تازہ ترین

جمعرات، 16 نومبر، 2017

عالمہ سے نکاح؟

عالمہ سے نکاح؟
تحریر،محمدتوصیف قاسمی
یہ فکر عام تو نہیں ، اور نہ ہی پورا طبقہ اس سے متفق ہو سکتا ہے ، لیکن اتنی نامناسب بات جس کثرت سے رواج پارہی ہے بے حد حیرت ناک ہے ، طالب علمی سے بعض علماء کو دیکھا جو اس کی تشکیل کیا کرتے تھے اور تکمیل کے بعد سے اب تک بعض ایسے مرحوم العقل حضرات سے سابقہ پڑتا رہتا ہے جو علماء ہو کر بھی عالمہ سے نکاح نہ کرنے کی باقاعدہ تشکیل کیا کرتے ، اور بلا تفریق وہ عالمہ کو اس لائق نہیں سمجھتے کہ وہ ان سے کم از کم علماء نکاح کریں ، اور اس بدعقیدگی پر ظاہر ہے دلائل مضحکہ خیر اور افسوسناک نہ ہوں تو کیا ہوں؟
اگر یہ بات کسی اور طبقہ سے چلی ہوتی تو تعجب ضروری نہ تھا ، لیکن یہ مشورہ دینے والے اور کوئی نہیں بلکہ خود علماء ملے ، اس کا مطلب یہ ہرگز ہرگز نہیں کہ سارے علماء کی یہ فکر ہے ، بلکہ جیسا کہ کہا گیا کہ جن کی عقلیں قابل رحم ہیں بس انہیں میں یہ بات ہے ، جب بات مشاہدہ سے بڑھ کر تشکیل کے درجہ تک جاتے دیکھی تو محسوس ہوا کہ اسے نظر انداز کرنا صحیح نہیں.
 جب ایسے علماء علم کے فضائل بیان کرتے ہیں تو بھول نا جانے کون سی دلیل ان کے پاس ہوتی ہے جس سے وہ عالمات کو اس علم کی فضیلت سے خارج کردیتے ہیں ، سوائے اس کے کہ یہ دوہرا معیار انھوں نے بنایا ہوا ہے ، اپنے مطلب میں علم فضیلت کی چیز ہوگیا ، اور جہاں ہماری رائے نہیں وہاں فضیلت ہی نہیں.
 اگر کہا جائے کہ عالمات کی تعلیم کا معیار اچھا نہیں ، یا اس فارغ طالبات علمی صلاحیات نہیں رکھتی تو یہ بھی بلاشبہ انتہائی بوگس دلیل ہے .
طلبہ کا طالبات سے مقابلہ برابری کا تب ہو جب کہ دونوں ایک درجہ عقل و صلاحیت کے فرض کئے جائیں ، کتنی ناانصافی ہے کہ بطور نمونہ طلبہ تو آپ نے اعلی صلاحیت والے مثال کے لئے منتخب کئے اور طالبات میں کم صلاحیت والیوں سے مقابلہ کریں تو ظاہر ہے یہ مقابلہ ہے ہی نہیں ، کیونکہ اس میں برابری نہیں ، برابری کا مقابلہ تو کچھ مقابلہ کسی درجہ صحیح ہوگا ، اگرچہ دونوں کی اعلی صلاحیتوں کے مابین بھی کچھ فرق ہے ، لیکن یہ بس صنفی فرق ہے ، جو قدرتی ہے .
 اگر کہا جائے کہ عالمات کی تعلیم کا معیار اچھا نہیں ، یا اس فارغ طالبات علمی صلاحیات نہیں رکھتی تو یہ بھی بلاشبہ انتہائی بوگس دلیل ہے .
طلبہ کا طالبات سے مقابلہ برابری کا تب ہو جب کہ دونوں ایک درجہ عقل و صلاحیت کے فرض کئے جائیں ، کتنی ناانصافی ہے کہ بطور نمونہ طلبہ تو آپ نے اعلی صلاحیت والے مثال کے لئے منتخب کئے اور طالبات میں کم صلاحیت والیوں سے مقابلہ کریں تو ظاہر ہے یہ مقابلہ ہے ہی نہیں ، کیونکہ اس میں برابری نہیں ، برابری کا مقابلہ تو کچھ مقابلہ کسی درجہ صحیح ہوگا ، اگرچہ دونوں کی اعلی صلاحیتوں کے مابین بھی کچھ فرق ہے ، لیکن یہ بس صنفی فرق ہے ، جو قدرتی ہے .
 کہیں کوئی ان کی اخلاقی حالت کو لے کر چرچا کر ڈالتا ہے ، جس میں بہت فرضی اور کچھ واقعی باتیں ہیں ، یہاں بھی وہی بات ہے جو پہلے گذری کہ اُدھر سے انتخاب کیا تو خراب اخلاق والی کا اور اِدھر اس کے مقابل اعلی اخلاق والے کو رکھا ، یہ بھی ایسی ہی بے سر پیر کی بات ہے ، موازنہ کرنا ہے تو دونوں ہم وزن لینا چاہئے نہ کہ ایک بڑھتا ہوا اور ایک گھٹتا ہوا ، جس طرح مدارس کے طلبہ میں صلاح و تقوی اور اخلاقی حالت میں مختلف درجات رکھتے ہیں ، اسی طرح ان کا بھی معاملہ ہے ، اگر بعض کی کمی اور خامی پوری جماعت کو بدنام کرتی ہے تو ایسے افراد طلبہ مدارس میں بھی اتنی ہی کثرت سے ہیں.
اگر یوں تبصرہ کیا جائے کہ اتنی عالمات فارغ ہوکر جاتی کہاں ہیں تو ان سے زیادہ تعداد طلبہ کی ہے بلکہ کئی گنا زیادہ ہے ، ان کا بھی پتہ نہیں .
 بعض حضرات اس تشکیل کی وجہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ "بعض" اکابر بنات کے دارالاقامہ کے قائل نہیں ، ظاہر ہے کہ بعض لگا ہوا ہے جس میں سب نہیں شامل کیوں کہ سب کی رائے نہیں ، اہل فتوی نے اس پر کوئی صریح نکیر نہیں کی ، لیکن حیرت کی بات دیکھیں کہ ان بعض اکابر نے صرف جن اندیشوں اور گمان سے منع کیا تھا یہ بے چارے ان اندیشوں کو حتمی و یقینی تصور کرکے پوری جماعت طالبات کو ہی مطعون کرنا چاہتے ہیں جو کہ خود ان اکابر کی رائے بھی موافق بھی نہیں ، اور جی ہاں اسی کو کہتے ہیں غلو .
 ایسے لوگ جب علماء کے نکاح سمیت دیگر معاملات پر بات کرتے ہیں کہ تو معلوم ہوتا ہے دنیا میں مظلوم تر کوئی قوم ہے تو وہ علماء کی ہے اور اس کی وجہ بھی اور کچھ نہیں سوائے علم کے ، لیکن اسی علم کی نسبت اس صنف کے ساتھ کردے تو اس کے احکام ہی بدل جاتے ہیں ، تب تو حقوق کی مراعات کے ہی لائق نہیں رہ جاتی ، اضافی معاملات - جو علماء کے شایان شان ہیں- ان کا تو ذکر ہی کیا .
 یہ لوگ جب علماء کی فضیلت ثابت کرنے پر آتے ہیں تو ایسے دلائل بھی موجود ہیں علماء غیر عامل بھی ہوں تو غیر علماء کے لئے تو واجب الاحترام ہیں ، نیز " قل هل يستوى الذين يعلمون والذين لايعلمون " یا اس جیسی آیات و روایات کا بھی ڈھیر لگا دیتے ہیں ، لیکن یہی علم اگر عورت سے منسوب ہوجائے تو اسی اس کی تاویلات بعیدہ نہیں تاویلات غلیظہ میں لگ جاتے ہیں . وإلى الله المشتكى
 جب اپنی باری آئی تو علم کو کفو کا سبب اعظم بنا دیا ، مال دار ، اعلی حسب یا پھر اعلی حسن کی بات آئی تو اپنے علم کو بنیاد بنالیا کہ علم سب سے بڑھ کر ہے ، یہی معاملہ اگر لڑکی میں ہوا کہ تو گویا علم لڑکی میں کفو اور برابری کا معیار ہی نہیں ایسا اپنے قول و عمل سے ظاہر کرنے لگتے ہیں.

میں مزید فرضی دلائل لکھ کر بات طویل نہیں کرتا ، جی ہاں فرضی دلائل یعنی جو اوپر دلیل اور ان کا جواب لکھا گیا ہے یہ ان کے واقعی دلائل نہیں ، بلکہ اپنی طرف سے تصور کرکے لکھے گئے ہیں ، ورنہ اب تو کبھی کوئی معقول وجہ بھی سامنے نہیں آئی چہ جائیکہ شرعی سبب ہوتا .

‼ نکاح کا معاملہ اپنی جداگانہ اور امتیازی شان رکھتا ہے ، اور اس کا ایک بڑا امتیاز یہ بھی ہے کہ نکاح معاملات ، متعلقات اور ثمرات کا کوئی قاعدہ نہیں ، جو ہیں بھی تو کلیے نہیں ، بات طویل ہوجاتی ورنہ اس بات کی صرف مثالیں درج ہوں تو ایک کتابچہ درکار ہے.
‼ازدواجی انتخاب میں شرعی ترجیحات کو سامنے رکھے جانے کا حکم الله کے نبی نے دیا ہے ، "فاظفر بذات الدين " کا فرمان وارد ہے ، کہ لڑکی میں اسی طرح لڑکے میں دین داری کو معیار بنایا جائے نہ کسی دوسری چیز کو .
‼ دین داری میں کئی چیزیں بنیادی ہیں ، درستگی عقیدہ ، صلاح و تقوی ، علم و عمل ، اخلاق و کردار ، ولود اور ودود ہونا وغیرہ .
‼ جو معیار لڑکی میں تلاش کرنے کا ہے وہی لڑکے میں بھی ہے .
‼ اپنے ایک استاذ سے ایک بات سنی تھی جو اگرچہ حدیث مذکور میں ضمنا معلوم ہوتی ہے ، لیکن تجرباتی زندگی میں دیکھا گیا ہے کہ دیندار گھرانے بھی اس کا لحاظ کم کرتے ہیں ، ڈھونڈنے اور منتخب کرنے میں تو شرعی اوصاف کی فہرست سامنے رکھ لی جاتی ہے ، جب لیکن جب کسی رشتہ کو جواب دینا ہو تو وہاں کچھ یاد نہیں رہتا ، انھوں فرمایا کہ قبول کرنے اور منع کرنے دونوں میں سبب اور وجہ شرعی ہی ہونا چاہئے ، جب کہ منع کرنے میں شرعی عذر کو سامنے رکھنا بہت نادر ہے ، عموما صرف وہمی و خیالی اور کبھی اس سے بھی نیچے درجہ بات یعنی دوسروں کے ورغلانے سے منع کردیا جاتا ہے ، اور حدیث پاک میں ہے ، اسی کو فساد کا سبب فرمایا گیا ہے کہ جب تم رشتہ کے دین اور اخلاق سے مطمئن ہو پھر بھی منع کردو تو یہ بہت لمبا چوڑا فساد اور نقصان ہے. (ترمذی و طبرانی وغیرہ )
‼ اور ظاہر ہے علم شرعا ایک سبب ترجیح ہے نہ کہ وجہ انکار .
‼ در حقیقت عالمات سے نکاح نہ کرنے کی یہ چڑھ بالکل اتنی ہی بری ہے جتنی ایک ذات اور برادری والے جہالت کی بنیاد پر دوسرے سے کرتے ہیں ، وجہ اشتراک ہے ایک ایسی چیز کو معیار کا درجہ دینا جو شرعا معیار نہیں ، اسی کو گروہی تعصب اور کبر بھی کہتے ہیں .
‼کسی کا ہمارے مزاج کے موافق نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی کسی سے نہیں بن سکتی ، بس ہماری مقدر میں وہ نہیں ، لیکن ایسے چند واقعات سے قاعدہ گھڑ لینا کسی عقلمند کا کام نہیں .

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad