تازہ ترین

بدھ، 27 جولائی، 2022

مدارس میں عصری علوم کی ضرورت!

مدارس میں عصری علوم کی ضرورت

مکرمی: اسلام تعلیم کے حصول پرزور دیتا ہے۔ ہمیں ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر تعلیم کےحصول کے لئے چین کا سفر کرناہوتوکریں۔ پہلے موجد،طبیب اور ریاضی دان مسلمان تھے۔ مسلمانوں کو تجارت میں بھی کمال حاصل تھا۔ تاہم موجودہ صورتحال کچھ اور ہی بتاتی ہے۔اس زوال کی ایک وجہ یہ ہے کہ مسلم کمیونٹی تعلیم کے حوالے سے اپنے نقطہ ںظر میں منقسم ہے۔ جب کہ کچھ کا خیال ہے کہ صرف دینی علم کا حصول ضروری ہے۔ 

مدارس بورڈنگ اسکولوں سے ملتے جلتے ہیں،جہاں دور دراز کے شہروں سے بچے قیام کے لیے آتے ہیں جب تک کہ وہ عربی زبان، قرآن اور حدیث سیکھنے سمیت مذہب کے بہت سے بنیادی پہلوؤں کو نہیں سیکھتے۔ زیادہ تر مدارس میں تعلیم شاذ و نادر ہی دوسرے مضامین جیسے ریاضی، سائنس، سماجی اور سیاسی علوم یا یہاں تک کہ دوسری زبانوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ مدارس کے بچوں کیلئے ماحول اور زبان کی تبدیلی ایک بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے کیونکہ زیادہ تر باقاعدہ اسکول انگریزی میڈیم کے ہوتے ہیں۔ مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ رسمی تعلیم پر خصوصی توجہ دینے کے ساتھ مدارس کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلیاں کی ضرورت ہے۔


اس سلسلے میں ایک خوش آئند تبدیلی کی ایک مثال جامعہ تجوید القرآن مدرسہ اور نور مہر اردو اسکول کے ساتھ ملوانی ملاڈ، مہاراشٹر میں ادارہ جاتی کمپلیکس ہے جسے اسکول کم مدرسہ کے بانی سید علی نے پیش کیا۔جب کہ زیادہ تر مدرسے کے اساتذہ اپنے نصاب میں جدید مضامین کو شامل کرنے میں ہچکچاتے ہیں، سید علی نے مدرسہ کے بنیادی نصاب کے ساتھ تجربہ کیا اور اسے اسکول اور مدرسہ کے اساتذہ کی مدد سے باقاعدہ تعلیمی نظام کے ساتھ مربوط کیا۔


 نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بہت سے حافظ انجینئر اور ڈاکٹر جیسی مرکزی دھارے کی ملازمتیں کرنے کے قابل ہوئے ہیں اور مالی طور پر بھی ترقی کر چکے ہیں۔ اس کے ساتھ مدرسہ کے 22 حافظوں نے حال ہی میں ایس ایس سی کا امتحان پاس کیا ہے۔ 2000 میں انسٹی ٹیوٹ کے قیام کے بعد سے گزشتہ 10 سالوں میں، 97 حافظوں نے ایس ایس سی کا امتحان پاس کیا اور معاشرے میں باعزت ملازمتیں حاصل کیں۔

سید علی نے ایک تحریک دی ہے اور ایک مثال قائم کی ہے جسے ملک بھر کے دیگر مدارس بھی نقل کر سکتے ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ کی کامیابی یہ ظاہر کرتی ہے کہ مدرسہ جانے والے لاکھوں بچوں کو مناسب ملازمت مل سکتی ہے۔اگر رسمی نظام کو مدرسہ کے نصاب کے ساتھ مربوط کر دیا جائے۔اگر سید علی کے وژن کو صحیح توازن کے ساتھ نافذ کیا جائے تو ہزاروں مدارس بچوں کے لئے ایک مضبوط پلیٹ فارم کا کام کر سکتے ہیں۔


جہاں وہ جدید دنیا کے ساتھ ساتھ دین کی بنیادی تعلیم بھی حاصل کر سکتے ہیں۔اس سے بچوں کو کیریئر کے اہداف حاصل کرنے کی ترغیب دینے میں مدد ملے گی جو مالی استحکام لائے گا اور اس طرح قوم کی ترقی ہوگی۔
شفیق الرحمٰن
نئ دہلی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad