تازہ ترین

اتوار، 24 مئی، 2020

زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کا انجام!

ازقلم: مولانا محمد رضوان حسامی و کاشفی
(ناظم اعلیٰ مرکز تحفظ اسلام ہند)
    محترم قارئین کرام! اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم ترین رکن فریضہئ زکوٰۃ ہے۔میرے اور آپ کے آقا جناب نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا: کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم ہے: ایک اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور محمد ؐ اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں، دوسرے نماز قائم کرنا، تیسرے زکوٰۃ ادا کرنا، چوتھے حج کرنا، پانچویں رمضان المبارک کے روزے رکھنا۔(بخاری ومسلم)    زکوٰۃ سن 2 ھجری میں مسلمانوں پر فرض ہوئی، حالانکہ نبی کریم ؐ پہلے ہی سے غریبوں، مسکینوں، یتیموں، ضعیفوں اور بے سہارا لوگوں پر بہت رحیم و کریم تھے اور ان کی خبر گیری کیا کرتے تھے، اور مالدار مسلمانوں کو اسکی ترغیب بھی دیتے تھے، لیکن جیسے ہی زکوٰۃ فرض ہوئی ایک پیمانہ مقرر ہو گیا ایک معیار مل گیا جسکے سبب مال خرچ کرنے میں بہت آسانی ہوگئی۔زکوٰۃ اسلام کی ایک اہم ترین مالی عبادت ہے، جس کی فرضیت کتاب و سنت اور اجماع امت سے ثابت ہے، اس کا منکر کافر ہے، منکرینِ زکوٰۃ کو فوراً توبہ کرنی چاہیے، ورنہ اسلامی حکومت ہو تو وہ واجب القتل ہے، ادا کرنے میں تاخیر کرنے والا گناہگار ہو تا ہے، اور اسکی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔(عالمگیری)

    اور زکوٰۃ کا مطلب سارا مال یا آدھا مال دینا نہیں ہے بلکہ سارے مال میں(یعنی ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولے چاندی، یا نقدی اور مال تجارت یا سب کو ملا کر اگر چاندی کے نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے) تو اس مال کا چالیسواں حصہ زکوٰۃ میں دینا ہے۔اور زکوٰۃ ٹیکس نہیں ہے بلکہ زکوٰۃ کا عمل بندے اور خدا، غلام اور آقا کے درمیان ایک تعلق ہے،یعنی بندہ اپنے خدا کی رضاء جوئی کے واسطے اپنی پاک کمائی کا ایک حصہ بارگاہِ الہی میں پیش کرتا ہے، زکوٰۃ دیکر وہ اپنے دل میں خوشی محسوس کرتا ہے، اور اس تصور سے اسکا چہرہ پُر مسرت ہوجاتا ہے، اسکے برعکس ٹیکس مجبوری اور تنگ دلی سے دیا جاتا ہے، ٹیکس گراں گزرتا ہے، اور زکوٰۃ شرف محسوس ہوتی ہے، ٹیکس وصول کیا جاتا ہے، اور زکوٰۃ پیش کی جاتی ہے، ٹیکس جرمانہ خیال کیا جاتا ہے، اور زکوٰۃ محبوب کے لیے نذرانہ۔قرآن و حدیث میں زکوٰۃ کو بہت تاکید کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، اور بار بار اسکی اہمیت و افادیت کو اُجاگر کرکے اسکی یاد دہانی کرائی گئی ہے۔زکوٰۃ کی اہمیت کا اندازہ آپ اسی بات سے لگا سکتے ہیں کہ قرآن پاک میں صرف نماز کے ساتھ 32 مقامات پرزکوٰۃ کا ذکر کیا گیا ہے، اسکے علاوہ جو ذکر کیا گیا ہے وہ علاحدہ ہے۔ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن پاک میں نماز کے ساتھ زکوٰۃ کو ذکر کرکے بندوں کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ ''جس طرح نماز کا پڑھنا ہر عاقل و بالغ مسلمان پر فرض ہے ٹھیک اسی طرح ہر صاحبِ نصاب پر زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے''۔
قرآن پاک میں ایک جگہ ارشاد فرمایا:نماز قائم کرو، اور زکوٰۃ ادا کرو۔(سورۃ البقرہ:43)
اور ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا:''اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے وہ لوگ ہیں جو دیکھے بغیر اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اور ہمارے دیے ہوئے مال میں سے خرچ کرتے ہیں۔''(سورۃ البقرہ:3)
اور حضرتِ عبدا للہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: جب آنحضرت ؐ نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف امیر بنا کر بھیجا، تو فرمایا تم ایک ایسی قوم کی طرف جا رہے ہو، جو اہل کتاب ہے، پہلے انہیں اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور میری رسالت قبول کرنے کی دعوت دینا، اگر مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں، اگر یہ بھی قبول کر لیں، تو انہیں اطلاع دینا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مال پر زکوٰہ فرض کی ہے، جو ان کے مالداروں سے لے کر غرباء و مساکین میں تقسیم کر دی جائے گی، اگر وہ اس پر آمادہ ہو جائیں تو ان کے بہترین مال لینے سے پرہیز کرنا، اور مظلوم کی بدعا سے بچنا، کیونکہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی قبولیت میں کوئی پردہ نہیں۔(بخاری و مسلم)
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:کہ ایک اعرابی آنحضرت ؐ کی خدمت میں آیا، اور کہنے لگا، ائے حضرت! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے کہ اس کے کرنے سے میں جنت میں داخل ہو جاؤں، آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ بناو?، فرض نماز قائم کرو، فرض زکوٰۃ ادا کرو، اور رمضان المبارک کے روزے رکھو، یہ سن کر اعرابی بولا، اُس خدا کی قسم! جسکے قبض? قدرت میں میری جان ہے، میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کروں گا، جب وہ پیٹھ پھیر کر جانے لگا، تو آپ ؐ نے فرمایا: جسے جنتی آدمی دیکھنا پسند ہو، وہ اسے دیکھ لے۔(صحیح بخاری)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ؐ سے سنا آپ فرماتے تھے: تم میں سے جو شخص اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول پر ایمان رکھتا ہو، اسکو چاہیے کہ اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرے۔(طبرانی صغیر) 
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کردی تو اس مال کی برائی اس سے جاتی رہی۔(یعنی زکوٰۃ نہ دینے کی وجہ سے مال میں جو گندگی اور نحوست آجاتی ہے وہ نہیں رہی) (طبرانی اوسط ابن خزیمہ صحیح)
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ جناب نبی کریم ؐ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: زکوٰۃ اسلام کا پل ہے یا بلند عمارت ہے۔(طبرانی اوسط کبیر)
زکوٰۃ ادا کرنے سے آدمی کا مال محفوظ ہو جاتا ہے، اسی لیے اللہ کے نبی ؐ نے فرمایا: زکوٰۃ دے کر اپنے مالوں کو محفوظ کرلو۔(طبرانی،بیھقی)
    معزز قارئین! قرآن و حدیث میں جہاں زکوٰۃ کی فرضیت، عظمت و فضیلت، اور اہمیت و افادیت کو بیان کیا گیا ہے وہیں زکوٰۃ نہ دینے پر سخت وعیدوں کو بھی بیان کیا گیا ہے،
قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: ''کہ جو لوگ سونا، چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں، اور اسے اللہ تعالیٰ کے راستہ میں خرچ نہیں کرتے، آپ ان کو دردناک عذاب کی بشارت دے دیں، جس دن ان کے اس مال کو جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا، پھر اس سے ان کی پیشانیوں، پہلوو?ں، اور پیٹھوں پر داغ دیے جائیں گے، اور ان سے کہا جائے گا، یہ وہی مال ہے، جسے تم نے اپنے لیے جمع کر رکھا تھا، اب اپنے جمع کیے ہوئے مال کا مزہ چکھو۔''(سور? توبہ:35/34)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ؐ نے فرمایا: سونے چاندی کا جو مالک ان کا حق ادا نہیں کرتا، قیامت کے دن اس کے لیے اس سونے چاندی کی چوڑی چوڑی سلاخیں بنائی جائیں گی، پھر انہیں جہنم میں آگ کی طرح سرخ کیا جائے گا، اور ان سے اس کی پیشانی، پہلو اور پیٹھ پر داغ دیے جائیں گے، جب وہ سرد پڑ جائیں گے تو جہنم کی آگ گرم کر کے دوبارہ داغ دینے شروع کیے جائیں گے، اور لوگوں کے درمیان فیصلہ ہونے تک پچاس ہزار سال کے دن اس کے ساتھ یہی سلوک ہوتا رہے گا، اس کے بعد اسے جہنم کا راستہ دکھایا جائے گا، یا جنت کا۔(صحیح مسلم) 
ان تین اعضاء کو داغ دینے کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی ضرورت مند سوال کرتا ہے، تو سب سے پہلے کراہت اور ناپسندیدگی کے آثار ان کے چہروں پر ظاہر ہوتے ہیں، اپنی پیشانیوں پر شکن ڈالتے ہیں، اور تیوری چڑھا کر سائل کو غضب ناک نظر سے دیکھتے ہیں، تاکہ وہ اپنا حق طلب کرنا چھوڑ دے، اگر ضرورت مند زیادہ توجہ دلائے، تو پہلو بدل کر دوسری طرح متوجہ ہو جاتے ہں، اگر سائل نے پھر جرا?ت سے کام لیا، توپیٹھ پھیر کر چل دیتے ہیں، یہ اللہ کے انعام اور فضل کی انتہائی ناسپاسی ہے، جس کا ارتکاب عموماً بخیل سرمایہ دار کرتے ہیں۔اللہ ہم تمام کی حفاظت کی فرمائے۔حضور پاک ؐ نے فرمایا: جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے مال (سونا چاندی) دیا ہو اور اس نے اس کی زکوٰۃ ادا نہ کی ہو، تو قیامت کے دن اس کے مال کو ایک نہایت زہریلے سانپ کی شکل دی جائے گی، اور طوق کی طرح اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا، وہ اس کے منہ پر دونوں جانب ڈنگ مارے گا، اور کہے گا، میں تیرا ما ل ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں، جسے توجمع کر کے دنیا میں چھوڑ آیا، پھر آنحضرت ؐ نے اس کی تصدیق کرنے والی قرآن پاک کی آیت پڑھی۔(بخاری شریف)
ایک روایت میں ہے، وہ سانپ سے ڈر کر بھاگے گا، سانپ اس کے پیچھے دوڑے گا، حتی کہ وہ تھک ہار کر اپنا ہاتھ اس کے منہ میں ڈال دے گا، اور وہ اسے اونٹ کی طرح چباتا ہوا نکل جائے گا۔عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک عورت حضور اقدس ؐ کے پاس آئی جس کے ساتھ اس کی بیٹی تھی، اس کے ہاتھ میں سونے کے دو موٹے موٹے کنگن تھے، آپ نے پوچھا، اس کی زکوٰۃ بھی دیتی ہو؟ اس نے کہا نہیں، آپ نے فرمایا: کیا تمہیں یہ پسند ہے، کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کے بدلہ میں تمہیں آگ کے کنگن پہنائے؟ راوی کا بیان ہے کہ یہ سنتے ہی اس نے دونوں کنگن اتار دیے، اور آپ ؐ کے سامنے رکھ دیے اور بولی کہ میں نے یہ دونوں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی راہ میں دے دیے۔(ابوداؤد و نسائی) ایک حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم کو نماز کی پابندی اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اور جو شخص زکوٰۃ نہ دے اسکی نماز قبول نہیں ہوتی۔(طبرانی و اصبھانی)
آج ایسے کتنے لوگ ہیں جو آپنے آپکو بڑا نمازی گردانتے ہیں لیکن صاحب نصاب ہونے کے باوجود زکوٰۃ ادا نہیں کرتے، وہ اس بات کو یاد رکھیں کہ انکی نمازیں زکوٰۃ ادا کیے بغیر قبول نہیں ہوتیں۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ''زکوٰۃ نہ دینے والا قیامت کے دن دوزخ میں جائے گا''۔(طبرانی صغیر) 
ہر قسم کے تجارتی مال میں بھی زکوٰۃ فرض ہے، اور اس کے ادا کرنے کے لیے حولان حول کی شرط ہے، اور ہدایہ میں ہے کہ: زکوٰۃ ہر قسم کے سامان تجارت میں واجب ہے، جب اس کی قیمت سونے چاندی کے نصاب کو پہنچ جائے۔(ج1 ص 177)
حدیث شریف میں آتا ہے:سمرہ بن جند ب کہتے ہیں کہ جو مال ہم تجارت کے لیے تیار کرتے تھے، آنحضرتؐ ہمیں اس سے زکوٰۃ دینے کا حکم فرمایا کرتے تھے۔(ابوداؤد، مشکوٰۃ)
ایک شخص حماس نامی رنگے ہوئے کپڑوں اور تیر محفوظ رکھنے کے لیے ترکشوں کی تجارت کیا کرتا تھا، وہ کہتا ہے:امیر المو?منین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا ان چمڑوں اور ترکشوں کی قیمت لگاؤ، اور ان کی زکوٰۃ ادا کرو۔(سنن البیھقی)
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''جو قوم زکوۃ نہیں دےگی اللہ تعالیٰ اسے قحط میں مبتلا فرمائے گا۔''(المعجم الاوسط)
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا: خشکی و تری میں جو مال تلف ہوتا ہے، وہ زکوٰۃ نہ دینے کی وجہ سے تلف ہوتا ہے۔(الترغیب و الترہیب)
    معزز قارئین کرام! دوسرے اموال کی طرح حضور اقدس ؐ نے مویشیوں میں بھی زکوٰۃ فرض کی ہے، اور اس پر تمام امت کا اجماع ہے، ان سے زکوٰۃ نہ دینے والے کے حق میں حدیث پاک میں سخت وعیدیں آئی ہیں۔ مشکوٰۃ شریف میں ہے:حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ؐ نے فرمایا: اونٹ، گائے یا بکریوں کا مالک اگر ان کی زکوٰۃ ادا نہیں کرے گا، تو قیامت کے دن یہ جانور دنیا کی نسبت زیادہ لمبے اور زیادہ موٹے اس کے سامنے لائے جائیں گے، وہ اس کو سینگوں سے مارتے ہوئے، اور پیروں تلے کچلتے ہوئے گذریں گے، جب آخر والے ختم ہو جائیں گے، تو پہلے پھر اسی طرح گذرنا شروع ہو جائیں گے، اور لوگوں کے درمیان فیصلہ ہونے تک اس کا یہی حال ہوتا رہے گا۔
    نوٹ: حضراتِ فقھاء فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم زکاۃ المال: یعنی مال کی زکوٰۃ جو مال کی ایک خاص مقدار پر فرض ہے۔دوسری قسم زکاۃ الفطر: یعنی بدن کی زکوٰۃ جسکو صدقہئ فطر کہا جاتا ہے۔
صدقہئ فطر شرعی اصطلاح میں اس صدقے کو کہا جاتا ہے جو ماہ رمضان کے ختم ہونے پر روزہ کھلنے کی خوشی اور شکریہ کے طور پر ادا کیا جاتا ہے، نیز صدقہئ فطر رمضان المبارک کی کوتاہیوں اور غلطیوں کا کفارہ بھی بنتا ہے۔ جیسا کہ حدیث پاک میں حضرت عبد بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے صدق? فطر کو فرض فرمایا تاکہ روزہ دار سے روزے کی حالت میں جو فضول و نازیبا بات سرزد ہوگئی ہو وہ اس سے پاک ہو جائے، اور مسکینوں کو(کم از کم عید کے روز خوب اچھی طرح سے) کھانا میسر ہوجائے۔(ابوداؤد)
یہ حقیقت ہے کہ روزہ دار چاہے کتنا ہی اہتمام کرلے؛ لیکن روزہ کے درمیان کچھ نہ کچھ کوتاہی ہو ہی جاتی ہے، اُن چیزوں سے بچنا تو آسان ہے جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؛ لیکن بے کار باتیں، فضول مصروفیات، اور ایسی بہت ساری چیزیں جن سے روزے کی روحانیت متاثر ہوتی ہے ان سے مکمّل طور پر بچنا مشکل ہے، اس لیے اس طرح کی کوتاہیوں کی تلافی کے لیے رمضان المبارک کے اختتام پر صدقۃ الفطر کے نام سے ایک عبادت واجب قرار دی گئی۔معلوم ہوا کہ صدقۃ الفطر کے دو مقاصد ہیں: ایک روزہ دار کی کوتاہیوں کی تلافی۔ اور دوسرا امت کے مسکینوں کے لیے عید دن رزق کا انتظام تاکہ وہ بھی عید کے دن لوگوں کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔
    مذکورہ بالا تحریر سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ہر صاحبِ نصاب کو سال گزرنے پر اپنے مال میں سے ڈھائی فیصد بطور زکوٰۃ نکالنا ضروری ہے،(اور زکوٰۃ کے متعلق بہت سارے مسائل ہیں زکوٰۃ نکالنے والے احباب حضراتِ علماء و مفتیان کرام سے مسائل معلوم کرکے مستحقینِ زکوٰۃ تک زکوٰۃ پہنچائیں) اور ہر صاحبِ حیثیت آدمی کو عیدالفطر سے پہلے صدقۃ الفطر ادا کرنا چاہیے۔ کیونکہ صدقہ و زکوٰۃ نکالنے سے سارا مال پاک ہو جاتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس مال کی حفاظت ہوتی ہے، اور غریبوں، مسکینوں کا گھر آباد رہتا ہے، اور انکے دلوں سے دعائیں نکلتیں ہیں، اور فرشتے بھی ایسے لوگوں کے مالوں میں اضافے کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔اور زکوٰۃ نہ دینے سے مال ہلاک ہو جاتا ہے، کبھی آگ لگ جاتی ہے، کبھی ڈاکہ پڑجاتا ہے، کبھی چوری ہوجاتا ہے، کبھی کہیں رکھ کر بھول جاتا ہے، کبھی سیلاب کی نذر ہو جاتا ہے، کبھی زلزلے میں تباہ و برباد ہو جاتا ہے، کبھی ایسے لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، اور کبھی مال میں بے برکتی پیدا ہو جاتی ہے، اور ایسے لوگوں کے اموال تباہ و برباد ہونے کے لیے آسمان کے فرشتے بد دعا کرتے ہیں، آسمان سے بارش بند ہو جاتی ہے، قحط پڑجاتا ہے جانور کیا انسان تک ہلاک ہو جاتے ہیں، اکثر ایسے لوگ یا انکی اولاد ایک نہ ایک دن غریب و فقیر بن کر در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں۔اللہ ہم تمام کی حفاظت فرمائے، اور ہر صاحبِ نصاب کو زکوٰۃ ادا کرنے اور ہر صاحبِ استطاعت کو عید الفطر سے پہلے صدقۃ الفطر ادا کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین ثم آمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad