تازہ ترین

جمعرات، 16 مارچ، 2023

گمشدہ تاریخ کو ’آثار شیراز ہند ‘نےزندہ کردیا: نرملا ایس موریہ

گمشدہ تاریخ کو ’آثار شیراز ہند ‘نےزندہ کردیا: نرملا ایس موریہ

محمد حسن پی جی کالج میں رسم اجراکے موقع پرپوروانچل یونیورسٹی کی وائس چانسلر نرملاایس موریہ کا کتاب کو تین ماہ کے اندر ہندی ایڈیشن لانے کا اعلان ، عصر حاضر میں دیگرزبانوں کے ساتھ اردو زبان سیکھنا اشد ضروری: ودود ساجد

جونپور: شیر ازہند باذوق حکمرانوں کی ادب دوستی اور مذہبی احترام کے باوجود اپنی سابقہ شان وشوکت برقرار نہیں رکھ سکا، لیکن شیراز ہند کے بکھرے ہوئے سلسلوں کو عام فہم زبانوں میں مجموعہ کی شکل میں لاکر جونپور کوان کا شکرگزار بنادیا۔جس میں شیراز ہند جونپور کی علمی ، تہذیبی اورتمدنی شہرت تاریخ کے صفحات پر سنہرے حروف میں نقش ہے۔ 


یہ باتیں پوروانچل یونیورسٹی کی وائس چانسلر نرملاایس موریہ نےمحمد حسن پی جی کالج جونپور میں ’آثار شیرازہند‘ کی رسم اجرا کے دوران کہیں۔
 وائس چانسلر نے کہاکہ ’جونپور کی تاریخی عظمت ایک متاع گمشدہ ہوگئی تھی جسے حاجی ضیاء الدین نے کتابی شکل دے کر زندہ کردیا۔اس کتاب کو پڑھنے کے بعد شیراز ہند کی تاریخی اہمیت کے ساتھ ساتھ بچپن کی یادیں بھی تازہ کر دیتی ہیں۔ اس کتاب کا ہندی ایڈیشن شائع کرنے کی میں ذمہ داری لیتی ہوں ۔میں وعدہ کرتی ہوں کہ تین ماہ کےاندر اس منفردکتاب کو ہندی زبان میں منظر عام پر لائوں گی تاکہ اسکول اور کالج کے طلبہ اس سے بھر پوراستفادہ کرسکیں‘۔

تقریب سے آن لائن خطاب کرتے ہوئے روزنامہ انقلاب کے ایڈیٹر ودوساجد نےکہا مجھے بے حد خوشی ہورہی ہے کہ ہمارے نمائندہ انقلاب نے جونپور کی کھوئی ہوئی تاریخ و اس کی شناخت کو زندہ کردیا ہےجو نئی نسلوں کیلئے یقیناً کارآمد ثابت ہوگی۔ ایڈیٹر نے کہا کہ عصر حاضر میں لوگ اردو زبان سے دوری اختیار کررہے ہیں، جبکہ اردو اور ہندی دونوں زبانیں ایک دوسرےکی بھائی ہیں۔ 


 سپریم کورٹ میں ایک مقدمہ میں بحث کے دوران کسی وکیل کے ذریعہ اردو شعر کے  ذکرپرسینئر وکیل کپل سبل نے کہا کہ اردو زبان تو مرچکی ہے جس کو سن کر مجھے افسوس ہوا ۔ایسے حالات میں اردو زبان کو زندہ رکھنے کیلئے ہمیں اپنے بچوں کو اردو کی طرف راغب کرنے کی ضرور ت ہے۔ میں حاضرین سے اپیل کرتاہوں کہ اردوزبان کی بقا کیلئے ہندی ، انگلش کے ساتھ اردواخبار کو ضرور خرید کر پڑھیں تاکہ نئی نسل اردو زبان کی اہمیت وافادیت سے واقف ہوسکے۔ مدیرنے جاگرن ٹیم کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ اگر ان کا تعاون حاصل نہیں رہتا تو شاید ان بکھرے ہوئے تراشوں کو کتاب کی شکل میں منظر عام پر لانا ممکن نہیں تھا ۔ 

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل زیڈ کے فیضان نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ حاجی ضیاء الدین مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے جونپور کی کھوئے ہوئے تاریخی قصبات واثاثوں کو زندہ کردیا ہے ۔


 مصنف نے اپنے کتاب کے اندرتاریخ کے ساتھ ساتھ جونپور کے اطراف وجوانب کی ثقافتی سرگرمیاں جو  مٹتی جارہی تھی اسے کتاب کے مشمولات میں تفصیلی طورپرذکر کے نئی نسل کو روشناش کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ خاص طورپر انہوں نے ’قاضی قطبی‘ محلے کا ذکر کر تے ہوئے کہا کہ موجودہ وقت میں محلہ کا نام بگاڑ کر’ کالی کتی‘ کردیا گیاہے جو آج بھی اسی نام سے عوام میں رائج ہے۔


شبلی کالج کے تاریخ کے پروفیسر ڈاکٹر علائوالدین خان نے شیرازہند کی تاریخ پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ میں تاریخ کا طالب علم رہا ہوں اور جونپور کی تاریخ کو چند منٹوں میں سمیٹنا بہت مشکل ہے یہاں کی درو دیوار تغلق ، سلاطین شرقی ، اور مغل حکمرانوں کی گواہ ہیں، علماءکرام کی جہاں طویل فہرست ہے وہیں ادب نواز شخصیات کا دور کافی سنہرا رہا ہے جس کو چند منٹوں یا ساعتوں میں بیان نہیں کیا جا تا ہے یقیناً مصنف نے تاریخی عمارتوں اور دیگر شخصیات کو قلمبند کر کے غیر معمولی کارنامہ انجام دیا ہے جس کے لیے مبارک باد کے مستحق ہیں۔  



انقلاب لکھنؤ کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر جیلانی خان علیگ نےاپنے جذباتی خطاب میں حاجی ضیاء الدین کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ واقعی ہمارے نمائندے نے ایمانداری اور محنت سے جو مقام حاصل کیا ہے وہ بہت ہی کم لوگوں کو ملتا ہے عوامی جذبات و جم غفیر دیکھ کر احساس ہو اکہ محنتوں اور مثبت سوچ کے ساتھ اپنا مقام بنا یا جا سکتا ہے جس کو ضیاء الدین نے کر دکھا یا ہے۔ واقعی جونپور کی تاریخ میں بہت کچھ چھپا ہوا ہے،یہاں کی تاریخ ملک ہی نہیں بیرون ملک میں اپنی ایک شناخت رکھتی ہے۔



آخر میں محمد حسن پی جی کالج کے پرنسپل ڈاکٹر عبدالقادر خان نے وائس چانسلر کے ذریعہ آثار شیراز ہند جونپور کو ہندی میں منظر عام پر لائے جانے کا اعلان کئے جانے پر خوشی کا اظہار کر تے ہوئے کہا کہ یقینا ًیہ کتاب اسکالرس و طلبہ کے لئے مشعل راہ ثابت ہو گی اور ہم بہت جلد کتاب کے ہندی ورژن کا جشن منا ئیں گے ۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر اشفاق احمد انادی ٹی وی ، عبداللہ فاروق ، ڈاکٹر فخرالدین قاسمی ، ڈاکٹر عبدالوحید قاسمی ، عرفان جو نپوری ، ابرار احمد ندوی وغیرہ نے بھی پروگرام سے خطاب کیا ۔روزنامہ انقلاب کے نیوز ایڈیٹرشاہ عالم اصلاحی نےتمام مہمانوںاور حاضرین کا شکریہ اداکیا۔    


پروگرام کا آغاز مولانا عبداللہ زکریا قاسمی کے تلاوت کلام پاک سے ہو ا۔ نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئےعارف صدیقی ’ایڈووکیٹ ‘نے منفر دلب و لہجے سے حاضرین کا دل جیت لیا۔


اس موقع پر نعمان خان ، ڈاکٹر تبریز عالم ، شاہد نعیم ، ڈاکٹر ضیاء الدین پر دھان ، سراج پر دھان ، عمران بنٹی ، اعظم خان ، ساجد خان اعظمی ، عبداللہ ایڈووکیٹ، راحیل عبداللہ ، بلال جاوید، پرویز عالم بھٹو م مسیح الزماں خان ، حسان احمد قاسمی ، عبدالباعث، عامر اصلاحی ،  محمد اسلم، ڈاکٹر عدیل ، رحمت اللہ مصباحی ، ابوالفیض خلیلی ، مقصود احمد ، شہرت علی ،کے علاوہ کثیر تعداد میں معززین شہر موجود تھے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad