تازہ ترین

اتوار، 27 ستمبر، 2020

سارے صحابہ عدل کے ستارے ہیں

اللہ نے جب سے اس کائنات کی تخلیق فرمائی کارخانہ قدرت کا یہ نظام یے کہ اس ارض گیتی پر لاکھوں کروڑوں افراد کو پیدا فرمایا، مگر اس دھرتی پر ایک ایسی عظمت بھی اتاری اور ایک ایسا عظیم گروہ بھی لوگوں کے رشد و ہدایت کے لیے مبعوث کیا جسے دنیا صحابة الرسول کے نام سے جانتی ہے، انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد اس ارض گیتی پر کوئی جماعت سب سے زیادہ لائق تعظیم و تکریم و توقیر ہے تو وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت ہے، جن کی افضلیت کی شہادت قرآن مقدس کی متعدد آیات دے رہی ہیں اور جن کی عظمت کی گواہی احادیث رسول دے رہی ہے.


ہم اہل سنت و جماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ دنیا کا بڑے سے بڑا ولی، قطب، ابدال، غوثیت کبری پر متمکن اغواث بھی ایک ادنی صحابی کے فضل و کمال کو تک نہیں پہونچ سکتے، کیوں کہ صحابی رسول کو نبی کی قربت کا جو شرف حاصل ہے دنیا کی کوئی دوسری فضیلت و عظمت اس کے مماثل و ہمسر نہیں ہوسکتے.


یہی وہ پاکیزہ و برگزیدہ و مہتم بالشان جماعت ہے جس کے ہر فرد کی شفاعت و مغفرت کا وعدہ لیا گیا ہے.
یہی وہ پاکیزہ نفوس ہیں جنھوں نے بلا واسطہ مشکاۃ نبوت سے نور ہدایت حاصل کرکے اپنے سینوں کو منور کیا ہے،
صحابہ کرام کی پاکیزہ و برگزیدہ جماعت کے ذریعہ جہاں امت کو خیر خواہی، حسن معاشرت و رواداری کی تعلیم دی گئی ہے وہیں پر انہیں کے ذریعہ اسلام و پیغمبر اسلام کا تعارف بھی کرایا گیا ہے، جہاں ان کی وساطت سے قرآنی آیات و دین کی امانت کو امت تک منتقل کرایا گیا وہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور سنت طاہرہ کو عام کیا گیا.
اگر صحابہ کی جماعت کو حضور علیہ السلام سے الگ رکھ کر عاصی و خاطی تصور کرکے غیر معتبر قرار دیا جائے گا جیسا کہ بعض ناعاقبت اندیش روافض و شیعہ کرتے ہیں تو اسلام کی پوری عمارت ہی مہندم ہوجاے گی، نہ رسول کی رسالت معتبر رہے گی، نہ قرآن کی عظمت بحال رہے گی، کیوں کہ اللہ کے نبی نے جو کچھ من جانب اللہ ہم کو عطا کیا ہے وہ ہم تک صحابہ کرام کی ہی معرفت پہونچا ہے.


حقیقت تو یہ ہے کہ صحابہ کرام سے عقیدت و محبت کے بغیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت نہیں ہو سکتی، اور صحابہ کی پیروی کے بغیر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا تصور محال سا ہے کیوں کہ صحابہ نے جس انداز میں اپنی زندگی بسر کی ہے وہ عین اسلام اور اتباع سنت ہے، ان کے ایمان کے کمال و جمال، عقیدہ کی پختگی، صلاح و تقوی کی عمدگی، ان کی وفاداری و جاں نثاری کی سند خود رب کائنات نے اپنے کلام مقدس میں دیا ہے.
قربان جائیں ان مقدس صحابہ کی عظمت پر جنھوں نے کلمہ بھی پڑھا اور صاحب کلمہ کی زیارت سے شاد کام بھی ہوے، جنھوں نے قرآن بھی پڑھا اور صاحب قرآن سے تفسیر بھی سماعت فرمائی، جنھوں نے بالمشافہ آفتاب نبوت و ماہتاب رسالت کے عطر بیز نکہتوں سے اپنے مشام جاں کو معطر کیا اور اس کے نوری شعاؤں سے اپنے باطن کو منور بھی کیا. جبھی تو کہا جاتا ہے.ع
اصل جلوہ ہے یہاں اپنی نظر اپنا خیال
دیکھنا کیا جو کسی اور کا دیکھا دیکھے.

اب آئیے ذرا دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید ک اندر اللہ عزوجل نے صحابہ کرام کے فضائل و خصائل و محاسن و محامد کا تذکرہ کتنی تفصیل کے ساتھ فرمایا ہے،

ایک مقام پر اللہ فرماتا ہے. "وہ سابقین اولین صحابہ جنھوں نے ایمان لانے میں سبقت کیا اور جن لوگوں نے احسان و بھلائی کے ساتھ ان کی پیروی کی تو یہ وہ اعلی مرتبت افراد ہیں جن سے اللہ راضی ہے اور یہ بھی اللہ سے راضی ہیں، اور اللہ جس سے راضی ہو تو پھر اس کو انعام کیا ہوتا ہے، اللہ فرماتا ہے، "ان کے لیے ہم نے جنت تیار کر رکھے ہیں ایسے باغات جن کے نیچے نہریں رواں ہیں، اور یہ لوگ ہمیشہ اس میں رہیں گے اور یقیناً یہ بڑی کامیابی ہے".
تو اس آیت کریمہ کے اندر اللہ عزوجل نے عمومی طور پر جمیع صحابہ سے راضی ہونے کی سند عطا فرمائی نیز ان کے لیے شفاعت و مغفرت و جنت کا وعدہ فرمایا اور کسی ایک صحابی کا بھی استثناء نہیں فرمایا تو پھر یہ کون بد بخت ہیں جو اس بات پہ جسارت کر تے ہیں کہ فلاں صحابی خطا پر تھے، فلاں صحابی نے اہل بیت پر ظلم کیا، فلاں صحابی نے احادیث رسول کو چھپایا اور امت تک نہیں پہنچایا وغیرہ. معاذ اللہ


پھر اس غلط نظریہ کو عام کرکے لوگوں میں اختلاف و انتشار کی بیج بوتے ہیں اور امت مسلمہ کے عقائد کے تار و پود کو اکھاڑنے کی ناکام سعی کرتے ہیں.


اور قرآن میں دوسرے مقام پر اللہ نے ارشاد فرمایا. "لیکن اللہ نے ان کے لیے ایمان کو محبوب قرار دیا اور ایمان سے ان کے قلوب کو آراستہ کر دیا اور کفر، حکم عدولی، نافرمانی کو ان کے لیے ناگوار قراردیا، یہی وہ لوگ ہدایت یافتہ ہیں".
اس آیت کریمہ کے اندر یہ واضح کر دیا گیا کہ اللہ نے ان کی طبیعت کو اس قدر پاک و ستھرا قراردیا کہ وہ طبعی طور پر گناہ و فسق و ظلم سے نفرت کرتے ہیں، جن کی طبیعت میں ہی گناہوں سے نفرت کی بنیاد رکھ دی گئی ہو بھلا کیوں کر وہ کسی پر ظلم کرسکتا ہے.


اور جو دریدہ دہن اپنی دریدہ دہنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صحابہ کو ظالم گردانتا یے تو ان کے لیے یہ آیت کریمہ کافی ہے.
"محمد اللہ کے رسول اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ ہیں ان کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ یہ کافروں کے ساتھ سخت ہیں اور آپس میں رحم دل ہیں. ان کے پاس ایسے امور کے لیے وقت ہی کہاں، انہیں جب تم دیکھو گے تو رکوع و سجدہ کرتے ہوے پاؤگے اور ان کے چہروں پر جو نورانیت و چمک ہے یہ کسی اور سبب سے نہیں بلکہ اللہ سجدوں کے اثر کو نمایاں کر دیا ہے. ہر صحابی کی زبان پر بس یہی رہتا تھا.
ع میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی


 اور ایک آیت میں اللہ نے خود جمیع صحابہ سے بہتری یعنی شفاعت و مغفرت و جنت کا وعدہ فرمایا ہے.
اس کے علاوہ اور متعدد آیات ہیں جن میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت و عظمت و شجاعت و سخاوت و وفا کے تذکرے موجود ہیں. لیکن میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں.


 اب آئیے احادیث رسول کا جائزہ لیتے ہیں.
تو متعدد احادیث بھی صحابہ کی افضلیت و عظمت پر صراحتاً دلالت کر رہی ہیں. چنانچہ ایک حدیث پاک کا مضمون ہے کہ جس خوش نصیب انسان کو شرف صحابیت سے مشرف ہونے کا موقع ملا اور اس نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے بالمشافہ اکتساب نور و ہدایت کیا اللہ عزوجل نے اس کے اوپر جہنم کی آگ کو حرام کر دیا ہے.
اس حدیث پاک سے صاف اور واضح ہوگیا کہ سارے صحابہ جنتی ہیں اور اللہ و رسول نے انہیں جنت کی بشارت دنیا ہی میں عطا کر دی ہیں.

اور صحیح بخاری شریف کی ایک روایت ہے. "اے میری امت کے لوگوں!! اس وقت تک تمھارے صلاح و فلاح و خیریت کی گارنٹی ہے جب تک تم میں ایک بھی صحابی موجود رہے.
دوسری روایت میں یہ مذکور ہے" میرے تمام صحابہ عدول ہیں، عدل و انصاف کے ستارے ہیں ان میں سے جس کی پیروی کروگے راہ یاب ہوجاؤ گے.


دوسرے مقام پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میرے صحابہ کی حیثیت امت میں ایسے ہی ہے جیسے کہ کھانے میں نمک کی(. کتاب فضائل الصحابہ لامام احمد بن حنبل) جس طرح دنیا کا کوئی کھانا اس وقت لذیذ نہیں ہوتا جب تک کہ اس میں کھانے کی آمیزش نہ ہو تو ویسے ہی اگر صحابہ کرام کی عملی زندگی کو اگر نمونہ عمل نہ بنایا جائے تو یہ ایمانی جذبات و اسلامی ماحول سب کے سب پھیکے ہیں.

ایک تیسری روایت میں ہے کہ اے میرے امتیوں! میرے صحابہ کے معاملات میں اللہ سے ڈرو! اور یاد رکھنا میرے بعد انہیں طعن و تشنیع کا نشانہ مت بنانا، اور میرے صحابہ کو سب و شتم مت کرنا کیونکہ اگر تم میں کا کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو میرے صحابی کے آدھا کلو اناج صدقہ کرنے کے برابر ثواب نہیں ملے گا.(رواہ البخاری)
میرے آقا کی نگاہ نبوت دیکھ رہی تھی کہ ایک زمانہ ایسا آے گا کہ میرا ہی کلمہ پڑھنے والا، میری ہی تصدیق کرنے والا، میرا دیا ہی قرآن پڑھنے والا میرے صحابہ کی شان میں گستاخانہ آمیز کلمات کہے گا، 

میرے صحابہ کی شان میں طعن و تشنیع کرے گا، ان کی فضیلت کا منکر ہوگا، اسی لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قدغن لگاتے ہوے ارشاد فرمایا، جب بھی میرے صحابہ کے معاملات کا تذکرہ ہو تو اپنے لب مت کھولنا، کف لسان کرنا اسی میں تمھارے ایمان کی سلامتی ہے کیونکہ میرے صحابہ ہی مینارہ ہدایت ہیں، یہی جماعت ہی پوری امت کے لیے نمونہ ہدایت ہے، جو ان کے ایمان و توقیر و تعظیم کو اساس ایمان تصور کرے گا اسی کی عمارت ایمان پائیدار و مستحکم ہوگی ورنہ جو ان پہ تنقید کرے گا اس کی عمارت ایمان منہدم ہوجاے گی اور اس دنیا میں بھی وہ خوار ہوگا اور قیامت میں ابدی ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا.


اب ہم وہ احادیث نقل کرتے ہیں جن میں صحابہ کرام کی شان میں توہین آمیز کلمات کہنے و ان پر تنقید کرنے والوں کے لیے وعیدات وارد ہیں.چنانچہ مشکاۃ تو متعدد احادیث بھی صحابہ کی افضلیت و عظمت پر صراحتاً دلالت کر رہی ہیں. چنانچہ ایک حدیث پاک کا مضمون ہے کہ جس خوش نصیب انسان کو شرف صحابیت سے مشرف ہونے کا موقع ملا اور اس نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے بالمشافہ اکتساب نور و ہدایت کیا اللہ عزوجل نے اس کے اوپر جہنم کی آگ کو حرام کر دیا ہے.


اس حدیث پاک سے صاف اور واضح ہوگیا کہ سارے صحابہ جنتی ہیں اور اللہ و رسول نے انہیں جنت کی بشارت دنیا ہی میں عطا کر دی ہیں.اور صحیح بخاری شریف کی ایک روایت ہے. "اے میری امت کے لوگوں!! اس وقت تک تمھارے صلاح و فلاح و خیریت کی گارنٹی ہے جب تک تم میں ایک بھی صحابی موجود رہے.دوسری روایت میں یہ مذکور ہے" میرے تمام صحابہ عدول ہیں، عدل و انصاف کے ستارے ہیں ان میں سے جس کی پیروی کروگے راہ یاب ہوجاؤ گے.دوسرے مقام پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میرے صحابہ کی حیثیت امت میں ایسے ہی ہے جیسے کہ کھانے میں نمک کی(. کتاب فضائل الصحابہ لامام احمد بن حنبل)جس طرح دنیا کا کوئی کھانا اس وقت لذیذ نہیں ہوتا جب تک کہ اس میں کھانے کی آمیزش نہ ہو تو ویسے ہی اگر صحابہ کرام کی عملی زندگی کو اگر نمونہ عمل نہ بنایا جائے تو یہ ایمانی جذبات و اسلامی ماحول سب کے سب پھیکے ہیں.


ایک تیسری روایت میں ہے کہ اے میرے امتیوں! میرے صحابہ کے معاملات میں اللہ سے ڈرو! اور یاد رکھنا میرے بعد انہیں طعن و تشنیع کا نشانہ مت بنانا، اور میرے صحابہ کو سب و شتم مت کرنا کیونکہ اگر تم میں کا کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو میرے صحابی کے آدھا کلو اناج صدقہ کرنے کے برابر ثواب نہیں ملے گا.(رواہ البخاری)
میرے آقا کی نگاہ نبوت دیکھ رہی تھی کہ ایک زمانہ ایسا آے گا کہ میرا ہی کلمہ پڑھنے والا، میری ہی تصدیق کرنے والا، میرا دیا ہی قرآن پڑھنے والا میرے صحابہ کی شان میں گستاخانہ آمیز کلمات کہے گا، میرے صحابہ کی شان میں طعن و تشنیع کرے گا، ان کی فضیلت کا منکر ہوگا، 


اسی لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قدغن لگاتے ہوے ارشاد فرمایا، جب بھی میرے صحابہ کے معاملات کا تذکرہ ہو تو اپنے لب مت کھولنا، کف لسان کرنا اسی میں تمھارے ایمان کی سلامتی ہے کیونکہ میرے صحابہ ہی مینارہ ہدایت ہیں، یہی جماعت ہی پوری امت کے لیے نمونہ ہدایت ہے، جو ان کے ایمان و توقیر و تعظیم کو اساس ایمان تصور کرے گا اسی کی عمارت ایمان پائیدار و مستحکم ہوگی ورنہ جو ان پہ تنقید کرے گا اس کی عمارت ایمان منہدم ہوجاے گی اور اس دنیا میں بھی وہ خوار ہوگا اور قیامت میں ابدی ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا.


اب ہم وہ احادیث نقل کرتے ہیں جن میں صحابہ کرام کی شان میں توہین آمیز کلمات کہنے و ان پر تنقید کرنے والوں کے لیے وعیدات وارد ہیں.چنانچہ مشکاۃ شریف کی ایک روایت ہے جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کی تنقیص کرتے ہیں اور انہیں سب و شتم کرکے ایذا پہنچاتے ہیں تو ان سے کہو، تمھارے شر پر اللہ کی لعنت ہو. (مشکاۃ المصابیح)اور ایک روایت میں بڑی شدت کے ساتھ حکم وارد ہے جس میں کہاگیا:جو میرے صحابہ کو گالیاں دے اور انہیں سب و شتم کرے تو اس پر اللہ و رسول و فرشتے اور تمام انسانوں کی لعنت برستی ہے.
اور اللہ ان کی تمام عبادات خواہ وہ فرض ہوں یا نفل رد فرمادیتا ہے.

  اور علامہ ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں.
اگر تم کسی ایسے شخص کو دیکھو جو صحابہ کی تنقیص کرتا ہے تو جان لو کہ وہ زندیق ہے.
اور امام ابو جعفر الطحاوي علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں.
ہم صحابہ میں سے ہر فرد کی غایت درجہ تعظیم و توقیر کے قائل ہیں اور ان کی تعظیم کو مدار ہدایت اور اساس ایمان تصور کرتے ہیں. مگر واضح رہے کہ ہم محبت میں خارجیوں کی طرح غلو بھی نہیں کرتے اور ناہی رافضیوں کی طرح کسی کی شان میں تبرا بازی کی کو روا سمجھتے ہیں.

اور یاد رکھنا صحابہ کی محبت ایمان و تقوی و ہدایت کی علامت ہے اور ان سے بغض و عداوت کفر و فسق و نفاق کی دلیل ہے. (العقیدہ الطحاویہ)یہ ساری روایات و اقوال اس بات پر دال ہیں کہ صحابہ کی تعظیم و توقیر ایمان کا حصہ ہے اور کیوں نہ ہو قرآن میں خود اللہ نے ارشاد فرمایا "اے میرے بندوں! اگر تم ان صحابہ کے ایمان کی طرح ایمان لے آئے تو سمجھ لینا ہدایت یافتہ لوگوں میں تمھاری شمولیت ہوگئی.

اخیر میں پھر ایک بات کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ آج پوری دنیا میں اسلام و مسلمان و پیغمبر اسلام کے خلاف سازشیں چل رہی ہیں، ارو ہر محاذ پر مسلمان ذلت و رسوائی و پسپائی کا سامنا کر رہا ہے، اور اس کے تمام تر معمولات پر آے دن مسلم مخالف طاقتیں شب خون مار رہی ہیں، اور مسلمانوں کو تختہ مشق بنایا جارہا ہے تو میرے محترم ایسے ہی کچھ حالات بلکہ اس سے بھی بھیانک حالات کا سامنا صحابہ کرام کو بھی ہوا تھا، 

مکہ کی زمین پیغمبر اسلام و متبعین اسلام کے لیے تنگ کر دی گئی تھی، ان کو طرح طرح کی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، وہ کلمہ گو ہونے کے باوجود بھی اپنے آپ کو مسلمان کہنے کی ہمت نہیں کر پاریے تھے، الغرض نت نئے طریقے سے ان کو ٹارگیٹ کیا جارہا تھا نتیجتاً ہجرت کی صورت میں ترک وطن کا وہ دور بھی دنیا نے دیکھا جس میں یہ صحابہ اپنے جان و مال و متاع و اولاد کی پرواہ کیے بنا مکہ چھوڑ کر مدینہ چلے آے اور کچھ صحابہ حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے.مگر ہمت نہیں ہارے بلکہ صبر و استقامت کے جبل عظیم بن کر ان باطل طاقتوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا نتیجتاً گھر چھوٹا، خاندان چھوٹا، زمین و جائداد چھوٹی مگر پاے استقلال میں جنبش تک نہیں آئی. صحابہ کرام کا یہ عمل آج بھی ہمیں یہ پیغام دے رہا ہے کہ اے میرے نبی کا کلمہ پڑھنے والوں! حالات جیسے بھی ہوجائیں اپنے ہاتھوں سے صبر و استقامت کا دامن مت چھوڑنا تم تو وہ جس کی دعاؤں سے اللہ آسمان سے فرشتوں کا لشکر بھیج دیتا ہے، آپ کی دعاؤں سے اللہ سمندر میں راستہ بنا دیتا ہے، تو تم کبھی ہمت مت ہارنا کامیابی و نصرت و فتح تمھارے ہاتھ میں ہوگی.ع 

تم سمندر ہو تمھیں اپنا ہنر معلوم ہے.
جس طرف بھی رخ کروگے راستہ ہوجاے گا.
اس لیے آج پھر سے ضروت ہے کہ صحابہ کی زندگی و سیرت کو مطالعہ کیا جائے اور ان کی طرز زندگی کو اپنا کر دارین کی سعادتوں سے شادکام ہو جایا جائے.


  اخیر میں تمام مسلمانانِ عالم کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ خدارا صحابہ کی شان میں گستاخی کرکے اپنی عاقبت کو خراب مت کرنا، ان کی اہانت کرکے اپنے دین و ایمان کی عمارت کو منہدم مت کرنا، بلکہ تمھارا ایمان اس بات کا متقاضی ہے کہ تم ان کی محبت کو اساس ایمان تصور کرو، اور ان کی تعظیم و توقیر کو باعث سعادت دارین تصورنا کیوں کہ ہم اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے. ع

اہل سنت کا ہے بیڑا پار اصحاب حضور
نجم ہیں اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی

✍️محمد روشن رضا مصباحی ازہری
خادم رضوی دارالافتاء،رام گڑھ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad