حمزہ اجمل جونپوری
لکھنو جسے نوابوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے اور تہذیب کا گہوارہ بھی ہے جب امن و شانتی کا ملک پر الوؤں نے قبضہ جمایا اور ملک کی بھائی چارگی کو ختم کرنے کا ارادہ کیا اور ملک کو ہندوراشٹر بنانے کا سپنا دیکھنے لگا سب سے پہلے اس نے کشمیر کے ذریعہ ہندوں بھائیوں کو بھڑکانا چاہا پھر تین طلاق کے مسئلہ سے مسلمانوں کے جذبات سے کھیلا پھر بابری مسجد کا کارڈ پھینکا جسے مسلمانوں نے اپنے صبر سے کچل دیا اور کہا کہ جو فیصلہ سپریم کورٹ دے گی اسی پر راضی رہیں گے اگر چہ فیصلہ دلائل کے انبار لگانے بعد بھی ہمارے حق میں نہیں ہوا مسلمانوں نے صبر سے کام لیا اور ملک کی سلامتی کو برقرار رکھا اور بھارت کو ایک اور مہا بھارت سے بچا لیا بی جے پی نے جب یہ دیکھا تو چراغ پا ہو گئی کیوں کہ انکا گیم خود انہی پر پلٹ آیا اسکے بعد سی اے اے اور این آر سی و این پی آر جیسا کالا قانوں لا کر ملک کے 130 کروڑ لوگوں کو بھڑکانے کی کوشش کی لیکن بھارتی عوام نے متفقہ طور پر اسے رد کر دیا جب حکومت نے اپنی تاناشاہی دکھائی تو ہندو مسلم سکھ جین عیسائی روڈ پر آ گئے سر فہرست ہمارا جامعہ علی گڑھ اور ندوہ شاہین باغ ہے اس کے بعد آہستہ آہستہ ملک میں جگہ جگہ شاہین باغ بنتا گیا وقت کے ڈکٹیٹروں کو عوام نے للکارااسی شاہین باغ میں سے ایک باغ لکھنو کا گھنٹہ گھر ہے۔
جس کو یوپی پولیس ختم کرنے پر تلی تھی رات کو حملہ کیا کمبل اٹھا لے گئے لائٹیں کاٹ دی گئی تھیں میدان میں پانی بھر دیا تھا لیکن لکھنو کی بہادر عورتیں اور بہنیں ڈٹی رہی انکے حوصلے روز بروز بڑھتے گئے کئی بار ختم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن لکھنو کی بہادر عورتیں کوہ ہمالیہ کی طرح جم گئی اور برجستہ اعلان کیا بار بار اعلان کیا جب تک کالا قانون واپس نہیں ہو جاتا ہم ایک انچ کیا آدھا انچ بھی نہیں ہٹیں گے سلام ہو قوم کی بیٹیوں تم نے خولہ اسماء عمارہ کی یاد تازہ کر دی تمہیں بندوقوں سے ڈرایا گیا تمہیں زنداوں میں ڈالنے کی دھمکی دی گئی لیکن تم زبان حال سے کہتی رہی یہ جیلیں یہ ہتھکڑیاں ہمیں ہمارے مشن سے نہیں روک سکتی ہم نا گالیوں سے ڈرتے ہیں اور نا گولیوں سے گھبراتے ہیں ہم نے بنت خولہ اور حضرت عمارہ کے قصے کو اپنی ماوؤں سے سن رکھا ہےائے ملک کی نازنینوں ائے لکھنو کی شاہینوں تم نے اپنے نرم و گرم بستروں کو چھوڑ کر سڑکوں اور گھنٹہ گھر کے پتھروں پر سونا افضل سمجھا سنودھان بچانے کے لئے اپنے پھول اور کلیوں کو گود میں لے کر اس ٹھنڈ میں باہر نکلنا بہتر سمجھا آپ کی یہ قربانی بے کار نہیں جائے گی آپ کی یہ کوشش بے کار نہیں جائے گی تمہارے عزم کو ملک کا ہر فرد سلام کرتا ہے ملک ایک اندھیری شام میں ڈھلتا جا رہا ہے ایک نئی سحر کی تلاش ہے ان شاء اللہ جلد ہی تمام شاہین باغ سے فتح کا نعرہ فلک شگاف ہوگا
زخموں سے جسم گلزار سہی تم اپنے شکشتہ تیر گنو
خود ترکش والے کہ دیں گے یہ بازی کس نے ہاری ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں