اس بات پر جسے انھوں نے مدارس میں اپنی طالب علمی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہاں ایک ملک دشمنی جیسا ماحول پایا جاتا ہے اور وہاں ملکی مسائل و مفادات سے تعلق نہیں کے برابر ہوتا ہے۔اس پہلو پر مزید تبصرے کی ضرورت نہیں، اپ خود اندازہ کرسکتے ہیں کہ ہماری تشویش سے اس بے ربط رد عمل کا کتنا تعلق ہے ۔ جب ایک واضح اور بعید از حقیقت بات پر واضح طور سے یہ کہ کر گرفت کی گئی کہ کہیں ایک شخص کی ایک غیر ثابت شدہ ذاتی رائے کو بنیاد بنا کر مدارس کے وہ دشمن جن کی آنکھوں میں دینی مدارس کا وجود کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے اس کا بیجا استعمال نہ کریں اور مدارس کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک نیا سلسلہ نہ شروع کردیں تو اس کے جواب میں مثال دی جارہی ہے  دوسرے قوموں کے معابد میں رونما ہونے والے جنسی اسکینڈلوں سے۔ عقل حیران ہے اس اس شعور پر اور اس اسلوب  نگارش پر۔

  اسی طرح انھوں نےایک ہی سانس میں (مدارس کے تعلق سے اپنی ایک دوسری تحریر میں جو ان کی فیس بک وال پر موجود ہے)  بہت سی ایسی باتیں کہ ڈالی جن کا باہمی ربط بھی سمجھ سے باہر ہے۔  ان کے انھیں لطیف نکات مین سے ایک یہ بھی ہے کہ مسلمان بھلے  ہی سائنس میں اسلاف کے کارناموں پرفخر کرتے پھریں  لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں نے اس فیلڈ میں کبھی کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا۔ ان کے بقول اس میدان میں مسلم قوم کے نام کوئی خاص کارنامہ نہین  ہے۔اب اس پر میں کیا تبصرہ کروں؟،میں خود ایم اے عرب کلچر کے 
فائنل کے طلبہ کو اس موضوع پر 
( Arab Contribution to science and literature)
کے نام سے ایک پورا پیپر پڑھاتا ہوں،اب یہ بات تو صحیح نہین لگتی کہ میں یہاں  ویل ڈیوران ،میکس مرہاف،سارٹن اور ڈریپر سمیت ان دسیوں یورپی اسکالرز کو کوٹ کر کے یہ ثابت کروں کہ مسلمان ہی نہین بلکہ پوری دنیا  کا پڑھا لکھا طبقہ مسلم سائنسدانوں کو سائنس کی کم و بیش تمام جدید برانچز کا موجد مانتا ہے، یہی نہیں وہ سائنسی ایجادات و اختراعات کے لحاظ سے عہد وسطی کی درمیانی (نویں تا گیارویں) صدیوں کو مسلمانوں کی صدیاں مانتے ہیں اور اسے وہ عربوں کا گولڈن ایج کہتے ہیں۔  یہ یورپی دانشور اسی کےساتھ اس کا بھی برملا اعتراف کرتے ہیں کہ مسلم حکمرانوں اور مسلم قوم  کی طرف سے مذہب کا نام لیکر ان سائنسی تحقیقات میں کبھی روڑے نہین اٹکائے گئے۔ ۔ اس کے ثبوت مین وہ ہارون،مامون اور بے شمار مسلم حکمرانون کی خدمات کو بطور مثال پیش کرتے ہیں، جنھوں نے تاریخ میں زمین کے سائنفک میزرمنٹ کا پہلی بار سرکاری طور سے اھتمام کیا اور اس کے لیئے اس وقت کے مسلم سائندانوں کی خدمت حاصل کی،اس کے علاوہ تاریخ شاہد ہے، ان مسلم خلفاء نے اپنے سائنسدانوں کی حوصلہ افرائی کے لیئے وہ تمام اقدامات کیئے جو جدید دور کی ترقی یافتہ قومیں کرتی ہیں۔یہ مسلم حکمراں ہی تھے  جنھوں نے، بیت الحکمت قائم کرکے سائنس و فلسفہ کے میدان میں ایک عالمی تاریخی انقلاب کی بنیاد رکھی۔  سائنسی تحقیق و جستجو کی وجہ سے ہمت شکن حادثات تو مغربی سائندانوں کو پیش ائے کہ جنھیں اپنی سرگرمیوں کی پاداش میں عیسائی حکمرانوں اور اپنے مذہبی پیشواؤں کی طرف سے سزائے موت سمیت بہت سے روح فرسا نتائج بھگتنے پڑے۔ لیکن ہمارے بھائی کی رائے تو اس تعلق سے بالکل نئی ہے،پتہ نہیں اپنی رائے دینے سے پہلے اس موضوع پر  انھیں کتنی کتابیں دیکھنے کا موقع ملا ؟،۔ بہر حال جو شخص بھی ان حقائق سے واقف ہوگا اور محض الفاظ و حروف کو ترتیب دے کر کچھ لکھ دینا ہی اس کی منزل نہیں ہوگی وہ بغیر سوچے سمجھے یہ نہ فرمائے گا کہ سائنسی تحقیقات کے نام پر  مسلم علما نے کوئی خاص کام نہین کیا ہے اور نہ ہی اس کے لیئے ان کی کبھی حوصلہ افزائی  ہوئی، بلکہ جو اکا دکا لوگ اس میں کسی مقام تک پہنچے انھین اپنی جان بچانی مشکل ہوگئی۔۔۔۔۔۔میرا خیال ہے ایک عام انسان بھی جبب اس قسم کی باتیں پڑھے گا تو حیرت کیئے بنا نہیں رہےگا۔۔۔۔۔ اگر میں اس مسئلے کی تفصیل میں گیا تو ایک دوسرا مضمون تیار ہوجائےگا۔۔۔۔الب​تہ جی چاہتا ہے کہ اس بات کو یہیں ختم کرکے اپ حضرات کا تحیرآمیز رد عمل دیکھنے کے لیئے کسی کونے میں کھڑا ہو جاؤں اور سر سید کی برح چپکے چپکے مسکراؤں۔ ۔

یہ ہے ہمارے ایک نوجوان بھائی کی تحریر کا حال،جہاں نہ کہیں ڈیش نظر ارہا ہے اور نہ کوئی کاما ، لیکن میں اب بھی کسی بدگمانی میں مبتلا نہین ہوں،امید یہی کرتا ہوں کہ یہ سب لا علمی اور نا تجربہ کاری میں ہو رہا ہےاور آج نہیں تو کل ان شاء اللہ ان کا قلم ملک و ملت کی ضرور کوئی مثبت خدمت کرے گا۔صورت حال ایک جگہ ٹھری ہوئی ہو توایسے میں جواب و استدراک کے علاوہ چارہ ہی کیا رہ جاتا ہے؟ ۔البتہ کوشش یہی رہے کہ یہ سلسلہ قابو سے باہر نہ جائے تا کہ نہ تو ملت کو کوئی نقصان پہنچے اور  نہ ہمارے برادرانہ تعلق کو۔

 ان اہم پہلووں کے مد نظر میں یہاں  ایک بار پھر برادر عزیز سے مخلصانہ گزارش کروں گا کہ وہ اپنی بعض ایسی رایوں پر نظر ثانی کریں جن کا حقیقت سے بظاہر کوئی تعلق نہیں ہے اور اپنے اصل مضمون پر بھی نظر ثانی کر کے اس میں ان مقامات پر ردو بدل کرلین جن کی یہاں یاد دہانی کی گئی ہے،ایسا ہو تو یہ سبھی کے حق میں بہتر ہوگا،نیز مدارس کے تعلق سے ہماری بحث بھی صحیح و متوازن رخ  پر آگے بڑھے گی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad