تازہ ترین

ہفتہ، 24 اکتوبر، 2020

لکھنو میں جمعیة علماء اترپردیش کی مجلس عاملہ کا اجلاس منعقد

آنند نگر مہراج گنج: (عبید الرحمن الحسینی) گذشتہ دنوں جمعیة علمائاتر پردیش کی مجلس عاملہ کا اجلاس،سنی انٹر کالج لکھنو کے وسیع ہال میں صدر جمعیت مولانا سید اشہد رشیدی کی صدارت میں منعقد ہوا، جس میں جمعیة علماء مہراج گنج کے جنرل سکریٹری مولانا محی الدین قاسمی ندوی سمیت صوبے کے تمام اضلاع میں سرگرم جمعیة علماء کی تمام اکائیوں کے ذمہ داران وعہدیدارن نے شرکت کی۔ 



اجلاس کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا، بعد ازاں اترپردیش جمعیة کے صدر مولانا سید اشہد رشیدی نے ایجنڈہ کے مطابق پچھلی کاروائی کی خواندگی کے بعد کاروائی کو آگے بڑھاتے ہوئے حالات حاضرہ پر بصیرت افروز خطاب فرمایا، اور تکلیف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک کے مسلمان مشکل حالات سے گذررہے ہیں،ایک طرف فرقہ پرست ذہنیت رکھنے والوں کے حوصلے بلند ہیں تو دوسری طرف برسر اقتدار حکومتوں کی پشت پناہی اور رویہ سے اقلیتوں، دلتوں خصوصاً مسلمانوں کے لئے جینا مشکل ہوگیا ہے،ملک میں نئی تعلیمی پالیسی کے اعلان کے بعد مذہبی تعلیم کا کتنا نقصان ہوگا، اندازہ نہیں کیا جاسکتا، اس کے علاوہ اور بھی بے شمار ملی مسائل ہیں، جن کے لئے ابھی سے بیدار ہونا اور اس کے حل کیلئے فکر مند ہونا ضروری ہے۔


جمعیة علماء مہراج گنج کے جنرل سکریٹری مولانا محی الدین قاسمی ندوی نے بھی ملکی حالات بالخصوص سرکاری وغیر سرکاری مدارس پر لٹکتی ہوئی تلوار، نیز حالیہ دنوں حکومت کی طرف سے جاری نئی تعلیمی پالیسی کے نقصانات اور مضرات پر بھرپور طریقے سے حاضرین کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔


آپ نے کہا کہ علمائکو ملحقہ مدارس اور گرانٹیڈ مدارس کے ایشوز میں نہ الجھ کر، اپنے اپنے تمام مدارس کو سرکارکے کسی بھی بورڈ سے تعلیمی الحاق کرا نے پر سنجید گی کے ساتھ غور وفکر کرنا وقت کا اہم تقاضہ ہے، کیوں کہ مدارس کا پڑھا ہوا بچہ اگر کالجز اور یونیورسٹیوں کا رخ کرتا ہے تو اس وقت اسی ادارہ کے بچے کا داخلہ ممکن ہوگا، جس نے سرکار کے کسی تعلیمی بورڈ، سے الحاق کیا ہوگا۔


 مولانا ندوی نے مدارس کی تعلیمی نظام کی بقائکو لیکرکہا کہ،کانگریس کے دروحکومت میں بھی، آر، ٹی، ای (رائٹ ٹو ایجوکیشن)قانون کے تحت مدارس دینیہ کو بھی یکساں تعلیم دینے پر مجبور کیا گیا تھا، کہ مگر ہمارے دور رس قائدین جمعیت نے بر وقت اس پر اعتراض جتاتے ہوئے مدارس کو اس ضابطہ سے مستثنی قرار دینے پر حکومت مجبور کیا لیکن اب ایک نئی تعلیمی پالیسی آئی ہے، شاید اس سے بچنا ہمارے لئے ممکن نہ ہو، اس لئے مدارس کے الحاق کے بابت سنجیدگی سے سوچنا چاہئے، مالی مدد لینا اور نہ لینا یہ آپ کا اختیاری حق ہوگا، جس پر حکومت آپ کو مجبور نہیں کرے گی۔


 مولانا ندوی نے ایک دوسرے نہایت ہی حساس موضوع پر بھی اظہار خیال کیا، اور کہا کہ کالجز میں پڑھنے والی مسلم لڑکیوں میں بڑھتے ہوئے ارتداد کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے غیر مسلم لڑکے، تعلیمی ہیلپ مدد کے نام سے ہمارے بھولی بھالی لڑکیوں کو دام محبت میں پھنسا کر، شادی کرلیتے ہیں، آج ضرورت ہے کہ ہم کردار صدیقی ادا کرتے ہوئے اس ارتداد سے بچیوں کو روکیں، لڑکو ں کے لئے اب مدارس بہت ہوگئے ہیں، ہم بچیوں کے لئے اب ایسے مدارس اور کالج کو قائم کریں جہاں دینی ماحول میں ان کو عصری تعلیم کا بھر پور نظم ہو، پرائمری، جونیئر،ہائی اسکول سے لیکر گریجویشن اور دیگر ہائرپروفیشنل ایجوکیشن کے لئے مضبوط عصری علوم کا نظم ہو،تاکہ بچیاں مخلوط تعلیم سے بچ کر بھی اپنی عصری تعلیم سے فیضیاب ہوسکیں، اور اپنی علمی تشنگی بجھا سکیں۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad