تازہ ترین

جمعرات، 15 اکتوبر، 2020

ختم ہونے کے دہانے پر ہے کمہاری کا پیشہ !

محنت کے مطابق نہیں مل پاتی ہے اجرت ،کمہار اب دہاڑی مزدوری ودیگر کام کرکے گزاررہے ہیں زندگی،کمہارکے گڈھوں پر شہ زوروں کا ہے قبضہ

جونپور ،(حاجی ضیاء الدین )دہائیوں قبل عام ضرورتوں کی تکمیل کے لئے کمہاری کے فن کاروں کی ضرروت ہواکرتی تھی دہائیوں قبل جہاں کمہاروں کے چاکوں پر پر مٹی کے برتن، بچوں کے کھلونے، گھر کی تعمیر کے لئے تھپو ا، نریا اور دیگر سامان بنائے جا تے تھے وہیں موجودہ وقت میں سمٹ کر اب کلہڑ اور پوجا اور تیج تیوہار میں دیپ بنانے تک ہی سمٹ کر رہ گئے ہیں اکثر کمہار گڈھوں پر شہ زروں کے ذریعہ قبضہ کر لینے کے علاوہ کمہار گڈھوں میں عام دنوں میں پا نی بھر جا نے سے مہنگی مٹی ملنے پر اجرت کا نکلنا مشکل ہو گیا ہے 


عام طور پر کہماری کے فن کا ر اپنے پیشہ سے منھ موڑ کر دہاڑی مزدروی اور دیگر کام کر نے پر مجبور  ہوگئے ہیں حکومت کی جانب سے کمہاری پیشہ پر توجہ نہ دی گئی تو آنے والے دنوں میں کمہاری کا پیشہ تاریخ کا حصہ بن جا ئے گا۔نمائندہ انقلاب نے کھیتا سرائے قصبہ کے محلہ بھبھنوٹی رہائشی 80 سالہ رام لکھن پرجاپتی سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتا یا کہ کمہاری کر نا ہمارا پشتینی کام ہے ماضی کو یاد کر تے ہو ئے انھوں نے بتا یا کہ دہائیوں قبل ہم لوگوں کے ذمہ گھر بندھے ہوتے تھے کچے مکانوں کیلئے تھپو ا،نریا، اناج رکھنے کے لئے ڈرم، کھانے کے برتن، تیج تیوہاروں میں دیاکے علاوہ بچوں کے لئے کھلونا بنا کر گھروں تک پہنچاتے تھے اور بدلے میں ہمیں اناج وغیرہ مل جا تا تھا جس سے ہماری ضرورتیں پوری ہوتی تھیں لیکن وقت بدلا تو کچے،مکان کی جگہ پکے مکان بننے لگے تو تھپو ا، نریا کا دور ختم ہو اساتھ ہی مٹی کے برتنوں کا دور ختم ہو گیا ہے اب کلہڑ اور تیج تیوہاروں تک  ہی کام سمٹ کر رہ گیا ہے۔



رام لکھن پرجاپتی


انھوں نے بتا یا کہ ترقی ہو ئی تو اناج کے بدلے ساماں بنانے کا رواج ختم ہو ااور پھر کام نقد پیسوں اور بازاروں تک پہنچ گیا لیکن ترقی کے دور میں خریدار نہ ملنے سے ہم سے ہمارا پشتینی کام ہی چھین لیا گیا ہے انھوں نے کہا کہ عمر کے آخری پڑاؤ میں ہوں کوئی اور کام نہیں کر سکتا اس لئے پرکھوں کی وراثت کو بچائے رکھنے کی لاج نبھا رہاہوں تھوڑا بہت سامان بنا کر دل کی تسکین کر لیتا ہوں۔رام لکھن نے بتا یا کہ مٹی کا سامان بنا نے کے لئے کالی مٹی، دومٹ، اور چکنی مٹی کو ملا کر پہلے کو ٹ کر باریک کیا جاتا ہے اور پھر اس کو باریک جالی سے چھان کر فضلات یعنی کنکری وغیرہ کا نکال لی جاتی ہے پھر مٹی کو دو روز تک پانی میں بھگو کر رکھا جا تاہے اس کے بعد آٹے کی مانند مٹی کو گوند کر اس کا ریشہ توڑ نے کے بعد چاک پر چڑھا یا جاتاہے چند سالوں قبل تک چاک پتھر کا ہوتا تھا جس کی لکڑی املی کی ہو تی تھی دور حاضر میں لکڑی نہ ملنے کی وجہ سے اب چاک چھوٹا بننے لگا ہے جو پہلے کے مانند چلانے میں آسان تو ضرور ہے لیکن کام کر نے میں کافی دقت ہو تی ہے۔

انھوں نے کہا کہ مٹی کا برتن بنانے میں ہاتھوں کے علاوہ کلائی، انگوٹھے اور گھٹنوں کا اہم رول ہو تا ہے چاک پر برتن بنانے کے بعد اس کو دھوپ میں سکھایا جاتا ہے سوکھنے کے بعد پیلی مٹی، املی، بانس وغیرہ کی پتی کاکاوس بنا یا جا تا تھا اس کو برتنوں پررنگ لگایا جا تا تھا اس وقت پیلی مٹی نہ ملنے سے گیروا رنگ لگا یا جاتا ہے اور جب سوکھ جاتا ہے تو آگ کا الاؤجلا کر سامانوں کو پکا یاجاتا ہے۔ قصبہ کے ہی مدن پرجاپتی (60) نے بتا یا کہ90 کی دہائی تک کام چلتا رہا لیکن ترقی کے دور میں ختم ہو چکا ہے اب تو گھروں میں ہونے والی پوجا،میلوں میں چند کھلونے اور چائے کے کلہڑ بنانے تک ہی کام سمٹ کر رہ گیا مہنگائی کے دور میں اجرت نہیں نکل پا تی ہے ایک ہزار رو پیہ ادا کر نے کے بعد مٹی ملتی ہے وہ بھی من مطابق نہیں ہوتی ہے۔

مدن پرجاپتی


انھون نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ کا غذوں میں جو بھی کمہار گڈھے درج ہیں یا تو شہ زرو قبضہ کر گئے یا پھر گڈھوں میں پانی بھر ا رہتا ہے جس میں اکثر گڈھوں تالابوں میں ماہی پروری ہو رہی ہے حکومت کی جانب سے کو ئی حوصلہ نہیں ملتا ہے اتنا ضرور ہے کاغذوں میں اسکیم ضرور بنتی ہے ہماری بردار ی کے لوگ بیدار نہیں ہے اس لئے ہماری ضررورتوں پر کوئی توجہ بھی 

نہیں دی جا رہی ہے حکومت کی جانب سے حوصلہ نہ ملنے سے کام ختم ہو رہا ہے 25 گھروں کی آبادی کمہاروں کی ہے لیکن گنتی کے لوگ ہی اس کام سے بدرجہ مجبوری جڑے ہو ئے ہیں حالانکہ نئی نسلوں کا رجحان مٹی کے برتنوں میں کھانے پینے کی طرف لوٹ رہا ہے اور لوگ شوق سے مٹی کے برتنوں میں کافی، چائے اور کھانا کھا نا چاہتے ہیں حکومت کی جانب سے اگر توجہ دی جا ئے تو فن کا ری یقینا زندہ ہو سکتی ہے اور ہزاروں فن کاروں کے گھروں کے چولہے بھی آسانی سے جل سکتے ہیں۔


انھوں نے کہا کہ کام میں اجرت نہ ملنے کی وجہ سے میں دہاڑی مزدروی کر کسی طرح بچوں کا پیٹ پال رہا ہوں پشتینی کا م ختم ہو نے کا مجھے بے حد افسوس ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad