تازہ ترین

پیر، 23 مارچ، 2020

گوشہ نشينى

كورونا كى وجه سے تقريبا ايک ہفتہ سے گهر ميں گوشه نشينى كر لى ہے، زندگى ميں اس گوشه نشينى كا پہلى بار تجربه ہو رہا ہے، اعتكاف بهى ایک قسم كى گوشه نشينى ہے، ليكن اس ميں مسجد كا اجتماع بند نہيں ہوتا، بيمارى كے زمانے ميں  معاشره سے انقطاع ہوتا ہے، مگر عيادت كرنے والے آتے  رہتے ہيں، آج كى عزلت صحيح معنوں ميں عزلت ہے، ايسى عزلت  كبهى ديكهى نہيں،  البته مشايخ متقدمين كے يہاں اس كے كچه نمونے نظر سے گزرے ہيں ۔

گهر سے بالكل قريب آكسفورڈ كى جامع مسجد ہے، جس ميں احتياطًا  جمعه اور جماعت  موقوف ہے، سارى نمازيں گهر پر ادا كر رہا ہوں، تدريس وتعليم كا عمل  بهى معطل ہے، آكسفورڈ بروكس يونيورسٹى كى جم جس كا ميں مستقل ممبر ہوں بند ہے، گهر پر  ہلكى پهلكى ورزش جارى ہے، خارجى دنيا سے جسمانى تعلق منقطع ہوگيا ہے، تاہم انٹرنٹ اور واٹس اپ كے ذريعه  قريبى وغمخوار رشته داروں، شفيق ومہربان دوستوں،عنايت فرما مخلص  شاگردون اور عام كرم فرماؤں اور ہمدردوں سے رابطه ہے، مرزا نوشه كى ياد آرہى ہے جو كہتے تهے "اس تنہائى ميں صرف خطوں كے بهروسے جيتا ہوں، يعنى جس كا خط آيا ميں نے جانا كه وه شخص تشريف لايا" ۔

كسے يه خبر تهى كه  زمانه كا رنگ اس طرح پلٹ جائے گا، زندگى ميں ايسا انقلاب آئے گا،  اجتماعيت پسند حيوان ارتقائے معكوس كى منزليں طے كركے انفراديت پر مجبور وحوش كے زمره ميں داخل ہوجائے گا؟ كيا يه سوچا جا سكتا تها كه ايك وقت (عارضى سہى)  ايسا آئے گا كه حرمين شريفين ميں نمازيوں اور زائرين كا نام ونشان نہيں ہوگا، مسجديں خالى ہوجائيں گى، عاشق معشوق سے، محب محبوب سے اور دوست دوست سے دورى اختيار كر لے گا، نه فراق كى آہيں ہوں گى اور نه ناله ہائے دردناک ہوں گے، وصال پر ہجر  كو ترجيح حاصل ہوگى، وفا كى جگه جفا كى تمنا ہوگى، شوق لقائے ياراں داستان پارينه بن جائے گا، سڑكيں سنسان ہوجائيں گى اور بازار ويران، كيا اس دنيائے فانى كا اعتبار!  فاعتبروا يا أولي الأبصار ۔
ہائے گلزار نسيم سے بہار گئى،  خمخانوں كى رونق گئى،محفلوں سے خوش آواز وزمزمه پرداز گئے،  نه كليوں كى رنگت نه پهولوں كى باس، موسم بہار آيا ہے پہنے خزاں كا لباس: آنكهه جو كچهه ديكهتى ہے لب تک آسكتا نہيں ۔

اب عزلت گزينى ہے، بيوى اور بچے آس پاس ہيں، پڑهنے اور لكهنے كا كام ہے،  تصنيفى كاموں كے لئے وقت  ہى وقت ہے،  ادهورے پروجكٹس كى  تكميل  كى راه كهلى دكهائى دے رہى ہے ۔كام كرتے كرتے  كورونا كى خبريں دماغ پر حاوى ہو جاتى ہيں، يورپ اور برطانيه ميں يه بيمارى جنگل ميں آگ كى طرح  پهيل رہى ہے، شيشۂ اندروں سنگ حوادث والمناك واقعات سے چور ہو جاتا ہے، ايسا لگتا ہے كه دل ودماغ نه رہا،  چاروں طرف ہو كا عالم ہے اور ہر سو ماتم  بپا  ہے ،  دنيا تہلكۂ عظيم ميں مبتلا ہے، آكسفورڈ جيسے بين الاقوامى شہر ميں سناٹا ہے، چهوٹا بڑا خوفزده ہے ۔

متاثر لوگوں پر كيا گزرتى ہے،  يه  سوچ كر گهبراہٹ ہونے لگتى ہے، وبا زده بالكل اچهوت بن جاتا ہے، ڈاكٹروں اور نرسوں كا سلوک اس كے ساته ايساہوتا ہے جيسے ان كا سابقه  كسى گندى اور مكروه چيز  سے ہو، اس كى حالت اس سے زياده  قابل رحم ہوتى ہے جيسى حالت القاعده كے قيديوں كى امريكى جيلوں ميں سننے ميں آتى تهى، جو بيمار اس جہاں سے رخصت ہو رہے ہيں ان كے اعزه واقارب اور دوست واحباب آخرى رسومات ميں شركت نہيں كرسكتے، نه كفنانے اور دفنانے كا صحيح انتظام،   نه كوئى مرثيه نگار  اور نه كوئى نوحه خخواں، جب ان مصيبتوں كے انبار كو خيال كرتا ہوں تو بہت گهبراتا ہوں، اور دل ميں ايسا ترس آتا ہے كه بيان نہيں ہوسكتا ۔

اچانک ذہن اپنى موت كى طرف چلا جاتا ہے، موت كا خوف ايك كپكپى پيدا كرديتا ہے، تصنيفى منصوبے ناتمام دكهائى ديتے ہيں، حسرت وياس كى كيفيت طارى ہوتى ہے، قبر كى ندا ياد آتى ہے: "ميں لذتوں كو فنا كردينے والا مقام ہوں، ميں غربت كا گهر ہوں، ميں كيڑوں مكوڑوں كا گهر ہوں" ۔

اس  شدت فزع ميں خدا كى ياد آتى ہے، توبه واستغفار كرتا ہوں، اپنے لئے، بچوں كے لئے اور سارے مسلمانوں بلكه سارے انسانوں كے لئے عافيت كى دعا كرتا ہوں، انسانيت كے كچه كهلم كهلا دشمنوں كے لئے بد دعا كے كلمات بهى زبان پر جارى ہو جاتے ہيں، ذكر ومناجات سے كچه تقويت ملتى ہے، اور دو باره كام ميں لگ جاتا ہوں، اور سوچتا ہوں كه موت سے كيوں گهبرايا جائے، حيات وموت كے تصور پر ہى  تو مذہب، فلسفه اور عمرانيات كى بنياد كهڑى ہے، موت ہميں ہمارى اوقات ياد دلاتى ہے، اوہام  اور غفلتوں كے پردے چاک كرديتى ہے، موت كا انديشہ حقيقت پسندى كے لئے كس قدر ضرورى ہے، اے عزم كى چٹان اٹه، ہجوم ياس ميں آس كى بات كر، اس محصور زندگى ميں راز گنبد مينا آشكار كر ۔

يه ديكهكر سخت تكليف ہوتى ہے  كه مسلمانوں اور ديگر قوموں كے بعض مذہبى حلقے  اس مسئله كو طبى ماہرين اور انسانيت كى ہمدردى ركهنے والوں كے نقطۂ نظر سے نہيں ديكه رہے ہيں، ان كو يه اندازه نہيں كه يه مسئله ان كے اختصاص كا  نہيں، بلكه يه معامله خالص  طبى وانسانى ہے، اور اس ميں جہاں ديده حكيموں اور انسانيت كے بہى خواہوں كے مشوروں پر عمل كرنا چاہئے، ان ساده لوحوں كو اندازه نہيں كه ان كى معمولى سى نا عاقبت انديشى كس قدر ہيبتناك نتائج كا پيش خيمه ہوسكتى ہے،  اس نا عاقبت انديشى، عقل ودور انديشى سے محرومى، فكر واصابت رائے سے عداوت، اور مسلمانوں اور عام انسانوں  كے طالع وبخت سے بازى گرى پر ماتم كرنے كو دل چاہتا ہے ۔  كاشكه ميرى يه تلخ نوائى گوارا كى جائے ۔

تنہائى ہے، آرزوئيں اور تمنائيں ہيں، خطرات اور انديشے ہيں، غم سے فراغ نہيں،  مكروہات عالم سے بيزارى ہے اور اپنى كمزورى وناتوانى پر آزردگى، گهر والوں سے بات كرتے كرتے  دل كا راز فاش ہونے لگتا ہے، يا پهر افكار وخيالات تحرير كا لباده پہننے كے لئے بے چين ہو جاتے ہيں ۔

يه نہيں معلوم كه تنہائى كى يه زندگى كب تک چلے گى، اور يه ايام شكوه سنج كب ختم ہوں گے؟ دل وجان ضيق ميں ہيں، اندر سے ايك آواز اٹهتى ہے كه مردانه باش، جو مرضى خدا، بنده كا اختيار كيا،  سقراط نے كيا خوب كہا ہے كه "اگر تمام اہل دنيا كى مصيبتيں ايك جگه لاكر ڈهير كرديں، پهر سب كو برابر بانٹ ديں تو جو لوگ اپنے تئيں بد نصيب سمجه رہے ہيں وه اس تقسيم كو مصيبت اور پہلى مصيبت كو غنيمت سمجهيں گے"، ايك اور حكيم كہتا ہے "اگر ہم اپنى اپنى مصيبتوں كو آپس ميں بدل بهى سكتے تو پهر ہر شخص اپنى پہلى ہى مصيبت كو اچها سمجهتا" ۔

ياد ركه يه امتحان جلد ہى ختم ہوجائے گا، شام غم رخصت ہوگى، سحر اميد جلوه افروز ہوگى، مسكرا كه جلد ہى سويرا ہوگا، ختم تنہائيوں كا يه اندهيرا ہوگا،صبر وتحمل سے كام لے، حلم وبردبارى سے يارى كر، اور رحمت الہى پر توكل كر،  اللهم ارحمنا وعافنا يا رب العالمين ويا ارحم الراحمين ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad