تازہ ترین

جمعرات، 16 نومبر، 2017

میڈیا پولیوشن سے عوامی ذہنوں کا استحصال!


میڈیا پولیوشن سے عوامی ذہنوں کا استحصال!
ازقلم،محمد عباس دھالیوال،پنجاب
بے شک آج کازمانہ الیکٹرانک میڈیا کا عہد کہلاتا ہے لیکن ٹریجڈی یہ ہے کہ کثیر تعداد میں نیوز چینلزکی موجود گی کے باوجود، عوام کی حقیقی زندگی سے جڑی خبریں غائب ہوتی ہیں یا یوں سمجھ لیں کہ میڈیا حققی مسائل و زمینی سطح کے مدعوں کو دکھا نے میں دانستہ یا نادانستہ طور پر چشم پوشی والا رویہ اختیار کرتا دکھائی دیتا ہے .اگر ہم یہ کہیں کہ آج الیکٹرانک میڈیا حقیقی مسائل کے دیوالیہ پن و کنگالی کے دور سے گزر رہا ہے تو یقیناً اس میں کوئی دو رائے یا غلط بیانی نہیں ہوگی ،کیونکہ اس رائے کی پختگی کیلئے ہمارے پاس کتنے واضح دلائل ومشاہدے موجود ہیں. بے شک آبادی کے لحاظ سے ہندوستان چین کے بعد دوسرا اور رقبہ کے اعتبار سے دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے،یہی وجہ ہے کہ ہم آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور.ہمارے اس ملک میں مختلف مذاہب، منفرد رنگ و نسل،اور الگ الگ ذات پات کے لوگ بستے ہیں ملک کے مزکورہ پس منظر میں یقیناً مقامی میڈیا کے مختلف نیوز چینلز کی ذمہ داری دوسرے ممالک کے مقابلے بہت ہی حساس و چیلنجنگ بن جاتی ہے.جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ملک کو آج بے شمار مسائل درپیش ہیں. ان میں بے روز گاری، مہنگائی ،غریبی، تعلیمی پسماندگی،اوہام پرستی،دقیانوسی جیسے مسائل سر فہرست ہیں. لیکن نہایت افسوس کا مقام ہے کہ میڈیا کے کینوس پر کبھی بھی ان مزکورہ مسائل پر بحث و مباحثے دیک?نے کو نہیں ملتے. حالانکہ میڈیا کی بڑی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مزکورہ مسائل پر مثبت قسم کے بحث مباحثوں کے ذریئعے سرکار کی توجہ ان مشکلات کے حل کی جانب مبذول کرائے اور ساتھ ہی سرکار کی جانب سے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے شروع کی گئیں مختلف اسکیموں کو ملک کے ہرعام و خاص ناگرک تک تفصیلاً پہنچا ےء ، تاکہ ان اسکیم ملک کے لوگ بھر پور طریقے سے فائدہ اٹھا سکیں. لیکن اس ضمن میں گزشتہ دو دہائیوں سے جسطرح سے ہمارے ملک کے بیشتر نیوز چینلز کا رول رہا ہے،اس سے اب تک بے حد مایوسی ہاتھ لگی ہے.اس کے بر عکس میڈیا اپنی تمام تر صلاحیت و قوت،غالبن ایسے غیر ضروری بیانات کو طول دینے پر صرف کر تا ہے،جن کی وجہ سے ملک کی گنگا جمنی تہذیب اور خیر سگالی والی فضا میں میں انتشار پھیلنے کا خدشہ ہو .اکثر الیکٹرانک میڈیا والے ایسے انتشار پھیلانے والے بیانات کو گمبھیر و سنسنی خیز بنا کر پیش کرنا اپنا فرض خیال کرتے ہیں ، جو معاشرے میں نفرت کا زہر گھولنے والے ہو تے ہیں. نیوز چینلز والے نہ صرف ایسے بیانات کو ترجیح دیتے ہیں ،بلکہ ان بیانات کو لیکر بحث و مباحثوں کے خصوصی پروگراموں کا انعقاد کرواتے ہیں. ایسیمباحثوں سے ملک و قوم کو سوائے نفرت و دشمنی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا بلکہ اس سے معاشرے میں کشیدگی پھیلنے کا خطرہ بنا رہتا ہے. ویسے کسی ملک و قوم کی ترقی، فلاح و بہبود، خوشحالی و استحکام کا دارو مدار کافی حد تک وہاں کی قابل لیڈر شپ اور دوراندیش حکومت پر منحصر ہوتا ہے اور ساتھ ہی غیر جانبدار میڈیا کا بھی اس ضمن میں خاص و نمایاں رول ہوتا ہے،کیونکہ مثبت سوچ رکھنے والا معیاری میڈیا ہی اکثر اچھی رائے بنانے میں کامیاب ہوتا ہے .اگر مختصراً ہم اپنے بیشتر نیوز چینلز کا جائزہ لیں تو ہمارے یہاں حال یہ ہے کہ اگر آپ خبریں سننے کی غرض سے بیٹھتے ہیں اورٹی وی. کا ریموٹ آ پکے ہاتھ میں ہے تو آپ چینلز تبدیل کرتے کرتے تھک جائیں گے، لیکن آپ کو اس دوران شاید ہی کوئی ایک آدھ ایسا چینل دیکھائی دے، جس پر کوئی معیاری یا ڈھنگ کی خبر دیکھنے کو ملے. اکثر مشاہدہ میں آیا ہے کہ صبح کے وقت خبریں سننے کی غرض سے بیٹھیں تو آپ کو مختلف خبروں کے چینلز پر نیوزکم اسکے بر عکس بھویشے یا مستقبل بتا نے والے وہ بابا زیادہ دکھائی دیتے ہیں.جن بیچاروں کو اپنا مستقبل تو چھوڑیے اپنے خود کے حالات کی خبر نہیں ہوتی . یہاں بھی المیہ یہ ہے کہ ایک طرف تو حکومت کا تمام زور ملک کو ڈیجیٹل بنانے میں لگا ہوا ہے..جبکہ دوسری طرف یہ چینلز والے ان باباوءں کے ذریئے ملک کے عوام کو اوہام پرستی کے گہرے کنویں میں دھکیلنے میں لگے ہوئے نظر آتے ہیں .یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ میڈیا آخر ملک کو کس طرح کے ڈیجیٹل بنانے کی طرف بڑھ رہا ہے ، اہل عقل و فکر اس بات کو سمجھنے سے یقیناً قاصر دکھائی دیتے ہیں .
ہاں.. ! اتفاقاً دپہر کے وقت آپ کو نیوز چینلز دیکھنے کا موقع ملے، تو اکثر مشاہدہ میں یہی بات دیکھنے میں آئی ہے کہ مختلف چینلز پر ساس بہو کے سیریلز کے چرچے یا پھر ہنسی مذاق کے مختلف پروگراموں کو دوہرایا جا رہا ہوتا ہے. لیکن زندگی کی حقیقت سے جڑی خبریں اس وقت بھی بڑی حد تک ندارد ہوتی ہیں. ایسے ہی ناظرین جب شام یا رات کو ڈنر کے وقت خبروں کی غرض سے ٹیلی وڑن کا سویچ آن کرتے ہیں. تو بیشتر چینلز پر ضروری مدعے و اصل خبریں اسی طرح غائب ہو تے ہیں جس طرح گدھے کے سر سے سینگ ..! اور خبروں کی جگہ نہایت جوش و خروش کے ساتھ کسی سادھوی یا جوگی کے الٹے سیدھے بیان پر زور و شور کے ساتھ بحث مباحثہ ہو رہا ہوتا ہے جبکہ ان مباحثوں میں حصہ لینے والے پینل کا واحد مقصد یہی ہوتا ہے، کسی بھی حد تک گھٹیا سے گھٹیا بازاری زبان کا استعمال کرتے ہوئے اپنے مخالفین کو ذلیل کیا جائے ،مباحثے کہ اس شوروغل کے بیچ ناظرین کو کانوں پڑی آ واز سنائی نہیں دیتی. اس طرح لاکھ کوشش کے باوجود ناظرین کو کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا.الیکٹرانک میڈیا کی مزکورہ خامیوں کے چلتے ہی بہت سے سنجیدہ ناظرین کا نیوز چینلز پر سے اعتماد اٹھنے لگا ہے اور بہت سے درشک نیوز چینلز کو خیر باد کہنے لگے ہیں سچائی یہ ہے کہ اب ناظرین ان فضول قسم کے بحث مباحثوں سے اکتاہٹ و بوریت محسوس کرنے لگے ہیں.ذہین ناظرین کو ، تو ایسا لگتا ہے کہ فضول مباحثوں سےً مختلف چینلز والے انکا ذہنی استحصال کر رہے ہیں ..! اور کوئی سادھارن سے سادھارن شخص بھی یہ قطعی گوارہ نہیں کریگا کہ اس کا کسی طرح سے استحصال ہو.آج عوام وخاص کا رجحان خبروں کے حصول کی خاطر ایک بار پھر سے پرنٹ میڈیا اور ریڈیو کی جانب بڑھنے لگا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بڑی تعداد میں خبروں کے شایئقین کا جڑاوء ایک بار پھر سے ریڈیو سننے کی طرف ہو رہا ہے اور لوگ اخبارات کا مطالعہ کرنے کی خاطر مختلف لائبریریوں کا رخ کرنے لگے ہیں.شاید اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ پرنٹ میڈیا اور آکاش وانی نے آج ب?ی اپنی تہزیب و تمدن اور معیار کو گرنے نہیں دیا اور ریڈیو کی بیشتر نشریات آج بھی معیاری و اخلاقیاتی اقدار سے ب?ر پور ہوتی ہیں. جن کو سماعت فرما کر ایک نئی سیکھ اوراچھی سیدھ ملتی ہے.اگر الیکٹرانک میڈیا کو اپنے ناظرین کا اعتماد پھر سے بحال کرنا ہے اور اپنے ساتھ پھر سے ذہین ناظرین کو جوڑنا ہے تو اسے اپنی کار گزاری میں انقلابی تبدیلیاں لانی ہوں گی یعنی ایسی خبروں کو پیش کرنا ہوگا جن سے ہر عام و خاص کی فلاح و بہبود کو یقینی بنایا جا سکے ۔یقیناًاسی میں ملک اور ہم سب کی فلاح و بہبود اور ترقی کا راز پوشیدہ ہے ۔
کیا خوب کہاہے کسی نے کہ. ..
تنقید میں برابر اپنا ہو یا پرایا
یعنی زباں نے ہم کو سچ بولنا سکھایا 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad