تازہ ترین

بدھ، 5 اگست، 2020

رام مندر کی سنگ بنیاد کی تاریخ مقرر کرکے ملک کے سیکولرازم، جمہوریت اور دستور کو دفن کیا جارہا ہے۔عبدالحنان

بنگلور(یو این اے نیوز5اگست 2020)سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) کرناٹک شاخہ کے ریاستی جنرل سکریٹری عبدالحنان نے اپنے جاری کردہ اخباری اعلامیہ میں کہا ہے کہ 5اگست2020کو رام مندر کی سنگ بنیاد کی تاریخ مقرر کرکے اسی بنیادمیں ملک کے سیکولرازم، جمہوریت اور دستور کو دفن کردیا جائے گا۔ لیکن اب بلا جھجھک کہا جاسکتا ہے کہ جمہوریت صر ف کاغذ میں ہے اور حقیقت میں جمہوریت کے پاسدار مسلمان ہیں جو قانون کا احترام کرتے ہیں۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ عدالت عظمی کا فیصلہ حکومت کے دباؤ مٰں کیا گیا ہے۔۔ مستند و معتبر تاریخی حوالوں سے ثابت ہے کہ مغل بادشاہ محمد ظہیرالدین بابر کے حکم سے اودھ کے گورنر میر باقی نے ویران جگہ پر سن1528میں اجودھیا میں بابری مسجد تعمیر کرائی تھی۔بابری مسجد فن تعمیر کی شاہکار تھی۔ تین بڑے گنبد اور تین میں بیج والا بڑا گنبد دھوپ سے بچانے کیلئے اونچا بنایا گیا تھا۔ ہوا، روشنی کیلئے خوب صورت جالیاں بھی بنی ہوئی تھیں اور صحن میں کنواں بھی تھا جس سے پانی نکال کر وضو کے استعمال میں لایا جاتا تھا۔ بابری مسجد میں ساڑھے چار سو سال تک بلاناغہ اذانیں، پنچ وقتہ نمازیں اور جمعہ کی نمازوں کا اہتمام ہوتا تھا۔ 

ایس ڈی پی آئی ریاستی جنرل سکریٹری عبدالحنان نے اس بات کی طرف خصوصی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ رام مندر تحریک سے ہی بی جے پی کو زبردست سیاسی فائدہ ہوا ہے۔ دو سیٹوں پر رہنے والی بھاجپا آج مرکزمیں اور ملک کی دیگر ریاستوں میں اکثریت سے کامیاب ہوکر حکومت کررہی ہے۔ بی جے پی کو اقتدار تک پہنچانے میں اگر فرقہ پرستی اور ہندو مسلم نفرت و تشدد کا عمل دخل ہے تو دوسری طرف نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے بھی بی جے پی ہی کا تعاون کیا ہے۔ ملائم سنگھ، مایاوتی، نتیش کمار اور جنوبی ہند کے سیکولر پارٹیو ں کے رہنماؤں نے بھی بی جے پی کی حمایت کی اور فرقہ پرستوں کا ساتھ دیا۔ 6دسمبر 1992بابری مسجد مسمار کرنے کی تاریخ رکھ دی گئی اور اسی تاریخ کو چیلنج کرکے بابری مسجد مسمار کردی گئی۔ قانون دستور اور آئین کو پامال کیا گیا۔ ڈیڑھ لاکھ ہندو آتنک وادیوں نے بابری مسجد کو زمین بوس کردیا۔ صبح نو بجے سے لیکر شام تک ڈٹے رہے توڑ پھوڑ کرتے رہے لیکن کسی نے آواز تک نہ اٹھائی۔ مسجد توڑنے والوں پر لاٹھی چارج تک نہیں ہے۔ بالآخر پانچ سو سالہ تاریخی بابری مسجد 6دسمبر 1992کو شہید کردی گئی۔ جس کے بعد ملک بھر میں خونریز فسادات ہوئے۔ کھربوں روپئے کے املاک تباہ و برباد ہوگئے۔ تین چار ہزار انسانوں کا قتل ہوا۔ مسجد توڑ کر ہمارے ملک کی عزت کو پامال کیا گیااور مسجد کی جگہ مندر بنانے کیلئے دینے کے بعد عزت کی پامالی میں اضافہ ہوگیا۔

 دلائل و شواہد اور کاغذات و دستاویزات مسلمانوں کے حق میں ہونے کے باوجود 8نومبر 2019کو عدالت عالیہ سے قانون کے خلاف غیر منصفانہ فیصلہ صادر کردیا گیا۔ ہمارے ملک کی سپریم کورٹ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ جمہوری ہندوستا ن میں مذہبی آزادی کا شعار طاقت اور عصبیت ہے۔ بابری مسجد کی بازیابی کیلئے بہت سے تنظیموں نے تحریک چلائی اور وہ تمام تحریکیں ناکام ہوگئیں۔ بابری مسجد ایکشن کمیٹی، بابری مسجد رابطہ کمیٹی، بابری مسجد تحفظ کمیٹی وغیرہ۔ مسجد کی بازیابی کیلئے لوگ کوشاں تھے۔ لیکن عدالتی فیصلے نے سب کو مایوس کردیا اور کمیٹیوں کا پتہ ہی نہیں چلا کی کہاں غائب ہوگئیں۔ ہندو فرقہ پرستوں کی طرف سے چیلنج کرکے بابری مسجد دن دہاڑے شہید کردی گئی تھی اور چیلنج کرکے بنائی بھی جارہی ہے۔ یاد رہے مسجد کی جگہ نہ تبدیل کی جاسکتی ہے اور نہ ہی فروخت کی جاسکتی ہے۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ بابری مسجد طاقت کے بل پر چھین لی گئی ہے۔بابری مسجد کی شہادت کے وقت سنگھ پریوار کے ساتھ خاموش رہنے سیکولر پارٹیوں کے منافق لیڈران وقف کی زمین پر مندر کی تعمیر کیلئے اب کھل کر سامنے آرہے ہیں۔مودی حکومت ہر محاذ پر ناکام ہے۔ اپنی ناکامی چھپانے کیلئے اور ہندوؤں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کیلئے کورونا وبا کی مہاماری میں یہ سب ڈرامہ کیا جارہا ہے۔ بی جے پی اقتدار کیلئے جھوٹ، نفرت، ظلم اور تشدد کا راستہ اپنا رہی ہے۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad