تازہ ترین

بدھ، 13 مئی، 2020

یہ ایک فاحشہ عورت کا گھر ہے اس کو بہت جگہ سے راشن آتا رہتا ہے

راشن کی تقسیم کا سلسلہ شروع تھا۔ ایک پرانے مکان پہ نظر پڑی، اس کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہا ہی تھا کہ ساتھ میں آئے محلے کے ایک فرد نے منع کر دیا۔پوچھنے پر وہ کہنے لگا صاحب رہنے دیں۔ یہ ایک فاحشہ عورت کا گھر ہے۔ اس کو بہت جگہ سے راشن آتا رہتا ہے۔یہ بات سن کر مجھے یقین ہو گیا کہ محلے میں سے کسی نے بھی اس کو راشن فراہم نہیں کیا ہوگا۔
جیسے تیسے میں نے اس سے بحث کر کے دورازے پہ دستک دی۔اندر سے دھیمی سی آواز آئی ۔۔۔  کون۔۔؟میں نے بتایا کہ راشن سپلائی کر رہے ہیں۔۔ آپ لینا پسند کریں گی؟؟تو انتہائی غمگین سی آواز آئی کہ آپ واپس چلے جائیں۔ پہلے ہی اس محلے میں لوگ ہمیں جینے نہیں دیتے۔ ہم گزارہ کر لیں گے۔ آپ کی مہربانی آپ محلے کے شرفاء میں تقسیم کر دیں۔

اس کے لہجے کی یاسیت کو محسوس کر کے میں نے بضد ہو کر کہا:
 آپ مجھے اپنا بھائی سمجھیں اور محلے داروں کی فکر نا کریں۔بہت اصرار کرنے کے بعد اس عورت نے اپنی بیٹھک کا دروازہ کھولا اور ہم نے راشن اور آٹے کا تھیلہ وغیرہ اس کے گھر رکھ دیا۔وہ عورت خود پردے میں آئی اور شکریہ ادا کرنے لگی۔
لیکن دل مطمئن نہیں تھا کیونکہ وہ باپردہ عورت لگ رہی تھی ۔محلے کا ایک فرد بھی میرے ساتھ تھا جو بار بار مجھے چلنے کے لیے کہہ رہا تھا۔ اس فرد کی باتوں کو نظر انداز کر کے میں نے جوں توں ہمت کی اور اس عورت سے پوچھ لیا کہ بہن آپ نے ایسا کیوں کہا کہ آپ کے گھر میں راشن موجود ہے۔؟

کہنے لگی:
بھائی گھر میں آلو پڑے ہیں۔ جو پچھلے ایک ہفتے سے بنا کے کھا رہے ہیں۔ محلے میں سے کسی نے خبر تک نہ لی۔ عورتیں میرے گھر نہیں آتیں اب۔۔۔

میں نے پوچھا: ایسا کیوں ہے میری بہن۔؟
وہ بے کس عورت آنکھوں میں آنسو لیے بولی :
میرے خاوند کو وفات پائے 2 سال کا عرصہ ہوگیا ہے۔ اس وقت بہت حالات اچھے تھے۔
میرے 2 بچے ہیں۔ کچھ وقت ٹھیک گزرا۔ میرے والد میرے لیے جتنا کر سکتے تھے کرتے رہے۔ ان کی وفات کے بعد حالات خراب ہونا شروع ہوگئے۔ بچوں کا اور گھر کا نظام مشکل ہو گیا۔
ایک دن میرے خاوند کا قریبی دوست کچھ عرصہ بعد باہر سے آیا۔ اس نے مجھ سے بہت افسوس کیا اور مجھے کچھ پیسے دے کر چلا گیا۔
پھر وہ کچھ دن بعد آیا اور مجھے گھر کا کچھ راشن دے گیا۔
دوسری دفعہ لوگوں نے جب میرے دروازے پہ گاڑی کھڑی دیکھی تو طرح طرح کی باتیں کرنا شروع کر دیں۔

پھر جب وہ واپس بیرون ملک لوٹنے لگا تو جاتے ہوئے میرے گھر آیا اور کہا : 
"بہن یہ میرا نمبر ہے آپ کو کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو اپنے بھائی سے کہنا کسی محلے دار سے مانگنے کی ضرورت نہیں۔ "

جب وہ باہر نکلا تو محلے کے لوگوں نے اسے پکڑ کر مارنا شروع کر دیا کہ تم نے ہمارے محلے میں گند مچایا ہوا ہے۔ یہ سن کر میں نے چلانا شروع کر دیا کہ تم لوگوں  میرا حال تک نا پوچھا اور اگر کوئی بھائی بن کر میرا خیال کر رہا ہےتو تم اسے بھی مار رہے ہو۔ 
شرم سے میری جان نکلی جارہی تھی کہ اتنی ہمدردی کا یہ صلہ ملا اسے۔
وہ بھائی ان کو سمجھاتا رہا کہ یہ میری بہنوں جیسی ہے لیکن محلے کے لوگوں کو جیسے ایک تماشہ ملا تھا لگانے کو۔
خیر وہ جان چھڑا کے وہاں سے چلا گیا۔

کچھ عرصہ تک مجھے اگر کبھی ضرورت ہوتی تو میں کال کر دیتی شرمسار ہو کر ان کو۔ اور وہ مجھے بینک میں پیسے حسب ضرورت بھیج دیتے۔
پچھلے 2 ماہ سے ان کو کال نہیں کی اور پھر یہ کرونا وائرس کا مسئلہ ہوگیا تو سنا کہ ان بھائی کے ملک کے حالات زیادہ خراب ہیں۔
دوبارہ میری ہمت نہ ہوئی کبھی ان کو کال کرنے کی۔

اب بیوہ سمجھ کر اگر کوئی میری مدد کرنا بھی چاہے تو محلے والے مجھے غلیظ نظروں سے دیکھتے ہیں۔
اور محلے میں اتنے شرفاء ہیں کہ ہر کوئی گزرتے ہوئے میرے دروازے پہ جھانک کر جاتا ہے۔ باہر جاتے ہوئے مجھے گھورتے ہوئے جاتا ہے۔
اپنی عورتوں کو میرے گھر نہیں آنے دیتے۔ 
یہ وائرس تو بہانہ رکھا ہے اللہ نے ہمیں راشن بھیجنے کا ورنہ ضرورت کا سامان تو بالکل ختم ہونے کو ہے۔
کچھ دنوں سے اس بھائی کو کال ملانے کا سوچا لیکن ضمیر نے گوارہ نہ کیا۔ سوچا کہ پتا نہیں ان کے اپنے حالات کیسے ہوں گے۔
میرے بچوں کو بھی اب محسوس ہونا شروع ہو گیا ہے کہ محلے میں ہماری ماں کو لوگ کس نظر سے دیکھتے ہیں۔
ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو دشمنوں کی بیٹیوں کے سروں پر چادر رکھا کرتے تھے یہ کہاں کے دین دار لوگ ہیں کہ اگر کوئی میرے گھر میری مدد کو آتا ہے تو اس کو اس قدر مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں کہ لوگوں نے ڈر کے مارے مجھے زکوٰۃ تک دینا چھوڑ دی۔

یہ باتیں کرتے کرتے اس کا دوپٹہ آنسووں سے بھیگ گیا اور جو میرے ساتھ آدمی بیٹھا تھا وہ شرم سے پانی پانی ہو رہا تھا۔
مجھے پتہ ہی نہ لگا کہ میری آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی۔ ہم نے راشن کے ساتھ کچھ نقد رقم بھی اپنی طرف سے ادا کر دی۔
جو شخص میرے ساتھ تھا وہ باہر نکل کر کچھ بولنے ہی والا تھا کہ مجھ سے رہا نہ گیا اور اس کے بولنے سے پہلے ہی شروع ہو گیا کہ بروز قیامت تم لوگوں کے اس راشن کو اللہ کیسے قبول کرے گا جب کے تمہیں محلے میں رہنے والے ان لوگوں کی خبر نہیں جو کسی کے دروازے پہ نہیں جاتے۔؟ 

کوئی کیسا ہے یہ اللہ اور اس کے درمیان کا معاملہ ہے۔۔
آنکھوں دیکھا بھی بعض دفعہ سچ نہیں ہوتا۔
اسکی خاموشی اور نم آنکھوں نے کچھ نہ بولا

چار پانچ دن بعد اس نے محلے میں سے اچھی خاصی رقم اکٹھی کر کے اس عورت کے گھر پہنچا دی۔

"بے شک اللہ ہی جانتا ہے سب کے دلوں کے حال"

ہم کریکٹر کو چھوڑ کر یہ تک سوچ کر کچھ نہیں دیتے کہ یہ وہابی ہے یہ سنی ہے یہ شعیہ ہے۔
خدارا یہ سوچنا بند کر دیں کہ فلاں ضرورت مند ہے یا نہیں۔ اگر اللّٰہ تعالیٰ ہمیں دیتے وقت یہ نہیں سوچتے کہ یہ ضرورت مند ہے یا نہیں تو ہم کون ہوتے ہیں یہ فرق کرنے والے۔ اپنی بہترین کوشش کر کے تلاش کر کے ضرورت مندوں کو دیں اور اگر کسی نے دھوکے سے سامان لے لیا تو وہ اللّٰہ اور اس کا معاملہ ہے۔ آپ کی نیت پر کوئی شک نہیں اور آپ کو پورا پورا ثواب ملے گا۔ ان شاءاللہ

آخری_بات
خدارا دل نرم کیجیے اور اپنے اردگرد موجود ضرورت مندوں کا خیال رکھیں۔
اس وقت کا انتظار نہ کریں جب کوئی عورت بچوں کی بھوک سے مجبور ہو کر گھر کی دہلیز سے باہر نکل کر ہاتھ پھیلائے اور پھر معاشرے میں موجود ہمارے جیسے بھیڑیے فقط چند نوالوں کی خاطر اس سے اس کا سب کچھ چھین لیں۔

ہاتھ جوڑ کر  التجا ہے کہ خود باہر نکلیں اور ایسے لوگوں کو تلاش کریں۔ راتوں کو اپنے محلے کا چکر لگائیں اور بچوں کے رونے کی آواز سن کر اور خالی برتنوں کی آوازوں سے اندازہ لگائیں کہ ان کو راشن کی ضرورت ہوگی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad