تازہ ترین

جمعہ، 7 فروری، 2020

کیسے اللہ والے ہیں یہ اے خدا

جس وقت یہ سطریں لکھ رہا ہوں دل و دماغ ناقابل بیان اذیت سے دوچار ہیں، اور یقینًا دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا ابوالقاسم صاحب اور عبدالخالق مدراسی صاحب کا خوفزدہ اور لاچار بیانیہ سن کر ہر ذی شعور مومن تڑپ اٹھے گا، مہتمم دارالعلوم جس منظر کے ساتھ بیان دے رہےہیں اسی میں اس کا پس منظر باوردی پولیس اہلکاروں اور دنیا پرست سیاستدانوں کے گھیرے سے بالکل واضح ہے ابھی گجرات سے روانہ ہوتے ہوتے  مہتمم صاحب کا وہی بیان سنا اور سفر کی تنہائی میں مزید تنہائی محسوس کررہاہوں  مولانا ابوالقاسم صاحب صاف صاف کہہ رہےہیں کہ احتجاج اور دھرنا ختم کردو، وہ کھلے الفاظ میں امیت شاہ کی یقین دہانی کہ NRC ابھی نہیں ہوگا، اس پر اعتماد کررہےہیں، چند الفاظ یہاں وہاں گھما کر گرچہ وہ پہلو دبانے کی بھی کوشش کررہےہیں لیکن مرکزی پیغام انہوں نے یہی دیا ہےکہ این آر سی اور سی اے اے کےخلاف جاری احتجاج کو ختم کردو اور امیت شاہ کا پارلیمنٹ میں ابھی این آر سی نہیں لانے والا بیان مہتمم صاحب کی نظر میں کامیابی ہے

 آج مہتممِ دارالعلوم نے جو کردیا ہے اس سے دل بری طرح زخمی ہے، انہوں نے بغیر کسی ابہام کے ظالم سَنگھیوں کی حمایت میں بیان دے دیا ہے،سوچیے ذرا ان کا یہ بیان معصوم اور بھولے بھالے عام مسلمانوں کے لیے کس قدر ذہنی ٹینشن کا سبب بنےگا جن کے دلوں میں دارالعلوم دیوبند جان سے زیادہ عزیز ہے، اور سوچیے ذرا، ان سادہ لوح ماں بہنوں کی عقیدت پر کیسی کاری ضرب لگنے والی ہے، 

اب تک دارالعلوم دیوبند کی طرف سے بی جے پی اور آر ایس ایس کے ظالمانہ ہندوتوا عزائم کے خلاف جاری  عوامی مظاہروں اور آندولن کو کوئی بھی اخلاقی تعاون آفیشلی نہیں کیاگیا، اسی پر علماء اور مسلمانوں کی طرف سے خفگی تھی، لیکن مہتمم صاحب نے آج جو بیان دے دیا ہے وہ آر ایس ایس کی منشاء اور مظاہروں سے پریشان حکومت کے لیے سب سے طاقتور مدد ہے

میری معلومات کی حد تک تو یہ ہیکہ اب تک دارالعلوم دیوبند کے مہتمم صاحب کا یہ بیان دہلی شاہین باغ سے لیکر ملک بھر کے شاہین باغوں میں احتجاجی آندولن ختم کرنے اور شاہین باغوں کو بند کروانے کے لیے استعمال کیا جانے لگا ہے، یہ بیان پوری دنیا میں اب ہندوستان کی موجودہ عوامی تحریک کےخلاف حکومت کے حق میں چلایاجائے گا، نیشنل گودی میڈیا سے لیکر انٹرنیشنل میڈیا دارالعلوم دیوبند، علمائے دیوبند، اور ان کی منتظمہ کے حوالے سے مظاہرین کےخلاف ماحول بنائیں گے، اور اگر اس بیان کو دلوانے میں یوگی آدتیہ ناتھ کےعلاوہ ناگپور کا جن سَنگھی تھنک ٹینک اور خفیہ ایجنسیاں بھی ایکٹو ہیں تو یہ بیان موجودہ عوامی تحریک کی مخالفت میں، اور بی جے پی و آر ایس ایس کے سپورٹ میں عالمی حقوق انسانی کے اداروں میں ثبوت کے طورپر پیش کیاجائے گا، کیونکہ اس بیانیے سے سیدھا سیدھا یہ پیغام جارہاہے کہ مرکزی حکومت معاملات کو حل کرنے اور مسلمانوں کے تحفظ کے سلسلے میں سنجیدہ ہوچکی ہے، جوکہ بالکل غیرواقعی، غلط اور جھوٹا پیغام ہے جب NRC کا نام بدل کر NPR کیا جاچکاہے تو NRC پر عارضی قدم پیچھے لینے سے کیا فائدہ؟ خطرہ تو من و عن برقرار ہے جب لڑائی 1947 والے دستور کو واپس لانے کے لیے ہے، CAA شہریت ترمیم کے کالے قانون کو ختم کروانے کے لیے ہے، حکومت اور آر ایس ایس کے زہریلی ہندوتوا والے نصب العین کےخلاف ہے تو آپ کس طرح ایک پارلیمنٹری فریب میں آگئے؟

 دراصل آپ فریب میں آئے نہیں ہیں، بلکہ لائے جارہےہیں، پچھلے چند سالوں میں کئی ایک بڑے نام اسی طرح جال میں پھانسے گئے تھے آپکی باری اب کھل کر آگئی ہے، کیونکہ اس سے پہلے جو حضرات لاکھوں مسلمانوں کےخلاف استعمال کیے گئے قوم انہیں مسترد کرچکی ہے، وہ اب زیادہ مؤثر نہیں رہے اس لیے آپ کو سامنے کیا گیا ہے 

 کون نہیں جانتا کہ ہندوستان کے ایسے سیاسی لیڈران جن کی مضبوطی اور طاقت کو عالمی سطح پر بھی محسوس کیا جاتا رہا، بھاجپا کی حکومت نے ایجنسیوں کے ذریعے اُن سب کو بھی نہیں بخشا، کچھ کو تو اتنا بےبس کردیا گیا کہ انہیں براہ راست سَنگھی ہی بننا پڑا، ان کے گھوٹالوں، گھپلوں اور خفیہ جرائم کی فائلیں چاہے وہ ۳۰ اور ۵۰ سال پہلے کے ہی کیوں نا ہوں، حکومتوں کے بدلنے سے ختم نہیں ہوتیں وہ سب ایجنسیوں کے ریکارڈ میں محفوظ ہیں، جنہیں ایسے نازک موڑ پر ان شخصیات کےخلاف ایک ایک کرکے استعمال کیا جاتاہے تاکہ یا تو وہ آر ایس ایس کے ایجنڈے میں تعاون کریں یا پھر خاموش رہیں، یہ سب بھارت کے قدآور مضبوط ترین سیاسی لیڈروں کے ساتھ ہوچکاہے اور ہوتا رہتاہے جن کی مضبوطی کے ڈنکے صرف عوامی ہی نہیں بلکہ سسٹم کے اندرون میں بھی بجتے تھے یہی کھیل بہت ساری جگہوں پر کھیلا جارہاہے، جس کی تاریخی فائل آج سے ۲۰ / ۳۰ سال بعد باہر آئےگی 

علماء کے ساتھ کیا معاملہ ہے وہ تو اللہ ہی بہتر جانتاہے 
 لیکن میں یہاں دارالعلوم دیوبند کے مہتمم نائب مہتمم اور وہ تمام بڑے مولوی حضرات جو سَنگھی بولیاں بول رہےہیں ان سے پوچھنا چاہتاہوں کہ اس بےضمیر بیانیے کو ادا کرتے وقت آپکا دل آپ کو اندر سے کچوکے نہیں لگا رہا تھا؟ 
آپ مودی، یوگی اور امت شاہ کے مظالم سے گھبرا گئے؟ کیا آپکو آپ کے سرخیل شیخ الہند کی استقامت کا خیال نہیں آیا؟ یا ان سے آپکو نسبت ہی نہیں ہے؟ آپکو آر ایس ایس کی فورسز کا خطرہ دامن گیر ہوگیا لیکن آپکو نسبت دیوبندیت کی عظمت کو روندتے ہوئے امام حریت قاسم نانوتوی ؒ کی یاد نہیں آئی؟ آپ جس مقام پر بیٹھ کر ہندوستان کے مسلمانوں کے دلوں کو چکناچور کررہےہیں کیا اسی مقام کے اپنے غیور امام شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی سے شرم محسوس نہيں ہوئی؟ 
آپکو گھیرے ہوئے پولیس افسران کی بندوقیں آپکو ڈرا گئیں، کیا مجاہد ملت حفظ الرحمٰن سیوہاروی کا آہنی سینہ یاد نہیں آیا؟ 
آپ کو دنیاوی زندگی کے مصالح عزیز ہوئے، لیکن پھانسی پر جھول کر لاش بن کر، زندہء جاوید ہونے والے علمائے دیوبند کی صف پسند نہیں آئی؟ دارالعلوم دیوبند کے ایسے اینٹ اور گارے جن میں آپ آرام نشین ہوتےہیں اس کا تحفظ تو دامن گیر ہے لیکن خمیرِ دیوبند، کی حریت انداز غیرت کو کچل رہےہیں، روحِ دیوبند کی عظمت کو پامال کررہےہیں، اس کی آفاقیت اور عالمگیریت پر مسند نشین ہوکر بھی اس کا احساس نہیں کرپا رہےہیں، ولی اللہی پامردی کو برتنے سے دامن بچاتے ہیں 

ائے اللہ والو! کچھ تو لحاظ کرو، بخدا تین چار سال پہلے تک ہم ہی چھاتی ٹھونک کر آپ حضرات کے اسماء گرامی ادا کرتے تھے، لوگوں سے کہا کرتےتھے کہ جب ظالموں سے لڑائی ہوگی تو ہمارا دیوبند صف آراء ہوگا لیکن ایک، ایک کرکے آپ لوگوں نے اپنی ہر تاریخی وراثت کا خون کر ڈالا ہے، آپ خود ہی اپنی عظمتوں اور عالمگیریت کے قاتل ہو، آپ نے اپنے اسلاف و اکابر کا علمی، فقہی اور عمارتی ورثہ تو خوب وصول کیا لیکن تاریخ نے ثابت کردیا کہ، آپ سب نے اسلاف کی انقلابی عزیمت کی اسپرٹ اور دار و رسن سے ٹکرا جانے کی بےخوف مصلحت کے ورثے کو قبول نہیں کیا، نا ہی اس کے مستحق ہوسکے_

 ایک ایک کر کے بڑے بڑے نام اور نسبت والے جو پوری دنیا میں اپنے نام و نسب اور ماضی کے اپنے اسلاف کے کارناموں سے اپنا حال و مستقبل چکاچوند کرتے تھے سب کا سقوط ہورہاہے، اس میں عبرت ہے، عقلمندوں اور ایمان والوں کے لیے پورا قرآن شاہد ہے، رسول اللہﷺ سے منقول ہے، مفسرین، محدثین، اصولیین اور فقہاء کے یہاں مسلم ہےکہ اللہ کے یہاں معیار، پیمانہ اور عزت کا راستہ " الذین آمنوا و عملوا الصلحت " ہے ایمان اور اعمال صالحہ شرط ہیں، لازم ملزوم ہیں، اور اعمال صالحہ برہمنی مذہب کی طرح چند رسومات کا نام نہیں، نماز، اور چار تقریروں کا نام نہیں ہے، اس میں اسلامِ کامل پر عمل کا سختی سے مطالبہ اور اگر اس پر عمل نہیں کرسکتےہیں تو کم از کم اس کے لیے جدوجہد کرنا لازمی ہے، اب آپ غور کرلیجیے پچھلے ۵۰ سالوں کی تاریخ کھلی کتاب ہے

اللّٰہ کی مخلوق کو جب حساب نہیں دوگے، جوابدہی نہیں کروگے تو اللہ کے خودکار نظام احتساب کا سامنا کرنا ہی پڑےگا، 

 ہم ان سطروں میں بھی بزرگوں کی عزت اور علمی عظمت کے معترف ہیں، لیکن قوم کی مشترکہ جدوجہد پر اتنی بے رحمی سے نوچنے والوں کا کیا کریں؟ کوئی بھی سخت لفظ استعمال نہیں کرتےہیں آپ پر چھوڑتے ہیں، یقینًا تکلیف سبھی کو ہوگی لیکن اس حالت میں بھی بزرگوں کا احترام ہماری تہذیب ہے، ہم خود عالم دین ہیں اور آج اپنے آپ کو سربازار رسوا محسوس کرتےہیں 

ابھی بھی بہت سے محروم لوگ وہ ہوں گے جو ایسے کھلے ہوئے مجرمانہ فعل کا بھی اندھے پن سے دفاع کرینگے، لیکن یہی وہ وقت ہے جب علماء میں سے حقیقی اور سرخیل مجاہد صفت علماء اور ربانی فقہاء کے جانشین نکل کر سامنے آئیں گے، جو اسلامِ کامل کے سچے پکے علمبردار ہوں گے، وہ صاف شفاف نظام سے گزر کر آئیں گے، 

جو لوگ اسلام، مسلمانوں اور اللہ کے دین کی عزت و عظمت کو غلط علماء کا ہی محتاج بتانے پر تُلے ہوئے ہیں وہ سخت نادانی اور گنہگار خیال میں مبتلاء ہیں، 

 آج جو کچھ ہوا ہے اس نے اللہ کی شانِ بے نیازی، قرآن کے اصولِ انقلاب اور اللہ کے نظامِ احتساب پر ایمان پختہ کردیاہے،  اور اسی کے ساتھ اللّٰہ کی شان استغنا کو دیکھ کر خوف و خشیت کی کیفیت بھی ہے_

حفیظ میرٹھی ؒ کہہ گئے ہیں: 
کیسے اللہ والے ہیں یہ اے خدا
گفتگو، مشورے، سازشوں کی طرح

سمیع اللّٰہ خان
7فروری بروزجمعہ، ۲۰۲۰ 
ksamikhann@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad