تازہ ترین

منگل، 10 مارچ، 2020

نکاح اور فکر معاش-اسلامی نقطۂ نظر سے

تحریر:ابو رَزِین محمد ہارون مصباحی فتحپوری استاذ الجامعۃ الاشرفیہ، مبارک پور ،اعظم گڑھ
مرد و زن کا جنسی تعلق انسانی زندگی کی بقا کی بنیاد ہے، اس لیے اسے نہ تو نظر انداز کیا جا سکتا ہے اور نہ یوں ہی بے ہنگم، بے نظام چھوڑا جا سکتا ہے ورنہ انسانی معاشرے کا نظام تہ و بالا ہو جائے گا اور سماج میں وہ فتنے اٹھیں گے کہ اللہ کی پناہ۔

مذہب اسلام نے اس انسانی ضرورت پر بھر پور توجہ دی اور مرد و عورت کے جنسی اختلاط کے لیے ایسا قابلِ تقلید لائحۂ عمل پیش کیا جس سے مرد و عورت کی جنسی ضرورت بھی پوری ہو جاتی ہے، انسانی زندگی کی بقا کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے، سماجی نظام بھی سلامت رہتا ہے اور مرد و عورت کے حقوق کی حفاظت بھی ہو جاتی ہے۔ اسلام نے اس لائحۂ عمل کو نکاح کا نام دیا ہے۔ آئیے سب سے پہلے اس نکاح کے بارے میں کچھ اہم باتیں جانتے ہیں :

نکاح کا لغوی و شرعی معنیٰ 
لسان العرب میں ہے کہ نکاح کا معنی عملِ ازدواج ہے، یعنی مرد و عورت کا ہم بستر ہونا۔ اور تزوج یعنی شادی کو بھی نکاح کہتے ہیں کہ وہ عملِ ازدواج کا سبب ہے۔شریعت میں نکاح اس عقد کو کہتے ہیں جو اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ مرد و عورت کا ایک دوسرے سے جماع اور قربت کرنا حلال ہو جائے۔

نکاح کا حکم :
فقہ حنفی کی شہرۂ آفاق کتاب 'رد المحتار' میں ہے کہ نکاح کرنا واجب العین ہے۔ اس سلسلے میں فرض اور سنت موکدہ کا قول بھی ملتا ہے۔ ان سب کے درمیان تطبيق اس طرح دی جاتی ہے کہ اگر کسی کو اس بات کا یقین ہے کہ نکاح نہ کرنے کی صورت میں وہ گناہ کر بیٹھے گا تو نکاح کرنا اس پر فرض ہے۔ اور اگر گناہوں سے آلودہ ہونے کا یقین تو نہ ہو لیکن گمانِ غالب ہو تو نکاح کرنا واجب ہے۔ اور اگر ایسی کوئی بات نہ ہو تو نکاح کرنا سنت موکدہ ہے۔
اسی طرح اگر یقین ہے کہ حق زوجیت ادا نہ کر سکے گا، یا بیوی پر ظلم کرے گا تو نکاح کرنا حرام ہے، اور ایسی باتوں کے ہونے کا گمانِ غالب ہو تو نکاح کرنا مکروہ تحریمی ہے۔ ( رد المحتار، کتاب النکاح ، ج : 2، ص : 283)

شادی کے حوالے سے فکرِ معاش اور اسلامی نقطہ نظر :
آج ہمارے معاشرے کا  ایک عام مزاج یہ بن گیا ہے کہ لڑکوں کے ماں باپ یا سرپرست ان کی شادی کے حوالے سے یہ سوچ رکھتے ہیں کہ لڑکے جب اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں گے، بر سرِ روزگار ہو جائیں گے اور کسی اچھی ملازمت یا کامیاب تجارت سے وابستہ ہو جائیں گے تب ان کی شادی کریں گے۔ اور لڑکیوں کی شادی کے بارے میں یہ فکر رکھتے ہیں کہ کوئی بر سرِ روزگار، نوکری پیشہ، پیسے والا لڑکا ملے گا تو ان کی شادی کریں گے۔ 

ماں باپ اور سرپرست اپنی اس فکر کے نتیجے میں اپنے لحاظ سے مناسب وقت کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور اُدھر لڑکوں اور لڑکیوں کی جوانی کا قیمتی وقت گزرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ ان کی عمر اچھی خاصی ہو جاتی ہے، بلکہ بعض کی عمر تو ڈھلنے لگتی ہے اور اب مناسب رشتہ تو کیا کوئی بھی رشتہ ملنا مشکل ہو جاتا ہے۔

بعض ماں باپ اور سرپرست اپنے اس نظریے میں اتنے ڈھیٹ اور ضدی ہوتے ہیں کہ اپنے بچوں کے جذبات اور ان کی خواہشات کو یک سر نظر انداز کر دیتے ہیں، لڑکیاں چاہتی ہیں کہ کسی شریف لڑکے سے ان کی شادی کر دی جائے، گو وہ مال دار نہ ہو، لیکن ماں باپ امیر لڑکے کی ہوس میں لڑکیوں کی اس خواہش کو نظرانداز کر دیتے ہیں اور انھیں ذہنی اذیت میں مبتلا رکھتے ہیں اور پھر ایک وقت وہ آتا ہے کہ کوئی مناسب رشتہ نہیں ملتا اور اب وہ لڑکی کو بھوج سمجھنے لگتے ہیں اور اُدھر لڑکی جس اذیت و کرب سے گزر رہی ہوتی ہے وہ نا قابل بیان ہے۔

اسی طرح بہت سے لڑکے جو کسی بڑی پوسٹ یا بڑے کاروبار سے منسلک نہیں ہوتے چاہتے ہیں کہ مناسب عمر میں ان کی شادی ہو جائے لیکن ان کے ماں باپ اس امید پر شادی ٹالتے رہتے ہیں کہ پہلے بیٹا بڑی نوکری حاصل کر لے یا بڑا کاروبار کرنے لگے، پھر شادی کریں گے اور اس طرح ان کی شادی میں تاخیر کرتے رہتے ہیں۔

ایسے ماں باپ اور سرپرستوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کا یہ رویہ ان کے بچوں کے حق میں شرعی، طبی اور جنسی نقطہ نظر سے نہایت خطرناک ہے، ان کے اس عمل سے بچے بگڑ سکتے ہیں، جنسی بے راہ روی میں مبتلا ہو سکتے ہیں، دماغی اور جسمانی طور پر بیماری کے شکار ہو سکتے ہیں اور مذہبی اعتبار سے گمراہ ہو سکتے ہیں۔ 

ذرا نظر اٹھا کر اپنے سماج کا جائزہ لیں، بہت سے نوجوان ایسے مل جائیں گے جو شادی کی عمر کو پہنچ چکے ہیں اور شادی نہ ہونے کی وجہ سے جنسی بے راہ روی کے شکار ہیں، لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ، جنسی استحصال اور آبرو ریزی جیسے واقعات اس کا نمونہ ہیں۔ شادی میں تاخیر کی وجہ سے لڑکیوں میں جو مفاسد در آئے ہیں وہ بھی کم نہیں ہیں، مناسب عمر پر شادی نہ کرنے کے سنگین نتائج آۓ دن ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔


اس لیے اولاد کی شادی کے حوالے سے اپنا فاسد نظریہ ترک کیجئے اور اسلامی نظریہ اختیار کیجئے۔ اسلام یہ کہتا ہے کہ اولاد شادی کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کی شادی کر دی جائے اور معاشی اعتبار سے اس کی خوش حالی کا مسئلہ اللہ کو سونپ دیا جائے، اللہ اپنے فضل سے اور شادی کی برکت سے اسے غنی فرما دے گا۔ شادی کے حوالے سے قرآن کا نقطہ نظر یہی ہے۔ 

ارشاد ربانی ہے :
وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ.

ترجمہ : اور نکاح کر دو اپنوں میں اُن کا جو بے نکاح ہوں، اور اپنے لائق بندوں اور کنیزوں کا۔ اگر وہ فقیر ہوں گے تو اللہ انھیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔ اللہ وسعت والا، علم والا ہے۔( سورۃ النور، آیت : 32 )

*دیکھو، قرآن ببانگ دہل کہہ رہا ہے کہ تمہارا کام ہے صرف اولاد کی شادی کر دینا۔ انھیں بر سرِ روز گار کرنا، غنی کرنا تمھارا کام نہیں ہے۔ انھیں غنی کرنا، خوش حال زندگی دینا اللہ کا کام ہے، اور اللہ شادی کی برکت سے انھیں غنی فرما دے گا۔

جب اللہ صاف صاف ارشاد فرماتا ہے کہ ہم اپنے فضل سے شادی شدہ جوڑے کو غنی کر دیں گے تو پھر ایک مسلمان کیوں اپنی اولاد کی شادی میں تاخیر کرتا ہے؟ کیوں ان کے غنی ہو جانے کا انتظار کرتا ہے؟ کیوں ان پر جبر کر کے انھیں ذہنی اذیت دیتا ہے؟ اور کیوں ان کی زندگی برباد کرتا ہے؟ 

کیا مسلمان کو قرآن پر اور اللہ کے ارشاد پر بھروسہ نہیں رہا؟ یا اس کا ایمان کمزور ہو گیا ہے؟ یا اس کو قرآن کا یہ پیغام معلوم ہی نہیں ہے؟ 

کچھ بھی ہو یہ ایک مسلمان کی سخت کوتاہی ہے جس کی وجہ سے معاشرہ تباہ ہو رہا ہے، نسلیں بگڑ رہی ہیں، اور ان کی دنیا و آخرت خراب ہو رہی ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو بے دار ہونے کی ضرورت ہے، اپنے بچوں کی زندگی بچانے کی ضرورت ہے، معاشرے کو فاسد ہونے سے بچانے کی ضرورت ہے اور اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اسلامی نقطہ نظر کو دل سے ماننے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

آئیے آج عہد کرتے ہیں کہ اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر کریں گے، مناسب عمر میں کوئی اچھا رشتہ دیکھ کر ان کی شادی کر دیں گے اور ان کی خوش حالی اور غنا کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیں گے اور یہ یقین رکھیں گے اللہ ہمیں ہماری نیتوں کا اجر ضرور عطا فرمائے گا، إن شاء الله۔

ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گِرہ کُشا  ہے نہ رازی ، نہ صاحبِ کشّاف

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad