تازہ ترین

جمعہ، 7 فروری، 2020

بی جے پی کے سیاسی مشن کو ہر ایک دلت اور اوبی سی کو سمجھنا ضروری ہے

حافظ محمد ذاکر,مین پوری:چھوٹا ہو یا بڑا،جاہل ہو یا تعلیم یافتہ،غریب ہو یا امیر،اس ملک کا ہر ایک باشندہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاسی حقیقت سے خوب واقف ہوچکا ہے،وہ جان چکا ہے کہ بی جے پی صرف اور صرف ہندو،مسلم میں نفرت پیدا کر نے والی سیاست کرتی ہے، بھارتی جنتا پارٹی کو(پرجا تنتر) جمہوریت والا ہندوستان نہیں چاہئے،بلکہ ان کو توایسا ہندوستان چاہئے جس میں صرف ان کا ہی بول بالا ہو،ان کے فرمانوں کو طالبانی فرمان سمجھ کر ہر ایک ہندوستانی بلا چوں چرا تسلیم کرنے والا ہو،بی جے پی والے ایسا ہندوستان چاہتے ہیں،جس میں پرجا تنتر نہ ہو کر راج تنتر ہو،جس میں بابا بھیم راؤ امبیڈکر کا بنایا ہوا ”سنودھان “ کاقانونی درجہ ختم کیا جائے،


اور منو اسمرتی کے اصولوں اور ضابطوں کو اس ملک ہندوستان میں قانونی درجہ حاصل ہو، اور صرف اتنا ہی نہیں اس ملک کا را  جہ بھی کوئی اعلیٰ ذات کاشخص ہو،آر ایس ایس کے نظریہ کی تبلیغ کر نے والی یہ بی جے پی دلتوں اور اوبی سی کو کنٹرول کر نے میں زیادہ وقت نہیں لے گی،بی جے پی کو اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کر نے کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ کا جو سامنا کرنا پڑ رہا ہے،وہ ہے اس ملک کا سب سے بڑا اقلیتی طبقہ مسلمان؟ کیونکہ مسلمان ایک زندہ قوم ہے،؟دہلی کے انتخابات کے حالیہ دنوں کا جائزہ لیجئے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی کیا چاہتی ہے،دہلی کا شاہین باغ جو اس وقت عالمی سطح پر زیر بحث بناہوا ہے،جس نے بر سر اقتدار بی جے پی حکومت کی نیند حرام کر دی ہے،آج اسی مظاہرے کو کن کن طریقوں سے بدنام کر نے اور ان کو اس احتجاجی مظاہروں سے ہٹا کے لئے بی جے پی کی طرف سے کوششیں کی جارہی ہیں،قانونی دائرہ اختیار میں رہ کر مظاہرہ کر نے والی خواتینوں پر کیسے کیسے بیہودہ الزام لگا ئے جارہے ہیں،کبھی بریا نی کھانے کا لالچ کہ کر کبھی پانچ سو رویہ لیکر وہاں بیٹھ نا بتایا جارہا ہے، جب اس طرح کامیابی نہ ملی تو طمنچہ سے فائرنگ بھی کرائی جارہی ہے،

مگر ان خواتینوں کے صبر اور حوصلے کو سلام جو اپنے مقصد سے ایک انچ بھی ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہیں،ریاست دہلی کے انتخاب کا جائزہ لیجئے تو بالکل صاف آئینہ کی طرح یہ بات واضح ہو جاتی ہے،کہ بی جے پی والے انتخاب جیتنے کے لئے کس حد تک گر سکتے ہیں،ان کو یہ بھی خیال نہیں ہو تا کہ میں کس عہدے پر فائز ہوں،اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یو گی آدتیہ ناتھ کو ہی لے لیجئے،جو اپنے ایک انتخابی ریلی میں کہتے نظر آتے ہیں ”کہ بولی سے نہیں تو گولی سے منواؤنگا “کتنا خطر ناک جملہ ہے،؟مجرمانہ شبیہ والوں سے ایسی ہی توقع کی جا سکتی ہے،؟دہلی کے انتخاب میں سبھی اخلاقی ضابطہ بالائے طاق رکھ دئے گئے ہیں،

جو جس کے منھ میں آرہا ہے بکا چلا چارہا ہے،ایک بی جے پی کے لیڈرنے تو حد ہی ختم کر دی،دہلی کے انتخابات کو وہ” ہندوستان پاکستان کا مقابلہ قرار دے رہے ہیں“ شاہین باغ کو پاکستان اور مظاہرہ کر نے والیوں کو پاکستانی کہا جارہا ہے،اور مزید تعجب کی بات یہ ہے کہ وزیر داخلہ امیت شاہ بھی اپنی دیرینہ مسلم نفرت کا اظہار کرتے ہو ئے ایک انتخابی ریلی سے اپیل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”بٹن دبانہ کہ کرنٹ شاہین باغ تک پہنچے،اعلیٰ درجوں پر برجمان یہ بی جے پی والے لیڈران اس حد تک گر جائیں گے کبھی سوچا بھی نہ تھا،؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad